طنزومزاح

ہم تو بڑے ضدی ہیں صاحب!

ہمارے ملک کے وزیر اعظم مودی جی کرسی اقتدار پہ بیٹھنے کے ساتھ ہی ملک کو ڈیجیٹل انڈیا بنانے کی رٹ لگاتے آرہے ہیں، یہ ایک حسین خواب ہے جو صاحب بیدار آنکھوں سے دیکھتے رہتے ہیں اور موقع بر موقع اپنے اس خواب کی ناکام شرمندۂ تعبیر بھی کرتے رہتے ہیں، جس کی جھلکیاں ہم نے ماضی قریب میں دیکھی ہے اور شاید مستقبل قریب میں دیکھتے رہیں چنانچہ اس خواب کی تکمیل کے لیے سب سے پہلے تمام اہلیان وطن کو آدھار کارڈ سے جوڑنے کا فرمان جاری کیا گیا کہ ملک کے سبھی شہری؛ بچے، بوڑے، جوان، مرد وعورت سب کے پاس آدھار کارڈ ہونا ضروری ہے ورنہ ان کا کوئی کام نہیں ہوگا اور اس کی ضرورت کچھ یوں محسوس کرائی گئی کہ اس سے ملک میں بڑھتے جرائم پر قدغن لگایا جا سکے گا کیوں کہ آدھار کارڈ کے ذریعہ سبھی شہریوں کا مکمل بایوڈاٹا نام، پتہ، حتی کہ انگوٹھے کے ساتھ ساتھ سبھی دسوں انگلیوں کے نشان اور آنکھوں کا عکس بھی حکومت اور انتظامیہ کے پاس ہمیشہ دستیاب رہے گا اور کوئی جرم ہوگا تو مجرم آن کی آن میں پکڑا جائے گا، جس کی تعمیل میں ملک کے باشندوں نے دوڑ، دوڑ کر آدھار کارڈ بنوایا اگر چہ اس کے لیے کتنی ہی بڑی قیمت چکانی پڑی یہاں تک بعض لوگوں نے اسی ایک آدھار کارڈ کو بنوانے کے لیے دو سو سے تین سو تک کا ناجائز فیس دیا جبکہ آج پچاس سے 70 روپیے کے خرچے میں آدھار کارڈ بن جاتا ہے۔ بہر حال اس خواب کی دوسری کڑی کچھ یوں تیار کی گئی کہ ملک کے سبھی شہریوں کو بینک کھاتہ کھلوانے کا حکم جاری ہوا، عام ازیں کہ وہ شخص امیر ہو، متوسط طبقے کا ہو یا غریب ہی کیوں نا ہو سب کے لیے بینک میں کھاتہ ضروری ہوگیا اس حکم پر بھی اکثر لوگوں نے لبیک کہا بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہیں کہ کچھ لوگوں کو چھوڑ کر باقی سبھی لوگوں نے کھاتہ کھلوایا اگر چہ ان کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی اور وہ قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے اور کھاتہ کیوں نہیں کھلواتے بھئی انہیں جو پندرہ لاکھ بھیجنے کا وعدہ کیا گیا تھا جس کی آس میں آج بھی چاچا جمن شیخ اور کاکا الگو چودھری روزانہ نہ سہی تو ہفتے میں ایک دو بار بیلنس چیک کرانے بینک کا رخ ضرور اپناتے ہیں۔ ابھی بینک کے کھاتے کھلے چند ہی ماہ گزرے تھے کہ کالا دھن واپسی کا نعرہ دے کر خواب کی تسری کڑی نوٹ بندی سے جوڑنے کی کوشش شروع ہوگئی، پانچ سو اور ہزار کے نوٹ بند۔ آج نوٹ بندی ہوئے ساڑھے تین سال گزرنے کو ہیں کتنا کالا دھن واپس آیا کتنا نہیں یہ تو صاحب اور صاحب کے قابل قدر حامیان ہی بتا سکتے ہیں مگر آج بھی نوٹ بندی کا ذکر چھڑتے ہی وہ عجیب وغریب مناظر آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں جو اس دوران وقوع پزیر ہوئے تھے؛ وہ بینکوں کے سامنے لمبی، لمبی قطاریں، اور ان قطاروں میں رنگ برنگے لوگ، کیا جوان کیا بوڑھے، مرد ہو کہ عورت سب کے سب بس پانچ سو اور ہزار کی وہی پرانی، گھسی پٹی نوٹ لیئے بس اپنی باری کا انتظار کیے جارہے تھے ان کے چہروں سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کسی بچے سے اسی چاکلیٹ چھین لیا گیا ہو اور باپ کی غضب ناک آنکھوں کے سامنے وہ رو بھی نہ سکے۔ نومبر، دسمبر کی کڑاکے کی سردی اور بغیر کچھ کھائے پیئے صبح تڑکے ہی بینکوں کا طواف پھر بھی اتنی لمبی قطار، کچھ لوگ تو کھڑے کھڑے جب تھک جاتے تو اپنی جوتیوں اور چپلوں کو اپنا نمائندہ بنا کر خود آرام فرمانے لگتے، اتنی کڑی محنت وہ بھی خود کے ہی پیسوں کے لیے۔ صبح سے شام تک قطار میں کھڑے کھڑے اگر خود کا پیسہ بینک میں جمع کرنا ہو تو بغیر کسی دستاویز و تفتیش کے انچاس ہزار تک یک مشت جمع ہوجاتے مگر جب نکالنے کی باری آتی تو فقط دو ہزار ملتے، وہ بھی اگر باری آگئی تب ورنہ کھالی ہاتھ اور لٹکے چہرے۔ اور کبھی کبھی تو پورے کے پورے سکے ہی مل جاتے جنہیں گنتے گنتے دم نکل جاتا۔ لیکن اس نوٹ بندی کی سب سے خاص بات یہ تھی اس میں شوہروں نے اپنی بیویوں کی دوربین جیسی نظروں سے چھپا کر جو پیسے اپنے اور آنے والی نسلوں کی تابناکی کے لیے بچا کر رکھے تھے اور بیویوں نے شوہروں کی جیب تلاش والی ہنر سے جو پیسے اکٹھے کر رکھے تھے سب نکلوا دیئے۔ خیر نوٹ بندی کی داستاں بہت لمبی ہے اگر صرف انہیں کو بیان کیا جائے تو رنج والم کی چیخ وپکار کے ساتھ قہقہوں کی دوکانیں سج جائیں گی۔
مگر اتنے سارے کرتب دکھانے کے باوجود بھی صاحب کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا تھا کہ یہ کورونا اپنی تباہیوں، ہلاکتوں اور خوف ودہشت کے ساتھ آ دھمکا، جس نے پورے ملک کو قرنطینہ میں تبدیل کردیا، اسی اثنا میں صاحب کو ادھوری خواہش پوری کرنے کا ایک چھوٹا سا موقع مل گیا تو اب صاحب کہاں پیچھے ہٹنے والے تھے فورا حکم نامہ آیا کہ سبھی لوگ گھروں میں رہیں، گھر سے باہر قطعی نہ نکلیں جنہیں کسی چیز کی ضرورت ہو وہ اپنے محلہ کے ٹھیکہ دار کو فون کرکے بتائیں وہ آپ کا سامان لے کر آپ کے دروازے تک آئے گا مگر خیال رہے کہ اسے سامان کی قیمت بھی ادا کرنی ہے ایسا نہ ہو کہ مفت کا سمجھ کر بغیر قیمت چکائے ہی سامان رکھ لیں کہ وہ بے چارہ کیا کرے گا آپ کے گھر میں گھس بھی نہیں سکتا۔ مطلب یہ ہوا کہ آپ کو گھر بیٹھے سامان مل جائے گا بازار جانے کی ضرورت نہیں یہی تو ڈیجیٹل انڈیا کی خریداری ہے جسے آن لائن شاپنگ کہا جاتا ہے۔ خیر
صاحب نے اپنے طرز عمل سے بتا دیا کہ *ہم تو بڑے ضدی ہیں صاحب!*
بہرحال جب تک ملک میں لاک ڈاؤن ہے ملک کی عوام اس آن لائن شاپنگ کا مزہ لے اور کورونا نامی بحران سے نجات کے بعد ایک اور نوٹ بندی کے لیے کمربستہ۔ کیوں کہ جو نوٹ آج کل بازاروں اور بینکوں میں ہاتھوں ہاتھ گردش کر رہے ہیں ان پر بھی تو کورونا متاثرین کی ہاتھوں سے کورونا کا اثر ہوگا جو بعد میں لوگوں کو تکلیف پہونچائے گا تو ہوسکتا ہے کہ ملک کی عوام ایک بار پھر نوٹ بندی کے مضحکہ خیز دور سے گزرے اور اس بار شاید مکمل طور پہ نوٹ بندی ہو کہ چھوٹے، بڑے سبھی طرح کے نوٹ اور سکوں تک کا چلن بند ہوجائے اور ان کی جگہ ڈیجیٹل کرنسی لے لے اور صاحب کا خواب تعبیر کے انجام کو پہونچ جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے