ایڈیٹر کے قلم سے مذہبی مضامین

موت کی یاد دلانے یہ کورونا آیا

اللہ رب العزت نے حضرت انسان کے سر کو اشرف المخلوقات کے تاج زریں سے سجایا، اور دنیا کی ہر چھوٹی، بڑی چیز کو اسی کے ارد گرد ایسے ہی رکھ دیا جیسے آمر کے ارد گرد مامورین گردش کررہے ہوں کہ انسان ان سے خدمات حاصل کرے۔ اور اس کا احسان عظیم تو یہ کہ ان چیزوں کو استعمال میں لانے کے لیے عقل سلیم کی دولت بے بہا سے نوازا جس سے متعلق کہا جاتا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا کمپیوٹر عقل ہی ہے بلکہ میرا خیال ہے کہ عقل کو کمپیوٹر سے تشبیہ دینا اس کی گوناگوں خوبیوں کی توہین ہے کیوں کہ کمپیوٹر تو عقل کی ہی پیداوار ہے۔ بہر کیف انسان نے اسی عقل سلیم کی مدد سے آئے دن نِتْ نئے ایجادات کیے؛ کپڑے سلنے کے لیے سوئی اور آگ جلانے کے لیے سلائی سے لے کر فضائی سفر کے لیے طیارہ اور سیاروں کے سفر کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک راکٹ۔ پھر جب انسان ان ایجادات سے لطف اندوز ہونے لگا تو اس نے اپنے خالق ومالک سے ہی رشتہ، ناطہ توڑنا شروع کردیا۔ اس دنیا کی سرسبزگی و شادابی میں مست ومگن زندگی گزارنا شروع کردیا نہ اسے خدا کی یاد آتی اور نا ہی خدا کے بندوں کی۔ وہ دنیا کی رنگینیوں میں کچھ اس طرح گم ہوا کہ شاید بھول ہی گیا ہو کہ موت ایک ایسے حقیقی پرندے کا نام ہے جس کے بازوے پرواز کو کوئی کتر نہیں سکتا۔ مگر خدا بھی آخر اس انسان کا خالق ہے اسے انسان کی تمام حرکات وسکنات کی نہ صرف خبر ہے بلکہ اس پر مکمل قبضہ واختیار بھی ہے مگر وہ کہتے ہیں نا کہ بگڑائل بچے کو زیادہ موقعے ملتے ہیں لیکن جب وہ گھر دبوچا جاتا ہے تو پھر چاروں طرف سے اس کی کلاس لگائی جاتی ہے بالکل وہی حال آج حضرت انسان کا ہے کہ جب اسے موت کی یادیں بھولی بِسری لگنے لگیں تو قدرت نے ایک ایسی ضرب لگائی کہ آن کی آن میں حضرت انسان کو نہ صرف موت کی یاد آگئی بلکہ کتنوں نے تو موت کی آغوش میں جانا ہی اپنے حق میں بہتر سمجھا اور موت کی التجائیں کرنے لگے، شاید آپ نے غور نہیں کیا کہ صرف چار ہی مہینوں میں کورونا نے جنم لیا، قہر برپایا، تادم تحریر 663740 افراد کو متاثر کیا، 30879 کو موت کی آغوش میں لیا اور آن کی آن میں خوف و دہشت کا دوسرا نام بن گیا۔ سچ ہے ؎

موت کی یاد دلانے یہ کورونا آیا

آج جب پوری دنیا اس کی تباہیوں کے لپیٹ میں ہے، اس سے بچنے کی ہر ایک تدبیر بروے کار لارہی ہے اور توجہ طلب بات تو یہ ہے کہ آج بھی انسان کے پاس عقل سلیم کی دولت موجود ہے مگر ابھی تک اس وائرس کی کوئی دوا تیار نہ کرسکا، مجبوراً اسے گھر میں محصور ہونا پڑا کہ آخر وہ جائے تو کہاں؟ کہ چاروں طرف کے راستے بند ہیں گویا ہاتف غیبی سے یہی صدا آرہی ہو: این المفر؟ این المفر

محمد شعیب رضا نظامی فیضی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے