علما و مشائخ

مختصر سوانح حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ القوی

از قلم: محمد توصیف رضا قادری علیمی (بانی الغزالی اکیڈمی واعلیٰحضرت مشن،، آبادپور تھانہ (پرمانیک ٹولہ) ضلع کٹیہار بہار، الھند : متعلم دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔ یوپی)

حضرت حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ الرحمتہ ان شہسواران اسلام میں ہیں جن پر قوم مسلم کو ہمیشہ فخر رہا۔ آپ کی ذات والا صفات اپنے وقت کی ان مقتدر ہستیوں میں سے ہیں جن کو قوم کی پیشوائی اور نباض امت ہونے کا سہرا بجتا ہے۔

آپ عقل عرفانی علیم ایمانی اور معرفت روحانی کے امام تھے آپ نے اپنی ساری زندگی دین اسلام کی اپنے قلم و زبان تفکر و تدبر سے ایسی خدمت فرمائی کہ رہتی دنیا تک عوام و خواص اس سے فیض یاب ہوتے رہیں گے۔

ولادت با سعادت :
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت مبارکہ صبح صادق کی پُرنور و بابرکت مہینہ شوّالُ المکرّم 4 جُمادَی الاُولیٰ 1314ھ (1مارچ 1894ء) کو محلہ کھیڑہ بستی اوجھیانی (بدایوں،یوپی ہند) میں ہوئی۔

خاندانی پس منظر:
حضرت حکیم الامت علیہ الرحمتہ اپنے خاندانی اعتبار سے والد کی طرف سے یوسف زئی پٹھان شجرہ نسب حضرت بنیامین ابن یعقوب علیہ السلام تک پہنچتا ہے اور والدہ کی طرف سے قریشی خاندان سے تھے۔ آپ کا دھد یال اور ننھیال دونوں طرف علمی گھرانے تھے۔ آپ کی پرورش انتہائی مہذب اور علمی ماحول میں ہوئی-

تعلیم و تربیت:
 آپ نے قراٰنِ پاک سے لے کر فارسی کی نصابی تعلیم اور درسِ نظامی کی ابتدائی کُتُب اپنے والدِگرامی حضرت مولانا محمد یار خان بدایونی سے پڑھیں،مدرسہ شمسُ العلوم میں علامہ قدیر بخش بدایونی علیہِ رحمۃُ اللہِ الْقَوی کی نگرانی میں تین سال تک تعلیم حاصل کی پھر مختلف درس گاہوں میں پڑھا اور آخر کار جامعہ نعیمیہ (مُراد آباد، ہند) میں داخلہ لے کر خلیفۂ اعلیٰ حضرت صدرُ الافاضل مفتی سیّد محمد نعیمُ الدّین مراد آبادی قدس سرہ اورخلیفۂ اعلیٰ حضرت علامہ حافظ مشتاق احمد صدیقی کانپوری رحمۃُ اللہِ  تعالٰی علیہِما جیسے شفیق اور مہربان اَساتِذَہ کے زیرِ سایہ رہ  کرعلم و عمل کی دولت سے فیض یاب ہوئے اور 19 برس کی عمر میں سندِ فراغت حاصل کی۔

دینی خدمات:
سندِ فراغت کے بعد آپ کے استادِ مکرم حضرت صدرُ الافاضل سیّد محمد نعیمُ الدّین مراد آبادی رحمۃ اللہ الباری کے ہدایت پر جامعہ نعىمىہ مراد آباد(ہند)، مدرسہ مسکینیہ (دھوراجی، کاٹھیاواڑ، ہند)،کچھوچھہ شریف اور بھکھی شریف (تحصیل پھالیہ ضلع منڈی بہاؤ الدین، پنجاب پاکستان)میں تدریس فرمائی پھر آپ ضلع گجرات (پنجاب پاکستان) تشریف لےآئے اور زندگی کے بقِیَّہ ایّام یہیں گزارے۔بارہ تیرہ سال دارالعلوم خدّامُ الصّوفیہ گجرات اور دس برس انجمن خُدّامُ الرَّسول میں فرائضِ تدریس انجام دیتے رہے،

اسلاف کے نقش قدم:
قابلِ رشک یہ کہ حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ روزانہ بعد نمازِ فجر30 منٹ درسِ قراٰن اور 15 منٹ درسِ حدیث کے لئے مختص تھے۔۔۔۔اشراق کے  نوافل ادا کرنے کے بعد ناشتہ فرماتے پھر تدریس کے ذریعے طلبۂ کرام میں علم و حکمت  کا نور منتقل فرماتے _“ تدریس سے فراغت کے بعد دو گھنٹے تک تصنیف و تالیف میں مشغولیت رہتی، اس کے بعد دوپہر کا کھانا تناوُل فرماکر ایک گھنٹہ  آرام فرماتے ۔ بعدِنماز ظہر ایک پارہ تلاوت کرتے اور پھر تحرىرو تصنىف اور ملک بھر سے آئے ہوئے سوالات اور خُطوط کے جوابات دینے میں مصروف ہوجاتے۔

علمی خدمات :
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف میں نور العرفان فی حاشیہ قرآن، تفسیر نعیمی(پارہ گیارہ تک، 18 جلدیں)، مراة المناجیح مشکوۃ المصابیح (8 جلدیں)، نعیم الباری فی انشراح بخاری (ابھی pdf میں دستیاب نہیں ہے)، شان حبیب الرحمن من آیات القرآن، اسلامی زندگی،حضرت امیر معاویہ رَضِيَ اللّهُ تعالیٰ عَنْهُ پر ایک نظر،اسلام کی چار اصولی اصطلاحیں، آپ کی نعت گوئی کتاب دیوان سالک، اور جاء الحق (طاغوت وہابیت پر آخری کیل) جو عوام و خواص میں بہت مشہور و معروف ہیں۔ اسی طرح علم فرائض میں ”علم المیراث“، سلطنت مصطفے (مسئلہ مختار کُل پر مدلل جوابات)، نیز اسلام میں جو بہت سے فرقے ہیں اور ہر فرقہ اپنے کوحق کہتا ہے اور ہر ایک قرآن سے اپنا مذہب ثابت کرتا ہے (آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ”علم القرآن“) لکھ کر یہ چیز واضح کر دیا ہے کہ سچا مذہب فقط اہل سنت و جماعت ہے

وصَال ومدفن:
حضرت حکیم الامت قدس سرہ کی وفات 3 رمضان المبارک 1391ھ (24 اکتوبر 1971ء) کو ہوئی۔ آپ کی نماز جنازہ مفتی اعظم پاکستان مولانا سید ابو البرکات احمد صاحب رحمه الله نے پڑھائی۔ آپ کا مزارِ فائضُ الانوار گجرات شہر (پنجاب) پاکستان میں ہے۔ (تفصیل کے لیے تذکرہ اکابرِ اَہلِ سنّت،حالاتِ زندگی حکیم الامت، حیات حکیم الامت، حیات سالک شیخ التفسیر وغیرہ دیکھیں)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو انہی اسلاف کرام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، بالخصوص حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ القوی کا فیض ہم ناقصوں پر صدا جاری رہے، نیز اُن کی کُتب ہم سب کو پڑھنے کی توفیق بخشے (آمین)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے