ازقلم: کلیم رضا سبحانی، ریسرچ اسکالر
امام احمدرضا لرننگ اینڈریسرچ سینٹر،ناسک
جانفشانی کے جلووں میں اوج وعروج اورلقا و وصال کے بے پناہ اسرار مخفی ہیں۔ بغیر جانثاری وصال کہاں ممکن ؟ جانثاران اسلام نے جام شہادت نوش فرماکر وصال کی عیدیں منائی ہیں ۔کہیں مال ومتاع کی قربانی کا جلوۂ کمال ہے تو کہیں اولاد کی جانثاری کا جلوۂ جمال، کیا اس محبت کی کہکشاں میں کسی نظرنے دیکھا کہ رزم گاہ عشق ہو اور قربانیوں کی گردش نہ ہو ؟
ٹھہر جائیے !ذرا کئی برس پیچھے پلٹ کر صفحۂ حیات کایہ رقت انگیز منظر نگاہوں کے سامنے لائیے کہ وادی کہسان میں نوے سال کا بوڑھا باپ ہے ، جسے مناجات سحر کے بعد خاندان کا چشم و چراغ عطا ہوا ہے ، اب اسی پارۂ جگر کے لیے آستینیں چڑھ چکی ہیں اور ہاتھ میں سنگ تراش تیز دھار خنجر ہے ، دوسری طرف وہ نوجوان بیٹا ہے ،جو اپنی جوانی ، اپنا حسن ، اپنی رعنائی ، اور اپنی امیدوں اور امنگوں کی دنیا قربان کرنے کے لیے کشاں کشاں چلاجارہا ہے ، جس نے باپ کی محبت آمیز نگاہوں کے سامنے پرورش پائی ہو اور اب باپ ہی کامہرباں پرور ہاتھ اس کا قاتل نظر آتا ہے ۔ امت مسلمہ کے مورث اعلی سیدنا ابراہیم علی نبیناو علیہ الصلاۃ والتسلیم نے آنکھوں پرپٹی باندھ کر بیٹے کے حلقوم پر پوری طاقت کے ساتھ چھری چلائی جسے دیکھ کر دھرتی کا کلیجہ شق ہوگیا ، ہوائیں رک گئیں ،، حیرت کا طلسم پاش پاش ہوگیا،عالم بالا میں لرزہ طاری ہوگیا ۔ لیکن مشیت یزدانی درمیان میں حائل ہوگئی اورہاتف غیبی سے صدا آتی ہے :بس اے خلیل بس: ہوگیا تیرا امتحان اور تو کامیاب ہوگیا۔اور پھر حضرت جبریل نے نہایت سرعت کے ساتھ بیٹے کو سرکاکر اس کی جگہ ایک بہشتی دنبہ رکھ دیا ۔خلوص وللہیت پر مبنی یہ ایک ایسا ابراہیمی قدم تھاکہ آج بھی اس منشائے خداوندی کی تعمیل پر چشم فلک حیران و ششدر ہے جب کہ دوسری طرف پیکر تسلیم و رضا نے عشق و وفا ، عزم و استقلال کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اپنی گردن اللہ کے حضور پیش کرکے قربانی کے تصور کو ہمیشہ کے لیے زندۂ جاوید کرنے کا ایسا مظاہرہ کیا کہ خود ’’رضا‘‘بھی ورطۂ حیرت میں مبتلا ہوگئی ۔
۱۰ ؍ذوالحجہ کا نورانی دن اپنے دامن میں قبولیت اور بے حساب مغفرت کے اسرار کو سمیٹے ہوئے ہے ۔عید ایثار و قرباں میں انہیں پرقربانیاں واجب ہیں جو گلستان اسلام کا مکین اور غنا و اقامت اور حریت کے بیل بوٹوں سے مالامال ہو ۔یہ وہ احکام ہیں جس کا ربط عید االاضحی سے ہے گویا کہ دسویں ذوالحجہ کی تابش ہو ،یادوں میں خلیل اللہ کی قربانی کا سما ہو ، نظروں میں رسول اللہ کی سنتوں کی ادا ہو ، آرزوؤں کا قبلہ صرف رضاے الٰہی ہو ، شش جہات صرف اور صرف تکبیر کی صدائے محبت سے گونج رہے ہوں، نمازعید ادا کرنے عاشقوں کا ہجوم آیا ہو،اس عالم کیف و سرور میں پل صراط کی سواری کو محبت و وداع کا نذرانہ پیش کرکے اللہ کے نام پر قربان کرنا جلوہ ایثاروسرفرازی کی ادنی سی جھلک ہے ۔عید عاشقاں بھی اسی سے مستفاد ہے جس میں قربانی کا انداز ہی بڑا نرالہ اور دلکش ہوتا ہے عید عاشقاں ہے کیا ؟بغض و حسد ،کذب و ریا ، حرص و طمع ، مکر و دغا اور نفسانی خواہشوں کی شہ رگ کو شریعت کی چھری سے ذبح کرنے کا نام عید عاشقاں ہے ۔یہی عید رزم گاہ عشق کا ایک ذرۂ جمال ہے ، جہاں ایثار کی نوازشات نقطۂ کمال ہے ، جس میں شریعت کے اسرار تمام و کمال ہیں، اسی سے جان و مال کا استدلال ہے جس میں فنائے فنا کا آب زلال ہے ۔اور یہی عید قرباںکا اصل مقصود بھی مگر افسوس خود غرضی ، پست ہمتی ، اور ٓاخرت فراموشی نے اس سر فروش قوم کا نقشہ حیات ہی بدل کر رکھ دیا ہے اور انہیں ترقی کے بجاے زوال کی اندھیر بھلبھلیوں میں ڈھکیل دیا ہے ۔