از قلم:محمد آفتاب عالم مصباحی (سیتامڑھی)
ماہ رمضان کی جو فضیلت وخصوصیت ہے اس سےہرصاحب ایمان اچھی طرح باخبر ہے۔ اس ماہ سعید کی جو خاص اوراہم عبادت ہے وہ ہے روزہ رکھنا۔ مگر روزہ کے کیا فائدے ہیں ؟ اوراس کے بدلے مسلمان کو کیا نصیب ہوتاہے؟
ان سوالوں کاجواب قرآن کریم کی اس آیت میں موجود ہے۔فرمان باری تعالی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ. (البقرۃ : ١٨٣)
”لعلکم تتقون “ جو اس آیت کا حصہ ہے؛ اس کی گہرائی میں غوطہ زن ہوں گے تو آپ پر یہ بات عیاں ہوجائے گی کہ یہ اپنے اندر نہایت عجیب اور بڑا جامع معنی رکھتاہے۔ روزے کی ساری ظاہری وباطنی اورانفرادی واجتماعی خصوصيات کی حامل ہیں۔ جو اس راہ حق کاراہی بن جاتاہے، وہ اللہ کا مقرب بندہ ہوجاتا ہے۔ اورمتقیوں کی فہرست میں شمار کیا جانے لگتاہے۔تو معلوم یہ ہوا کہ روزہ کا ارفع واعلی درجہ حصول تقوی ہے۔
تقوی کا مطلب اللہ تعالی کی عظمت ورفعت اورہیبت وجلالت دل میں اس طرح راسخ ہوجاناکہ انسان اس کی ناراضگی ونافرمانی کے ارتکاب سے ہمہ پہلو باز رہے۔ زندگی کے ہرشعبے اور ہرمعاملے میں اس کی ہدایات واحکام کا کاربند رہے۔ اس کی خوشنودی اور چاہت کے آگے سب کچھ قربان کردے۔ یہ تقوی روزے سے اس طرح پیداہوتاہےکہ کھانے پینے اور جماع سے پرہیز کے ساتھ ساتھ تمام اخلاق رزیلہ اوراعمال قبیحہ سےخودکو محفوظ رکھتاہے۔ مثلاً : جھوٹ، غیبت، چغلخ خوری، بد عہدی، بددیانتی، بدنظری، بدفعلی، رشوت، چوری وغیرہ کہ یقیناً ان تمام افعال مذموم کو زندگی سے خارج کرناپڑےگا؛ کیوں کہ یہی تقوی کا تقاضا ہے۔ اور روزے کا مقصود ومرادبھی۔ اگر انسان اس ماہانہ مشق کواحساس وشعور کا نمونہ اور زندگی کا حصہ بنالے تو حقیقی معنوں میں اللہ سبحانہ تعالی کایہ خوف قدم قدم پر اس کی رہبری و رہنمائی کرتی دکھائی دے گی۔ خشیت الہی ہمیشہ اس کے دل میں پیوست رہےگی۔ اب وہ خوف خدا کی وجہ سے حلال اور جائز امورکےساتھ ساتھ ان افعال کے ارتکاب سے بھی خود کر بری رکھے گا۔ جن کوحرام و ناجائز قرار دیاہے۔ روزہ سے ایمانی قوت میں مضبوطی اورپختگی پیدا ہوتی ہے۔ اللہ کی اطاعت وبندگی میں قلبی راحت محسوس کرتاہے۔ حالت روزہ میں اپنی خواہشات ولذات کو قربان کرکےیقین کے مراتب کو پہنچ جاتاہے۔روزے کی مشکلات اورمشقتیں روزہ دار کے اندرعقیدۂ آخرت میں تازگی اور یقین کامل پیدا کرتی ہے۔ شب و روز کے لمحات واوقات میں اللہ تعالی کی فرماں برداری اس کے اندراللہ تعالی کی عبودیت وبندگی اور اس کے سامنے سرافندگی وخودسپردگی کی ایک جہاں آباد کردیتی ہے۔ صبر کی ایسی صفت جنم لیتی ہےکہ وہ اللہ کی رضا کے لیے تھوڑے سے خوردونوش پر راضی رہتا ہے۔ کلمۂ حق کی خاطر ساری دنیا سے لڑنے اورباطل قوتوں سے نبرد آزما ہونے کےلیے تیار رہتاہے۔ خلوت وجلوت ہر جگہ پر معصیت و نافرمانی کی غلاظت سے اپنے دامن کو پاک وصاف رکھتاہے۔ اس کے اندر صبغةاللہ کی جلوہ آرائی نظرآنےلگتی ہے۔ جب یہ تمام رنگ ایک روزہ دارکے اندر جاگزیں ہوجاتاہے، تب وہ برائی کو دیکھنا بھی ناپسند کرتاہے اوراس کی طرف پلٹنا اس کے لیے مشکل ودشوار ہوجاتاہے۔ یہی حقيقی تقوی ہے؛ جو برائی کی راہ میں سدسکندری بن جاتاہے۔
معبود حقيقی سےدعاہےکہ وہ ہمیں ایسی توفیق سے نوازے کہ ہم روزوں کی اس بنیادی غرض ”تقوی “ کو حاصل کرنے کی سعی وکوشش کریں، اوریہ تقوی ایک دفعہ ہاتھ لگ جائے، تو پھر کبھی ساتھ نہ چھوڑے، بلکہ ہمیشہ تقوی کےاعلی مراتب کوحاصل کرنے کا باعث بنے، تاکہ پورے طورپر محبوب حقيقی کے حفظ وامان میں آجائیں ،اورلاالہ الااللہ کے اقرار پر ہماری زندگی عملی گواہ بن جائے ۔ آمین ثم آمین، یا رب العالمین! بجاہ سید المرسلین – ﷺ –