قرآن و تفسیر

استقامت درکار ہے مداہنت نہیں

ازقلم: پٹیل عبد الرحمٰن مصباحی، گجرات (انڈیا)

ترجمہ: تو جھٹلانے والوں کی بات نہ سننا۔ وہ تو اس آرزو میں ہیں کہ کسی طرح تم نرمی کرو تو وہ بھی نرم پڑ جائیں۔(القلم، 9)

اولاََ مداہنت کی مختصر توجیہ ملاحظہ کریں. مداہنت کیا ہے اس پر کلام کرتے ہوئے مبرد نے کہا:

ترجمہ : مبرد نے کہا، انسان کا اپنے دین یا اپنے معاملے میں مداہندت کرنا یہ ہے کہ وہ اس میں خیانت کرے اور خلاف واقع کا اظہار کرے. لہٰذا آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ پیغمبر بعض وہ کام ترک کر دیں جو مشرکین کو پسند نہیں ان کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے، تو مشرکین بھی کچھ ایسے کام چھوڑ دیں گے جو پیغمبر اسلام کو پسند نہیں. اس طرح دونوں طرف سے ایک دوسرے کے لیے نرمی کا مظاہرہ ہو جائے گا۔

آیت کے پس منظر کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ دانشور قسم کے مشرکین نے رحمۃ للعالمین ﷺ کو بظاہر خیر خواہی والے انداز میں یہ پیش کش کی کہ آپ اگر چہ اللہ کی بات کرتے ہیں، کرتے رہیں! مگر ہمارے بتوں کے بارے میں کچھ نرمی سے کام لیں. ہوگا یہ کہ آپ اگر بتوں کے لیے تھوڑی سی نرمی دکھائیں گے تو ہماری طرف کے متشدد جہلاء بھی آپ کی رواداری کے سبب نرم پڑ جائیں گے اور کسی نہ کسی حد تک آپ کے اللہ کو بھی اپنے معبودوں میں جگہ دے دیں گے. وہ چاہتے ہیں کہ تم جن احکامات پر کاربند ہو ان میں سے کچھ ہی تو ہیں جو انہیں پسند نہیں. بس ان چند باتوں کو چھوڑ دو تو ہم بھی تمہارے ساتھ رواداری برتیں گے اور اپنی کچھ رسمیں تمہارے بھائی چارے کی خاطر موقوف بھی کر دیں گے. ان کی اِس پیش کش پر "لعلّكَ باخِع نفسَكَ علیٰ آثارِھم” کی شان والے رسول کو بارگاہ الٰہی سے حکم ہوا کہ جھٹلانے والوں کی پیروی نہ کرو. تمہاری بے جا رواداری سے یہ ایمان نہ لائیں گے بلکہ اپنے کفر پر مزید اڑ جائیں گے۔

یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ یہ سارا واقعہ مکہ کے ابتدائی دور کا ہے. ضعف اسلام کا زمانہ ہے اور آگے بڑھنے کے لیے ہر قسم کی معاونت کی شدید حاجت ہے، نہ صرف یہ کہ معاونت کی حاجت ہے بلکہ اہل اسلام کی مظلومیت کا دور دورا ہے اور قوی امکان ہے کہ اصول میں کچھ نرمی کرنے سے دیگر کوئی فائدہ نہ بھی حاصل ہو تو کم از کم کمزور مسلمانوں کے ساتھ ہو رہے ظالمانہ سلوک میں کافروں کی طرف سے کچھ کمی برتی جائے. ایسے حوصلہ شکن حالات کے باوجود دین میں کسی قسم کی مداہنت کی اجازت نہیں دی جا رہی، بلکہ دیگر آیات اور بہت سی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے ماحول میں بھی آخری پیغمبر ﷺ نے اپنے اصحاب کو مسلسل صبر کی تلقین کی اور اسلامی اصولوں پر قائم رہنے کے عوض آئندہ میسر آنے والی کامیابیوں کی بشارت سنائی۔

جدید دنیا میں بھی ایسے بہت سارے مراحل اہل اسلام کو پیش آتے رہتے ہیں جب اسلامی شعائر یا معتقدات سے اغماض برتنے یا ان کو پس پشت ڈالنے یا کم از کم ان کو جدیدیت سے موافق شکل میں پیش کرنے پر بہت ساری مراعات اور سہولیات کی نوید سنائی جاتی ہے. عام انسان کو داڑھی ترک کرنے کے عوض؛ نوکری فراہم کرنے سے لے کر اعلیٰ درجات پر فائز قائدین کو دین کی کمزور نمائندگی کے عوض؛ لکژری لائف اور پیسوں کی ریل پیل کے آفر تک؛ تمام درجات کو قرآنی تناظر میں "ودوا لو تدھن فیدھنون” کا پر پیچ تبادلہ کہا جا سکتا ہے. ایسے تبادلوں کی جب ابتدائی ایام میں ضعف اسلام کے وقت کوئی گنجائش نہ تھی تو آج قرب قیامت دورِ فتن میں "مداہنت” کے ایسے راستے کھولنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

لہٰذا جو شخص دین میں مداہنت کو مسلمانوں کے زوال کا علاج سمجھتا ہے وہ دھوکے میں ہے بلکہ اسلامی تعلیمات سے نِرا بے خبر ہے. آج مسلمانوں کے درمیان ہر نو پید نظریہ کے بعض پہلوؤں کو اسلام سے ہم آہنگ دکھا کر اس کے سامنے سجدہ ریزی کی دعوت دینے والے مداہنت پسند دانشوروں کو یہ سمجھانا بہت دشوار ہے کہ سیکولر اصولوں پر مبنی ایمان سوز بھائی چارے کے طریقے اسلام میں روز اول ہی سے ممنوع قرار دیے گئے ہیں. اِس مشکل کی وجہ یہ ہے کہ وہ عقل کا کلمہ پڑھ چکے ہیں، جدید نظریات سے مرعوب ہو گئے ہیں اور لگاتار اسلامی اصولوں کے خوش گوار نغموں سے منہ موڑ کر مداہنت کا پھٹا ہوا ڈھول پیٹنے میں مصروف ہیں۔

ایک مسلمان کے لیے جدید دنیا میں اپنی دینی شناخت بچائے رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ مداہنت پر مبنی لچر پچر توجیہات اور کَلر فل اسلام کے نعروں سے بچے اور اچھی طرح جان لے کہ کامیابی کا قرآنی اصول ایک ہی ہے، وہ یہ کہ ماحول سے بے نیاز ہو کر دین پر استقامت دکھاؤ گے تو حال کیسا بھی ہو مستقبل تمہارا ہوگا. تم ہی سب سے بلند ہو اگر تم مومن ہو. اللہ کافروں کو مسلمانوں پر راہ نہیں دیتا. جنہوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اس پر ڈٹ گئے وہ بے خوف اور بے غم کر دیے گئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے