جونہ بُھولا ہم غریبوں کو رضاؔ
یاد اُس کی اپنی عادَت کیجیے
ولادت شہ انبیاء احمد مجتبی محمد مصطفی’ ﷺ جو کہ ہمارے لئے ایک عظیم نعمت ہیں. اور ان دنوں دنیا بھر میں عشاق رسولﷺ اس نعمت عظمی کے حصول پر تحدیث نعمت اور خُدا وند قدوس کے حکم تَشَکُّر کی تعمیل کی خاطر خوشی کا اظہار کرتے ہوۓ ذکر مولود نبیﷺ کی محفلوں کا انعقاد کر رہے ہیں..
جہاں میلاد شریف منانا ہر عاشق رسول کا شیوہ ہے, وہیں بالخصوص خواتین اسلام اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ یہ کنیزان امھات المؤمنین ایسی محافل سجائیں,کہ آمد مصطفی’ﷺ سے جہاں اس عالم فانی کو ایک نیاوجود ملا ,تو وہیں بالخصوص زنان عرب و عجم کو بھی جینے کا حق حاصل ہوا, وہ عورتیں جن کو جوتی کی دھول سے بھی زیادہ ذلیل خوار سمجھا جاتا تھا,ان کو رحمت عالم ﷺ نے ماں کے مرتبے سے مشرف فرما یا اور "الجنة تحت اقدام الامهات” کہہ کر جنت کو والدہ کے زیر قدم رکھا, جہاں بچیوں کے وجود کو باعث نحوست سمجھ کر زندہ درگور کیاجاتاتھا,وہیں بے سہاروں کے سہارے آپﷺ نے ایک بیٹی کی اچھی پرورش کرنےاور نکاح کروانے پر دوزخ سے نجات اور دخول جنت کی بشارت دی جیسے حدیث پاک ہےکہ ”جس شخص پر بیٹیوں کی پرورش کا بوجھ آ پڑے اور وہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے تو یہ بیٹیاں اس کے لئے جہنم سے رُکاوٹ بن جائیں گی ۔“ (مسلم،ص 1414، حدیث:2629) نیز حدیثِ نبوی ہے: ”جس کے یہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ نہ تواسے کوئی تکلیف پہنچائے، نہ ہی اسے بُرا جانے اور نہ بیٹے کو بیٹی پر فضیلت دے تو اللہ کریم اسے جنت میں داخِل فرمائے گا (مستدرک، 5/248 ، حدیث: 7428), جن خواتین کو صرف نفسانی خواہشات کی تکمیل کے ایک ذریعہ سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی,تو وہیں آپ کریمﷺ نے عورت سے نکاح کرنے کو تکمیل ایمـــان کا ذریعہ قرار دیاچنانچہ حدیث شریف میں طبرانی و حاکم انس رضی اللہ تعا لٰی عنہ سے راوی، کہ حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) نے فرمایا: جسے اللہ(عزوجل) نے نیک بی بی نصیب کی اس کے نصف دین پراعانت یعنی مدد فرمائی تو نصف باقی میں اللہ(عزوجل) سے ڈرے یعنی تقویٰ و پرہیزگاری کرے.(بہار شریعت,”المعجم الأوسط‘‘ ،الحدیث: ۹۷۲ ،ج ۱ ،ص ۲۷۹), دور جاہلیت میں جب کوئ عورت بیوہ ہوجاتی تو تنگ جھونپڑی میں لاچار بیواہ کی زندگی کو اجیرن کردیا جاتا تھا,تو محبوب کردگارﷺ نے خود اپنی 26 سال کی عمر میں ایک 40 سالہ بیواہ خاتون حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی الله عنھا سے نکاح فرما کر آپ رضی الله عنھا کو ام المؤمنین کے عظیم مرتبہ کا شَرْف بَخْشْا,
جب انسانی درندے اپنی شہوانیت کے نشے میں جگہ جگہ آبروۓ نسواں کو پامال کرتے نظر آنے لگے,خواتین کا گھر سے باہر نکلنا موت کو دعوت دینے کے مثل ہونے لگا تو پردہ کرنے کا حکم صادر فرماکر گھروں میں محفوظ رہنے کا حکم دیا,اور مردوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کی تاکید کی گئ جیسے رب العالمین کا فرمان عالیشان ہے
"وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى”
(پ ٢،الاحزاب:٣٣) ترجمۂ کنزُ الایمان:اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہِلیَّت کی بےپردگی
اور دوسری جگہ ارشاد ہوا کہ
"قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْؕ-ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ”(سورۃ : النور)
ترجمہ: کنزالایمان
مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ اُن کے لیے بہت ستھرا ہے بےشک اللہ کو اُن کے کاموں کی خبر ہے
گویہ جن عورتوں کی زندگی ظلم و ستم ,جبر تشدد سے دو چار ہو کر معجون بن چکی تھی ان سبھوں کو آپﷺ کی آمد سے معاشرے میں ایسا انصاف ملا کہ سارے ظلم و ستم کے بادل چھٹ گئے, اور عبادات و معاملات ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر موڑ پہ مرد کے شانہ بشانہ چلنے لگ گئیں, والدین,بھائ,شوہر اور اولاد کی جائیداد میں وارث قرار دی جانے لگیں, اپنے مہر ,مال,دولت,تجارت وغیرہ میں مالکانا حقوق رکھنے لگیں,الغرض عورتوں کے سارے دکھ درد دور ہو گۓ. البتہ ایسا احسان آقاﷺ کا ہوا کہ اس عظیم احسان کا رہتى دنیا تک عورت کبھی شکر ادا نہیں کرسکتی چنانچہ جب یہ رحمت خدا کا نَیّر تاباں طلوع ہوا تو سارا عالم یوں محسوس کرنے لگا…..کہ
جہاں تاریک تھا,ظلمت کدہ تھا, سخت کالا تھا
کوئی پردہ سے کیا نکلا کہ گھر گھر میں اجالا تھا
پھر اعلی حضرت امام اہل سنت ان احسانات پر حضورﷺ کی شان میں کچھ یوں فرماتے ہیں…..کہ
حرماں نصیب ہوں تجھے امید گہ کہوں
جانِ مراد و کانِ تَمَنّا کہوں تجھے
لیکن رضاؔ نے ختم سخن اس پہ کر دیا
خالِق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے
پھر ذکر مجتبیﷺ کی وصیت و ہدایت کرتے ہوۓ یوں گویا ہوۓ ……کہ
نعرہ کیجے یارسول اللہ کا
مفلسو! سامانِ دولت کیجیے
جو نہ بُھولا ہم غریبوں کو رضاؔ
یاد اُس کی اپنی عادَت کیجیے
آج اگر خواتین اسلام اپنے مافی الضمیر اور گزرتی زندگی کا مشاہدہ کریں,تو پتہ چلتا ہے کہ آج اسلام کے مطابق زندگی گزارنا گراں گزر رہا ہے. جبکہ اسلام نے ہی عورتوں کا بیڑا پار لگایا تھا,پردہ کرنا گھر پر رہنا اپنے بچوں کی تربیت دین کے مطابق کرنا صوم و صلوۃ کی پابندی کرنا قیامت ٹوٹنے جتنا کٹھن محسوس ہورہاہے, جبکہ آقاﷺ کی ولادت سے قبل یعنی قبل اسلام عورتوں کے وجود کو باعث نحوست سمجھا جاتاتھا. المختصر یہ کہ اس احسان کو فراموش کیا جارہاہے, جس احسان کو پیارے کریم آقاﷺ نے آج سے ساڑھے چودا سو سال پہلے کفار و مشرکین کی طرف سے دی جانے والی تکالیف کو برداشت کرنے کے باوجود امت کا درد رکھتے ہوۓ کیا تھا,
خواتین کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کو تعلیمات محمد عربی ﷺ سے آراستہ کریں, عشق رسولﷺ کا جام گھٹی میں پلائیں….یاد مصطفی’ﷺ کو اپنے قلوب میں بسائیں,ذکر مجتبیﷺ کو اپنا معمول بنائیں, تعلیمات شمس الضحىﷺ کو اپنی زندگی کا قانون بنا کر حیات روز مرہ کو خوش گوار بنائیں. یعنی انعقاد محافل میلاد کرنے اور آپﷺ کی تعلیمات پر مکمل عمل پیرا ہونے کی صورت میں اس عظیم احسان کا شکر بجالائیں, کہ تَشَکُّر نعمت و احسان کثرت نعمت کا ذریعہ ہے.(.”لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ” "اگر احسان مانو گے (شکر کروگے)تو میں تمہیں اور دوں گا”).
تحریر: محمد مدنی بن نثار احمد رضا احمدی، کرناٹک, ہانگل شریف