ازقلم: فہیم جیلانی احسن مصباحی
فقیہ اسلام الحاج حضرت علامہ مفتی عبد الحلیم اشرفی رضوی صاحب قبلہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں، امت مسلمہ میں آپ کی مقبولیت اور معرفت حق کا راز یہ ہے کہ آپ نےاپنے زمانے کے خاصانِ حق، اولیا، صالحین اورمشائخ و اکابرین کی صحبت اختیار کی اور ان کے فیوض و برکات سے مالا مال ہوئے،اور مرجع عوام و خواص بنے۔
یہ سب ان پاکباز ہستیوں کی صحبت کا نتیجہ رہا جو آپ کو میسر آئیں، اور یہ حقیقت بھی ہے کہ آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے،مشہور انگریزی محاورہ ہے :
A man is known by the company he keeps
اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگر یہ جاننا ہو کہ فلاں آدمی بھلا ہے یا برا؟ تو اس کے دوست و احباب کو دیکھ لیا جائے۔ اسی سے اس کے بھلا یا برا ہونا سمجھ آجائے گا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ”عن المرء لا تسئل وسل عن قرینہ فکل قرین بالمقارن یقتدی”
کسی بھی آدمی کے بارے میں مت پوچھ(وہ بھلا ہے یا برا) ! بلکہ اس کے دوست کے متعلق پوچھ۔کیونکہ دوست اپنے دوستوں کے پیروکار ہوتے ہیں۔
اور نبی کریم ﷺ نے اچھے اور برے دوست کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا:
((مثل الجلیس الصالح والجلیس السوء کحامل المسک ونافخ الکیر ،فحامل المسک اما أن یحذیک ،واما أن تبتاع منہ،واما أن تجد منہ ریحا طیبۃ،ونافخ الکیر اما أن یحرق ثیابک،واما أن تجد منہ ریحاخبیثۃ))[متفق علیہ]’’اچھے دوست اور برے دوست کی مثال کستوری اٹھانے والے اور بھٹی جھونکنے والے کی مانند ہے،کستوری اٹھانے والا یا تو آپ کو ہدیہ میں دے دیگایا آپ اس سے خرید لیں گے یا کم از کم اچھی خوشبو تو پائیں گے،جبکہ بھٹی جھونکنے والا آپ کے کپڑوں کو جلا دے گا یا کم از کم آپ اس سے بدبوپائیں گے۔‘‘
یعنی جس طرح کستوری والے کے پاس بیٹھنے سے فائدہ ہی فائدہ ہے اسی طرح اچھی صحبت اختیار کرنے سے انسان خیر اور بھلائی میں رہتا ہے جبکہ بھٹی جھونکنے والے پاس بیٹھنے سے نقصان ہی نقصان ہے ۔ اسی بری صحبت اختیار کرنے سے انسان خسارہ میں ہی رہتا ہے۔مذکورہ بالا حدیث کے راوی حضرت ابوموسی أشعری ہیں۔
اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے ان کے ساتھ بیٹھنے اور ان سے محبت کرنے کی کتاب وسنت میں بھی بہت سی فضیلتیں وارد ہیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:((لاتصاحب الا مؤمناولا یأکل طعامک الا تقی)) [ابوداؤد،ترمذی]
’’صرف مومن شخص کی صحبت اختیار کر،اور تیرا کھانا صرف متقی شخص کھائے۔‘‘اس حدیث کے راوی حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔
اورحضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:((الرجل علی دین خلیلہ فلینظر أحدکم من یخالل))
’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے،پس چاہیے کہ تم میں سے ہر شخص اپنے دوست کو دیکھے۔‘‘یہ حدیث ابوداؤد،ترمذی میں موجود ہے۔
اور نبی کریمﷺ نے فرمایا:((المرء مع من أحب))’’آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے محبت کرتا ہے۔‘‘
یعنی دنیا میں جس سے محبت کرے گا آخرت میں اس کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا۔ حضرت ابوموسی أشعری اس حدیث کے راوی ہیں۔ اور اس متعلق یہ واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیں!!
’’کشف المحجوب‘‘ میں حضرت سید علی بن عثمان المعروف بہ داتا گنج بخش رقم فرما ہیں کہ ایک مرد طواف کعبہ کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ،’’اللھم اصلح اخوانی‘‘ اے اﷲ میرے بھائیوں کو نیک بنا دے ، اس سے کہا گیا اس مقام پر تو اپنے لیے دعا کیوں نہیں کرتا بلکہ تو اپنے بھائیوں کیلئے دعا کرتاہے ۔ اس نے جواب دیا۔ اے بھائی! جب میں ان میں جاؤں گااگر وہ صالح ملے تو میں بھی ان کی صالحیت یعنی نیکی سے صالح ہوجاؤں گا، اور اگر وہ فسادی رہے تو میں بھی ان کے فساد سے مفسد ہوجاؤں گا۔جب صحبت صالحاں ہی میرا قاعدہ ہے تو میں بھی ان کی صحبت سے صا لحیت اختیار کرلوں گا۔اس لیے اپنے بھائیوں کیلئے دعا کرتا ہوں تاکہ ان کے ذریعے میرا مقصد حاصل ہوجائے ۔
حاصل کلام یہ کہ انسانی زندگی پر اچھی صحبت کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔اور اسی طرح بری صحبت اختیار کرنے سے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالح تراطالح کند
قارئین! ہم گفتگو کر رہے ہیں حضرت مفتی عبدالحلیم صاحب قبلہ کے تعلق سے، جب آپ بے چین ہوتے تو علما و مشائخ بزرگانِ دین اور اولیاء اللہ کی صحبت و معیت ہی آپ کے درد دل کا مداوا ہوتی۔ آپ کو جن بزرگ، اولیا اور مشائخ کی صحبت میسر آئی ، آئیے! اس پر ایک نظر ڈالیں۔
(۱)محدثِ اعظمِ ہند: آپ کے پیر و مرشد میں محدثِ اعظمِ ہند ابوالمحامد اعلی حضرت سید محمد اشرفی جیلانی کچھوچھوی محدث و مفسر، مترجم و شارح، مفکر و مدبر، خطیب و ادیب، کا اسم گرامی بھی آتا ہے۔
یہ محدثِ اعظم ہند سید محمد کچھوچھوی وہی ہیں جنہوں نے محیر العقول اور نادرِ روزگار اردو ترجمہ ء قرآن بنام "معارف القرآن” 28 سال کی محنت شاقہ کے بعدقومِ مسلم کو ایک بہترین تحفہ کے طور پر دیا۔
علامہ سید محمد مدنی اشرفی فرماتے ہیں کہ:قرآن کے صحیح مفہوم و مطلب سے دنیا والوں کو خبر دار کرنے کی ضرورت کو سید محمد محدث نے شدت کے ساتھ محسوس کیا اور دینی و تعلیمی مصروفیتوں کے باوجود قرآنِ کریم کے ترجمہ و تفسیر کا قصد فرمایا۔ ترجمہ فرمانے کا کیا نرالا انداز تھا، تبلیغی پروگرام میں کوئی کمی نہیں، ایک عالم اپنے ساتھ رکھے ہوئے ہیں، مستند و معتمد علیہ تفاسیر کا اچھا خاصا ذخیرہ جو ان کے ساتھ رہتا ہے، نگاہوں کے سامنے ہے، ترجمہ بولتے جاتے ہیں، وہ لکھتا جا رہا ہے۔ ویٹنگ روم میں بیٹھے ہوئے ترجمہ لکھا رہے ہیں، گاڑی میں سفر کر رہے ہیں ترجمہ بول رہے ہیں اور رمضان کے موقع پر مکان آئے ہوئے ہیں اوراس دینی کام میں مصروف ہیں۔ ٦/ذوالحجہ ۱۳٦٦ھ میں پورے قرآن کا ترجمہ ختم فرما کر تفسیر کی طرف متوجہ ہوئے۔
(ماہنامہ آستانہ : کراچی، محدثِ اعظم نمبر 1995ء)
آپ کو ایک لاکھ سے زائد احادیث مع اسناد صحیحہ یاد تھیں، اور بالاتفاق اکابرین و معاصرین نے آپکو ”محدِّث اعظم ہند ،، کے لقب سے سرفراز فرمایا ۔
آپ کے اساتذہ میں مولانا عبد الباری فرنگی محلی ، مولانا لطف اللہ علی گڑھی، مولانا مطیع الرسول محمد عبد المقتدر بدایونی اور مولانا وصی احمد محدث سورتی جیسے جلیل القدر حضرات کا شمار ہوتا ہے۔مجدد امام احمد رضا خان محدثِ بریلی کے حلقۂ درس میں بھی آپ نے شرکت کی اور امام احمد رضا خان فاضل بریلی علیہ الرحمہ سے فقہ اور اس کے جملہ متعلقات، افتا نویسی وغیرہ فنون میں مہارتِ تامہ حاصل کی۔
آپ کا وصال پر ملال ۱٦/رجب المرجب ۱۳۸۱ھ مطابق ۲۵/دسمبر ۱۹٦١ء کو لکھنؤ میں ہوا۔ اور تدفین کچھوچھہ،ضلع فیض آباد(اتر پردیش) میں ہوئی۔ آپ کا مزار آج بھی مرجع خلائق بنا ہوا ہے۔
حضرت مفتی عبد الحلیم صاحب قبلہ کی اپنے پیر و مرشد حضرت محدثِ اعظم ہند سے پہلی بار ملاقات بریلی شریف میں ہوئی، اور استاذ الاساتذہ حضرت محدث احسان صاحب علیہ الرحمہ کے حکم پر اسی وقت بیعت ہو گئے۔
مگر مستقل طور پر پیر و مرشد کی بارگاہ میں رہنے کا موقع نہ مل سکا کیونکہ یہ آپ کا زمانہ طالب علمی تھا۔
لیکن جب محدثِ اعظم عرس رضوی میں تشریف لاتے تو آپ کی زیارت اور خدمت کا موقع مل جاتا۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔ بالآخر پھر ایک سال محدثِ اعظم ہند علیہ الرحمہ عرس رضوی میں تشریف لائے تو آپ ہی خدمت پر مامور ہوئے۔ اس وقت آپ نے موقع غنیمت جان کر حضرت محدثِ اعظم ہند سے تجدید بیعت کی خواہش ظاہر کی۔
تو حضرت محدثِ اعظم ہند نے تجدید بیعت کے بعد اپنے دست مبارک سے شجرہ عنایت کیا ، ساتھ ہی ایک وظیفہ بھی عطا فرمایا جو سلسلہ اشرفیہ کا تھا۔
اس وظیفہ کو استغفار ملائکہ کہا جاتا ہے۔
وظیفہ یہ ہے: "استغفر الله ربی من جمیع ما کرہ اللہ قولاً فعلا سمعا نظرا ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم”
حضرت محدثِ اعظم ہند علیہ الرحمہ نے آپ کو اس کا طریقہ بتایا اور فرمایا سوا لاکھ بار پڑھو! پھر آپ نے اس کے فوائد بھی بتائے کہ اس کے پڑھنے سے اللہ تبارک و تعالٰی گناہ کرنے کی قوت ختم کردے گا۔
جب محدثِ اعظم ہند علیہ الرحمہ دنیا سے رخصت ہوگئے تو آپ حضرت مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ سے طالب ہو کر ان کی تربیت میں آگئے۔اور حضور مفتی اعظم کی حیات تک ان سے بھی مستفیض ہوتے رہے۔
(٢) حضور مفتی اعظم ہند :
مرجع العلماء و الفقہاء سیدی حضور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ الشاہ ابو البرکات محی الدین جیلانی آل رحمٰن محمد مصطفی رضا صاحب قبلہ نور اللہ مرقدہ کی ولادت با سعادت 22/ذی الحجہ 1310ھ 7/جولائی 1893ء بروز جمعہ بوقتِ صبح صادق ہوئی۔ آپ کی جائے ولادت محلہ رضا نگر، سوداگران شہر بریلی شریف ، یوپی انڈیا ہے۔
قرآن پاک کی اس آیۃ سے حضور مفتئ اعظم ہند قدس سرہ کی ولادت کا سن ہجری نکلتا ہے۔
وَ سَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِينَ اصْطَفٰی
اور سلام اس کے چُنے ہوئے بندے پر. (سورۃ النمل،آیت ۵۹)۔
آپ کا پیدائشی نام ’’ محمد ‘‘ عرف ’’مصطفی رضا‘‘ اور جبکہ مرشد برحق حضرت شاہ ابو الحسین نوری علیہ الرحمہ نے "آل الرحمن ابو البرکات” نام تجویز فرمایا ۔ اور چھہ ماہ کی عمر میں بریلی شریف تشریف لا کر جملہ سلاسل عالیہ کی اجازت و خلافت عطا فرمائی اور ساتھ ہی امام احمد رضا قدس سرہ کو یہ بشارت عظمیٰ سنائی کہ یہ بچہ دین و ملت کی بڑی خدمت کرے گا اور مخلوق کو اس کی ذات سے بہت فیض پہونچے گا۔ یہ بچہ ولی ہے ۔
بیعت کرتے وقت مرشد کامل نے فرمایا :یہ بچہ دین وملت کی بڑی خدمت کرے گا اور مخلوق خدا کو اس کی ذات سے بہت فیض پہنچے گا ، یہ بچہ ولی ہے ، اس کی نگاہوں سے لاکھوں گمراہ انسان دین حق پر قائم ہوںگے ،یہ فیض کا دریا بہائے گا ۔(پندرہ روزہ رفاقت ،پٹنہ ،۱۵؍دسمبر ۱۹۸۱ ء ،ص ؍ ۱۳)
آپ علیہ الرحمہ نے جملہ علوم و فنون اپنے والد ماجد سیدنا امام اح
مد رضا فاضل بریلی قدس سرہ
۔ برادر اکبر حجۃ الاسلام حضرت علامہ شاہ محمد حامد رضا خاں صاحب علیہ الرحمۃ و الرضوان۔ استاذ الاساتذہ علامہ شاہ رحم الہی منگلوری ۔ شیخ العلماء علامہ شاہ سید بشیر احمد علی گڑھی ۔ شمس العلماء علامہ ظہور الحسین فاروقی رامپوری سے حاصل کئے اور ۱۸ سال کی عمر میں تقریباً چالیس علوم و فنون حاصل کر کے مرکزِ اہل سنت دار العلوم منظر اسلام بریلی شریف سے سند تکمیل و فراغت پائی ۔
فتویٰ نویسی؛ اٹھارہ برس کی عمر میں ۱۳۲۸ ھ/ ۱۹۱۰ ء میں آپ نے پہلا فتویٰ تحریر فرمایا اصل میں معاملہ یہ ہوا کہ دارالافتاء بریلی میں امام احمد رضاقدس سرہ کی زیر نگرانی ملک العلماء مولانا ظفر الدین بہاری اور مولا ناسید عبد الرشید کام کرتے تھے۔ ایک دن اتفاقا حضرت مفتی اعظم قدس سرہ وہاں تشریف لائے۔ دیکھا کہ مولانا ظفر الدین بہاری کسی مسئلہ کی وضاحت کی لئے فتاویٰ رضویہ الماری سے نکال رہے ہیں۔آپ نے فرمایا۔مولانا!کیاآپ فتاویٰ رضویہ دیکھ کر جواب لکھتے ہیں۔اس پرملک العلماء مولانا ظفراالدین نے فرمایا۔اچھا آپ بغیردیکھے جواب لکھ دیں تو جانیں۔مفتی اعظم نے فوراً استفتاء کا جواب تحریر فرما کر دے دیا یہ رضاعت کامسئلہ تھا۔فتویٰ اصلاح کے لئے امام احمد رضا قدس سرہ کی خدمت میں پیش ہوا۔آپ نے صحت جواب پر مسرت واطمینان کا اظہار فرمایااور’’صح الجواب بعون اللہ العزیز الوھاب،،لکھ کر دستخط ثبت فرما دئے۔ یہی نہیں بلکہ بطور انعام’’ابوالبرکات محی الدین جیلانی آ ل رحمٰن محمد عرف مصطفیٰ رضا‘‘ کی مہر بنوا کر دی ۔آپ نے اپنے والد ماجد امام احمد رضا قدس سرہ کی حیات ظاہری میں ۱۳۲۸ھ سے ۱۳۴۰ھ تک تیرہ برس تک فتاویٰ لکھے۔والد ماجد کے وصال کے بعد ۱۳۹۵ھ تک مسلسل فتوی نویسی فرمائی ۔بعد از آں بوجہ ضعف و علالت فتوی نویسی کا کام نہ ہو سکا۔تاہم آخری لمحات تک مفتیان دین کی علمی مشکلات کو زبانی حل فرماتے رہے۔اس طرح ستّر ؍۷۰ برس کے طویل عرصہ تک بلا معاوضہ فتوی نویسی فرمائی ۔آپ کے پاس بر صغیر ہند و پاک اور بنگلہ دیش کے علاوہ ممالک افریقہ ،امریکہ،سری لنکا ،ملیشیاء،مشرق وسطی اور یورپ تک کے علماء فتوی کے لئے رجوع فرماتے تھے۔(محدث اعظم پاکستان،ج؍۱،ص؍۶۹)
آپ کے تلامذہ اور آپ سے استفادہ کرنے والوں کی لمبی قطار ہے جن میں سے بعض کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں:محدث اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمدگورداس پوری ثم لائل پوری،فقیہ عصر مولانا اعجاز ولی خان رضوی بریلوی ، رئیس الاتقیاء مولانا مبین الدین امروہی،فقیہ الہند شارح بخاری مولانا مفتی شریف الحق امجدی ،مولانا محمد ریحان رضا خان رضوی بریلوی ،فقیہ اسلام مولانا مفتی محمد اختر رضا خان ازہری ،مفتی افضل حسین مونگیری ،مولانا قاضی عبد الرحیم بستوی ،مولانا مفتی برہان الحق جبل پوری علیہ الرحمہ
آپ علیہ الرحمہ نے تصنیفات و تالیفات کا ایک گراں قدر ذخیرہ چھوڑا۔ ان میں سے بعض کے اسماء یہ ہیں۔
(۱)فتاویٰ مصطفویہ اول ودوم(۲)وقعات السنان (۳)ادخال السنان (۴)الموت الاحمر(۵)ملفوظات اعلیٰحضرت (۶)الطاری الداری لھفوات عبد الباری (۷)القول العجیب فی جواب التثویب(۸)سامان بخشش(۹)تنویر الحجۃ بالتواء الحجۃ (۱۰)ہشتاد بید وبند(۱۱)طرق الھدیٰ والارشاد (۱۲)وقایہ اہل السنۃ وغیرہ
وصال: اکانوے سال اکیس دن کی عمر میں مختصر علالت کے بعد 14/محرم الحرام 1402ھ، بمطابق 12 نومبر 1981ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔( جہانِ مفتیِ اعظم)
فقیہ اہلِ سنت جن دنوں محدثِ اعظم ہند علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے تھے ان دنوں مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ بریلی شریف میں قیام پذیر نہیں تھے۔ ایک دن فقیہ اہلِ سنت مدرسہ منظر اسلام سے باہر نکلے تو ایک پر جمال اور منکسرالمزاج شخصیت نظر آئی۔ نظر پڑتے ہی دل میں اتر گئے۔ آپ نے کسی سے پوچھ کہ یہ کون ہیں؟ تو جواب ملا کہ یہ مجدد اعظم اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے چھوٹے صاحبزادے حضور مفتی اعظم ہند مولانا الشاہ مصطفیٰ رضا خاں علیہ الرحمہ ہیں۔
اتنا سننا تھا کہ آپ ان کی طرف لپکے۔ حضور مفتی اعظم علیہ الرحمہ سے یہ آپ کی پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد پھر رفتہ رفتہ آپ کو مفتی اعظم ہند کی قربت حاصل ہوئی۔ اور حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے اپنی عطا و نوازش کا وہ مظاہرہ فرمایا کہ خود آپ کی ذات مفتی اعظم ہند کی ذات کا نمونہ بن گئی۔ اسی لیے آپ کو یادگار سلف کہا جاتا ہے۔ اور فقیہ اہلِ سنت سے مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی عقیدت و محبت کا بھی یہ عالم تھا کہ آخری عمر میں حضرت مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ پر ہمیشہ استغراقی کیفیت طاری رہتی۔ اس وقت آپ وصال یار میں سب کچھ بھول گئے، کون آیا کون گیا؟ کیا کہا، کیا سنا؟ یہاں تک حضرت مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کسی طرف توجہ تک نہ فرماتے۔ ایسی حالت میں آپ نے حضرت مفتی عبد الحلیم صاحب قبلہ کو یاد کیا اور فرمایا کہ عبد الحلیم صاحب کو میرا سلام کہنا۔
اور جس وقت یہ عطر بیزخبر فقیہ اہل سنت حضرت مفتی عبد الحلیم صاحب رضوی کو پہنچی تو خوشی کے مارے آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ آپ فرماتے کہ جس وقت مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ حالت استغراق میں کسی کو نہیں پہچانتے ایسے وقت میں بھی بندہ کو یاد فرما رہے ہیں۔ مجھے یقین کامل ہے کہ جب مفتی اعظم نے مجھے اس حال میں فراموش نہیں کیا تو کل قیامت میں میری معصیت کے سبب مجھے جہنم کی طرف جانے کا حکم ہوگا تو اس وقت بھی حضور مفتی اعظم ہند مجھے فراموش نہیں کریں گے۔
(۳) قطب مدینہ خلیفہ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ ضیاء الدین صدیقی مہاجر مدنی،مدینہ منورہ:آپ کی ولادت 1294ھ بمطابق 1877ء میں پاکستان
کے شہر سیا
لکوٹ میں بمقام کلاس والا ہوئی۔اور آپ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہیں، آپ کے والد کا نام شیخ عبد العظیم تھا۔ ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں حاصِل کی پھر لاہور اور دہلی میں کچھ عرصہ تحصیلِ علم کیا بالآخِر پیلی بھیت (یوپی انڈیا) میں حضرت علامہ مولانا وصی احمد محدث سورتی رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں تقریباً چار سال رہ کر علومِ دینیہ حاصِل کی اوردورہ حدیث کے بعد سندِ فراغت حاصِل کی۔ اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان قدس سرہ العزیز نے اپنے دستِ مبارک سے سیِّدی قطبِ مدینہ حضرت قبلہ ضیاء الدین مدنی قدس سرہ العزیز کی دستار بندی فرمائی۔
آپ نے امام اہلسنت احمد رضا خان سے بیعت بھی کی اورصرف 18 سال کی عمر میں ان سے سندِ خلافت بھی حاصل کی۔
آپ کا وصال 4 ذوالحجہ 1401ھ بمطابق 2 اکتوبر 1981ءکو وفات ہوئی آپ کی قبر اطہر مدینہ منورہ میں جنت البقیع میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔
فقیہ اہلِ سنت مفتی عبد الحلیم حفظہ اللہ نے ۱۹۷۴ء میں حرمین شریفین کا پہلا سفر کیا۔ اسی موقع پر رہبر شریعت حضرت مولانا سید عبد الحق رحمۃ اللہ علیہ کے توسط سے حضرت علامہ مولانا ضیاء الدین مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی۔ خلیفہ اعلیٰ حضرت نے آپ کو بڑا نوازا اور پہلی ہی ملاقات میں خلافت سےبھی نواز دیا۔ اس غایت کرم نوازی کا سبب یہ تھا کہ فقیہ اہلِ سنت کے پیر و مرشد حضرت محدثِ اعظم ہند علیہ الرحمہ نے بہت پہلے حضرت مہاجر مدنی سے آپ کی علمی و روحانی شخصیت کا تعارف کرادیا تھا۔ یہ ملاقات بہت ہی مختصر رہی اس لیے کہ وہاں فقیہ اہلِ سنت کا چند دنوں ہی قیام رہا۔ لیکن جب آپ نے ۱۹۸۰ء میں دوبارہ سفرحج فرمایا تو مدینہ منورہ میں ۳۶ دن آپ کا قیام رہا۔ اس لمبی مدت میں آپ نے بارہا حضرت مہاجر مدنی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں حاضری دی اور عرب کے بہت سے علما و مشائخ سے ملاقاتیں کیں۔
۱۹۸۰ء میں فقیہ اہلِ سنت کی حضرت قطب مدینہ سے آخری ملاقات ہوئی ۔
حضرت مولانا ضیاء الدین مہاجر مدنی نے آپ کو نصیحت کی : بس شریعت ہی میں سب کچھ ہے۔ شریعت کی پابندی کیجئے اور تقوی شعاری کو اپنی زندگی کا جز بنا لیجئے۔ اس کے بعد دیر تک آپ کے لیے دعا مانگی۔ پھر مفتی عبد الحلیم صاحب نے آپ کی دست بوسی کی، قدم چومے اور وہاں سے روانہ ہوئے۔
(۴) حضور مجاہد ملت مولانا شاہ حبیب الرحمن عباسی، اڑیسہ:آپ کا اسمِ گرامی حبیب الرحمٰن قادری ہے۔ اور آپ کا سلسلۂ نسب عمِ رسول ﷺ سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ملتا ہے۔
تاریخِ ولادت: حضرت علامہ محمد حبیب الرحمٰن ہاشمی عباسی رضوی رحمۃ اللہ علیہ بتاریخ 8 محرم الحرام 1322ھ بروز شنبہ بوقتِ صبحِ صادق، قصبہ دھام نگر ، صوبۂ اڑیسہ انڈیا میں پیدا ہوئے۔
تعلیم: پہلے تو حضرت مجاہد ملت کو انگریزی تعلیم پڑھانا چاہا جس کو حضرت مجاہد ملت نے بادل ناخواستہ قبول کیا۔ مگر جلد ہی آپ نے انگریزی تعلیم حاصل کرنے سے انکار کردیا۔پھر حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ کے والد ماجد کی خواہش کے مطابق دینی تعلیم کے لیے مامور کیا گیا۔ اور ابتدائی تعلیم کا سلسلہ گھر پر ہی جاری رہا۔ مدرسہ سبحانیہ الٰہ آباد میں داخلہ لیا، چند سال وہاں تعلیم حاصل کی، مدرسہ سبحانیہ کے اساتذہ اور مہتمم مدرسہ سے علوم و فنون حاصل کیے۔ لیکن وہاں کے اساتذۂ کرام مجاہد ملت کے ذہن و صلاحیت کے مطابق زیادہ بافیض ثابت نہ ہو سکے۔ اس بناء پر مجاہد ملت زیادہ دنوں تک وہاں نہ رہ کر اجمیر شریف جامعہ عثمانیہ میں مصنف بہار شریعت مفتی امجد علی اعظمی کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، اساتذۂ دارالعلوم جامعہ عثمانیہ سے اکتساب کیا۔ اور یہاں سے اپنی علمی پیاس بجھا کر جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں صدر الافاضل حضرت مولانا الشاہ نعیم الدین رضوی مراد آبادی کی خدمت گرامی میں حاضری دی اور اکتسابِ علوم کیا، پھر مراد آباد سے ہی سلسلۂ تعلیم ختم کیا۔
بیعت و خلافت: مجاہد ملت علیہ الرحمہ کو شرف بیعت و اجازت حضرت شیخ مخدوم الشاہ علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ سے حاصل ہوئی۔ اور شہزادۂ اعلیٰ حضرت حجۃ الاسلام حضرت مولانا حامد رضا قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی خلافت و اجازت سے سر فراز فرمایا۔
وصال: حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمۃ والرضوان کا انتقال 6 جمادی الاولیٰ 1401ھ/ بمطابق مارچ 1981ء بروز جمعہ شام بمبئی میں ہوا۔ وہاں سے نعش مبارک بذریعہ طیارہ کلکتہ لائی گئی۔ پھر وہاں سے آپ کے وطن مالوف کٹک اُڑیسہ لیجائی گئی۔اور تیسرے دن اتوار کی شام تقریباً 5 بجے دھام نگر خانقاہ میں سپرد خاک کیا گیا۔( تذکرۂ علماء اہلسنت)
فقیہ اہل سنت حضرت مفتی عبد الحلیم صاحب قبلہ رضوی کو حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ کی رفاقت بھی میسر ہوئی اور آپ کا مجاہدہ ملت سے بہت گہرے تعلقات تھے۔سفر و حضر اور خاص جلسوں اور مناظروں میں آپ ان کے ہمراہ ہوتے۔
فقیہ اہلِ سنت اس کا بار بار تذکرہ کرتے کہ میرے پیر ومرشد کے وصال کےبعد دو شخصیتوں نے مجھے ان کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ ایک مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ اور دوسرے مجاہد ملت علیہ الرحمہ۔
۱۹۷۴ء میں جب آپ پہلی مرتبہ حج کو تشریف لے گئے تو حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ بھی شریک سفر تھے۔ بلکہ حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ کی گرفتاری، احقاق حق اور ابطال باطل میں آپ کا جہاد اور قاضی کے پاس بحث و مباحثہ، قاضی کے سوالات اور حضرت کے تشفی بخش جوابات، پھر قاضی کا "فبھت الذی کفر” کا مصداق بن جانا۔ یہ سارے واقعات آپ کے سامنے ہی پیش آئے۔ غرض یہ کہ حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ کو جہاں جہاں ل
ے جایا گیا آپ ب
ھی ساتھ ساتھ گئے۔
حضرت مفتی عبد الحلیم صاحب حضرت مجاہد ملت سے کس قدر قریب اور بے تکلف رہتے تھے اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ حاجی عبد الستار صاحب نے حضور مجاہد ملت، سید ہاشمی میاں اور حضرت مفتی عبد الحلیم صاحب کو مدعو کیا۔ جب یہ نورانی قافلہ حاجی صاحب کے یہاں پہنچا ۔ سب بیٹھے ہوئے محو گفتگو ہوئے۔ یہاں تک کہ مغرب وقت ہو گیا۔ وہیں مصلیٰ بچھایا گیا۔ مفتی عبد الحلیم صاحب نے مجاہد ملت سے امامت کے لیے عرض کیا۔ تو حضرت عاجزی کی اور فرمایا میں نہیں پڑھاتا۔ اب چونکہ مفتی صاحب حضرت سے مانوس تھے۔ تو آپ نے عرض کی کہ آپ کیوں نہیں پڑھائیں گے؟ فرمایا: میں نہیں۔ اس کے بعد مفتی عبد الحلیم صاحب نے حرمین شریفین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: پھر وہاں!! (حرمین شریفین میں بنا کہے آگے بڑھ جاتے) وہاں! وہاں تو میں اس لیے آگے بڑھ جاتا تھا کہ نجدی اوفتاد جو کچھ آئے وہ میرے سر آئے۔ آپ ہر چند امامت کی گزارش کی مگر آپ راضی نہ ہوئے۔ پھر آپ نے سید ہاشمی میاں سے امامت کے لیے کہا تو وہ کہنے لگے کہ حضرت! میرا تو چوتھا نمبر ہے۔امامت کا پہلا نمبر تو آپ ہی کا ہے۔سید ہاشمی میاں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے اپنا چوتھا نمبر بتایا اور مفتی صاحب کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق کی اولاد میں سے تھے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی نسبت کرتے ہوئے کہا کہ پہلا نمبر آپ کا ہے۔ چار و ناچار آپ ہی کو نماز پڑھانی پڑی۔
(۵)مربی اعظم، حضرت محدث احسان علی فیض پوری: حضرت محدث احسان علی صاحب کا نام بھی آپ کے شیخ طریقت اور مربی اعظم میں آتا ہے۔
اور استاذ الاساتذہ حضرت محدث احسان صاحب علیہ الرحمہ کے حکم پر ہی آپ محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ سے بیعت ہوئے۔ اور حضرت محدث احسان صاحب علیہ الرحمہ نے بھی آپ کو تمام سلاسل کی اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔ اجازت و خلافت دینے میں حضرت محدث احسان صاحب علیہ الرحمہ کے جذبہء مسرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے بغیر کسی تحریک کے خود ہی تمام سلاسل اور اوراد و ظائف کی اجازت عطا فرمائی۔ یہ کچھ جھلکیاں تھی جن کو ہم نے بیان کرنے کی کوشش کی ۔ اللہ رب العزت فقیہ اہل سنت اور ان کے مشائخ طریقت کے درجات کو بلند فرمائے۔ ان کا علمی فیضان ہم سبھوں پر جاری و ساری فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ
یکے از فرزندانِ اشرفیہ
محمد فہیم جیلانی احسن مصباحی معصوم پوری
ایڈیٹر آفیشل ویب سائٹ ہماری فکر مرادآباد۔
faheemjilani38038@gmail.com