کالم نگار: حسین قریشی
بلڈانہ مہاراشٹر
یوسف صاحب شہر کے معززومشہور شخص تھے۔ انکی عمر 55 برس ہوگئی تھی۔ بال اوسط سائز کے پیچھے کی جانب لگاتے تھے۔ گالوں سے چپکی ہوئی داڈھی تھی۔ جو انکے گول مٹول چہرے پر دلکش لگتی تھی۔ آنکھوں اورکھڑی ناک سے چہرہ رٔوبدار لگتا تھا۔ کوچی گردن کے ساتھ ہی جسم سڈول و تندرست تھا۔ گرجدار آواز ہونے کی وجہ سے سامعین متوجہ رہتے تھے۔ اکثر سفید رنگ کا لباس زیب تن کیا کرتے تھے۔ لمبا گھٹنوں تک قمیص اور تھوڑا چست پاجامہ پہنتے تھے۔ ہم جسے لیڈر کا لباس بھی کہتے ہیں۔ وہ سماجی خادم کےساتھ ہی قوم و ملت کے ہم درد بھی تھے۔ انکی گوناگوں خوبیوں کی وجہ سے لوگوں نے انھیں دو مرتبہ ضلعی سطح کے الیکشن میں منتخب کیا تھا۔
وہ مسلمانوں کے علاوہ دیگر سبھی مذاہب کا احترام کرتے۔ غیر مسلموں کی امداد کے لئے ہمیشہ پیش قدم رہتے تھے۔ شہر کے ہر فنکشن میں انکی حاضری ہوا کرتی تھی۔ امیر، غریب یا کسی بھی ذات دھرم کا پروگرام ہو وہ حاضر رہتے تھے۔ شادی بیاہ اور دیگر پروگراموں میں لوگوں سے مخاطب ہوتے تھے۔ انہیں وقت کی نزاکت کو سمجھنے کا بخوبی تجربہ تھا۔ وہ سامعین کے چہرے کے تصورات کو بھانپ لیتے تھے۔ وہ لوگوں سے اتحاد قائم رکھنے ، آپسی رنجشوں و نفرتوں کو مٹانے کی تلقین کرتے تھے۔ تعلیم کی اہمیت و افادیت اپنی تقریریں اجاگر کیا کرتے تھے۔ وہ کہتے” تعلیم ہی انسان کی ترقی کا زینہ ہے۔ ہر حال میں اپنے بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دیں۔ انکی تربیت والدین کی جنت و۔ جہنم کی ضامن ہوگی۔ ہم اپنے دیگر فضول اخراجات کو کم کرے۔ مگر اپنے بچوں کی تعلیم پر رقم خرچ کرے۔ مفت کی تعلیم موثر نہیں ہوتی ہے۔ اس کی اہمیت ہم نہیں سمجھتے ہیں۔ وہ اپنی قوم وملت کو راہِ راست دکھانے کے لئے ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر کی تعلیمی جد و جہد کی مثال پیش کرتے اور دور حاضر میں تعلمی یافتہ طبقے کو دکھاتے۔” انکی باتوں سے عیاں ہوتا کہ وہ قوم و ملت کا درد و غم رکھتے ہیں۔ ی
وسف صاحب اچھے اخلاق کے مالک تھے۔ صلات و صوم کے پابند تھے۔ اتنا ہونے کے باوجود شہر میں انکے حاسد بھی موجود تھے۔ سیاسی شخص کے چھوپے دشمن بھی ہوتی ہیں۔ جو موقع کی تلاش میں پھرتے رہتے ہیں۔ ذرا سی کچھ کمی یا برائی نظر آ ئی پھر اسکا واولہ مچانا اور بدندم کریم کی سازشیں رچنا شروع ہوجاتا ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ محسود کی بےعزتی ہو جائے اسکی بدنامی ہو اورلوگ انسے اور ہوجائے۔ انکی کرسی یا رتبہ ہمیں مل جائے۔ کسی نے خبر دی کہ یوسف صاحب سے اکثر ایک غیر مسلم عورت کے گھر جاتے رہتے ہیں۔ وہ شہر سے چند کلو میٹر دور گاؤں میں رہتی ہیں۔ پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تھا۔
لوگوں میں کانا پھوسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شروع ہوگئی۔ پیٹھ پیچھے لوگ اسی موضوع پر گفتگو کرتے رہتے اور یوسف صاحب کے بارے میں غلط سلط بولتے رہتے تھے۔ مخالفین نے چند دنوں میں ہی اس خبر کو پورے ضلع میں عام کردیا۔ اب وہ خوش تھے کہ یوسف کی بڑی بدنامی ہوگئی ہے۔ لوگ تھو تھو کرینگے۔ یوسف صاحب کے قریبی حضرات نے اس موضوع پر بات کی تو انھونے کہا کہ”ہاں! یہ ب ت سچ ہے کہ میں اس عورت کے گھر جاتا ہوں۔ لیکن اب وہ غیر مسلم نہیں ہے۔ وہ تو مسلمان ہو چکی ہے۔ اس سے میرے دو بچے بھی ہیں۔” یہ سنتے ہی خیر خواہ حضرات نے مبارکباد پیش کی۔ مگر چند لوگوں نے اور ذیادہ برا بھلا کہا۔ مگر وہ اسے سنتے رہے۔ اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ کیو نکہ وہ جانتے تھے کہ ایسے حالات آنے والے ہیں۔ انکی پہلی بیوی نے بہت رویا ان سے بات چیت بند کی۔ کافی دنوں تک گھر میں غم و غصے کا ماحول رہا۔
یوسف صاحب گھر کے حالات سے بہت پریشان ہو گئے تھے۔ انکے پہلے بچے انھیں برا کہنے لگے تھے۔ لوگوں نے ناراضی کا اظہار بھی کیا۔ کی سی طرح دن ، مہینے اور سال گزرتے گئے۔ یوسف صاحب نے اب لوگوں کو دوسرے نکاح کے بارے میں سمجھانا چھوڑ دیا تھا۔ وہ کبھی کبھی بہت ذیادہ اداس و غمگین ہو جایا کرتے تھے۔ وہ سوچتے کہ آخر کب یہ سماج ترقی کرینگا؟ کب لوگ بڑی سوچ و فکر والے بنے گے؟ کب لوگ دین کو سمجھکر عمل والے بنے گے؟ دوسرا نکاح کیا اتنا بڑا وبال ہے؟ اب انکا میل جول پہلے سے کچھ کم ہو گیا تھا۔ انھیں پہلی بیوی سے چار والدین تھی۔ دو لڑکے اور دو لڑکیاں اور دوسری بیوی سے دو اولادیں ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔ وہ سب کا برابری سے خیال رکھتے۔ سبھی کہ اسکول میں داخل کروایا تھا۔ وہ سکھ دکھ میں سب کے ساتھ مساوی درجے کا برتاؤ کرتے تھے۔
اب بچے جوان ہوچکے تھے۔ بڑے لڑکے وسیم کی شادی کو دو برس ہو چکے تھے۔ وسیم بھی اپنے والد کے کے کردار و برتاؤ سے کافی متاثر تھا۔ وہ ایک کمپنی میں ملازم تھا۔ جس کی وجہ سے اسے باہر آنا جانا پڑتا تھا۔ کبھی کبھار دو تین دن کی میٹنگ ہوتی تھی۔ جس کی وجہ سے باہر ہی مقام کرنا ہوتا تھا۔ یوسف صاحب نے اپنی ملکیت میں سے کھیت کا ایک ٹکڑا فروخت کردیا ۔اس سے ملے روپیوں کو بچوں میں تقسیم کرنا تھا۔ اسی دوران انہیں معلوم ہوا کہ وسیم کے بھی ایک عورت سے تعلقات ہیں۔ یہ سن کر یوسف صاحب اور انکی دونوں بیویوں کے پیروں تلے سے زمین ہی کھسگ گئی۔
انھوں نے فوراً وسیم کو بلایا۔ وسیم ویسے بھی پچھلے دنوں سے کچھ اکھڑا اکھڑا سا، پریشان سا رہ رہا تھا۔ گھر والے آفس کے کام کا ٹینشن سمجھ رہے تھے۔ اس لئے ذیادہ کچھ اس بارے میں پوچھ تاچھ نہیں کی گئی تھی۔ وہ دوپہر کا وقت تھا۔ گرمیوں کے لمبے لمبے دن تھے۔ وسیم گھر میں داخل ہوتے سلام کیا۔
سبھی نے سلام کا جواب دیا وعلیکم السلام
بیٹا! وسیم ,”ہم نے سنا ہے کہ تم کسی غیر عورت سے ملتے ہو۔ کیا یہ سچ ہے؟” والد نےتیز آواز میں پوچھا
وسیم نے کہا ، "ہاں یہ سچ ہے کہ میرے کسی دوسری عورت سے تعلقات ہے۔”
ماں نے پوچھا ، "کون ہے وہ؟”
وسیم نے کہا، ” میرے ساتھ کالج میں بڑھتی تھی۔ ” اکبر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔ کی ۔۔۔۔۔ ۔بیٹی ۔۔۔۔۔۔۔۔ حِنا
یہ سنتے ہی والد نے غصے کہا، "یہ تم نے کیا کیا؟” وسیم
وسیم ، نے نظریں نیچی کرتے ہوئے دھیمی آواز میں سب کے سامنے کہا، اس ۔۔۔سے۔۔۔۔ میں نے دو سال ۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے شادی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کی ھے۔
"پہلے کیوں نہیں بتایا؟” چھوٹے بھائی امجد نے سوال کیا.
مجھے ڈر تھا کہ آپ تمام لوگ مجھ سے ناراض نہ ہوجائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی بدنامی ۔۔۔۔۔۔۔ نہ ہوجائے اس وجہ۔۔۔۔۔۔۔۔ سے۔۔۔۔۔۔
حِنا نے کہا کہ ” مجھے تمھاری دوسری شادی سے کوئی اعتراز نہیں ہے” میں اپنے گھرپر ہی رہوگی۔ تم بس ملتے آتے رہنا اور اپنا خیال رکھنا۔ دنیا کو ہماری شادی کا پتہ نہیں چلنا چاہیے۔ ورنہ ہماری عزت مٹی میں مِل جائینگی۔ سماج اسے اچھا نہیں سمجھتا ہے۔” یوسف صاحب خاموش بیٹھے رہے۔
ہماری آواز نیوز کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
خوش آمدید و خیر مقدم