ازقلم: پروفیسر ابوزاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
کامل الحدیث جامعہ نظامیہ ، M.A., M.Com., Ph.D (Osm)
شاہ عرب و عجم ﷺکا ادب و احترام اور تعظیم و تکریم انسان کے کمزور ایمان کو کامل و مکمل بنادیتا ہے جس کے بغیر اعتقادات، عبادات، ریاضات، مجاہدات، معاملات، اخلاقیات اپنے حسن کمال کو نہیں پہنچ سکتے اور آپ کی شان میں ذرا سی لغزش، گستاخی اور توہین سے کامل ایمان کفرمیں تبدیل ہوجاتااور اعمال صالحہ کا ذخیرہ لمحہ واحد میں ضائع ہوجاتا ہے، جس کے حصول کے لیے انسان نے زندگی بھر مساعی کی تھی۔ مزید برآں اسے توبہ کی توفیق بھی نصیب نہیں ہوتی چونکہ اس کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ ذخیرہ حسنات کے حصول کے لیے کی گئی اس کی تمام کوششیں اکارت کردی گئی ہیں، وہ تو یہی سمجھتا رہ جاتا ہے کہ وہ بہت نیک کام انجام دے رہا ہے۔بروز محشر ایسے شخص کی کسی نیکی کی اللہ تعالی کے پاس نہ کوئی قدر ہوگی اور نہ ہی قیمت اس لیے ایسے شخص کے اعمال کا وزن بھی نہیں کیا جائے گا چونکہ اعمال کا وزن تو اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ حسنات و سیئات میں تمیز کی جاسکے جب گستاخ رسول کے پاس کوئی نیک عمل باقی ہی نہیں رہا تو اس کے اعمال وزن کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا۔اس کواس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک کوئی انسان غلط سمت میں بڑی تیز رفتاری سے رواں دواں ہے اس کے باوجود وہ منزل مقصود کو نہیں پہنچ سکے گااس کے برعکس دوسری طرف وہ شخص ہے جو انتہائی سست رفتاری سے لیکن صحیح سمت میں گامزن ہے وہ باتاخیر ہی سہی لیکن منزل مقصودتک پہنچ ہی جائے گا بلاتمثیل و بلا تشبیہ وہ شخص جس کے پاس اعمال کا کثیر خزانہ ہو لیکن اس کا دل ادب و محبت مصطفی ﷺ سے خالی ہو تو وہ اعمال اس کی نجات کا ذریعہ نہیں بن سکتے اس کے برعکس وہ شخص جس کا دل ادب و احترام مصطفی ﷺ سے سرشار ہواور نیک اعمال کا وافر ذخیرہ نہ بھی ہو تو عشق و تعظیممصطفیﷺ اس کی نجات کا ذریعہ بن جائے گا۔ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ تعظیم و تکریم مصطفیﷺاعمال صالحہ کو باب قبولیت تک لیجانے کا ذریعہ ہے۔ لیکن صدحیف کہ مسلم معاشرے میں میلاد النبیﷺ کے جلوس سے متعلق بعض ایسے جدید طریقے رائج ہورہے ہیںجو تاجدار کائناتﷺ کی تعظیم و تکریم اور آپﷺ کی تعلیمات کے بالکل خلاف ہیں۔ میلاد النبی ﷺ کے جلوس میں در آئیں ان خرافات سے مسلک اہل سنت والجماعت کی نیک نامی متاثر ہورہی ہے ۔سرور کونین ﷺکا حقیقی عاشق وہ ہوتا ہے جو نہ صرف ذات اقدس و اطہر سے بلکہ ذات مصطفیﷺ سے تعلق رکھنے والی تمام منسوبات کا بھی حد درجہ ادب و احترام بجالاتا ہے اور ذرا سی بے ادبی کو ایمان کے ضائع ہونے کا سبب گردانتا ہے۔ اللہ تعالی نے ادب مصطفی ﷺہم پر فرض فرمایا ہے جبکہ میلاد النبی ﷺ کا جلوس نکالنا ہم پر فرض نہیں ہے ۔ میلاد النبیﷺ کا جلوس نکالنا مستحب ہے اگر اس میں تمام آداب کو ملحوظ رکھا جائے تو ’’الامور بمقاصدھا‘‘ کے اصول کے تحت موجب خیر و برکت ہے اور اس پر اجر و ثواب مرتب ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ لیکن مستحب بجالانے کے لیے فرض کو کسی صورت ترک نہیں کیا جاسکتااگر ہم ایسا کریں گے تو ہمارا یہ عمل ’’التزام مالا یلزم‘‘ کے زمرے میں آئے گا جس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ مستحب عمل کے لیے فرض کو ترک کرنے والا شرعی اعتبار سے گناہ گار متصور ہوگا۔ تو اندازہ کیجیے کہ ادب مصطفی ﷺ جو تمام فرائض، واجبات، سنن، نوافل اور مستحبات کی روح ہے اس کو محض جلوس کی خاطر کیسے ترک کیا جاسکتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہم تمام مسلمان جذبات کی دنیا سے نکل کر عقل و خرد سے کام لیتے ہوئے شرعی حدود کا پاس و لحاظ رکھنے کی بھرکوشش کریں اور کوئی ایسا عمل ہرگز نہ کریں جو گستاخی پر مبنی ہو چونکہ ہماری اس غلط روش سے نہ صرف اعمال صالحہ غارت ہوجاتے ہیں بلکہ ایمان کے سلب ہونے کے بھی قوی امکانات پیدا ہوجاتے ہیں(العیاذ باللہ)۔اپنے ایمان اور اعمال صالحہ کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ ہم جلوس میلاد النبیﷺکے دوران حسب ذیل امور کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ پہلی چیز نماز کی پابندی: اکثر دیکھنے میں آرہا ہے کہ مساجد سے آذان ہوتی رہتی ہے اور نوجوان مساجد کی طرف رخ کرنے کے بجائے سڑکوں پر رقص و سرور کے عالم میں گھومتے رہتے ہیں جو کسی بھی طرح مسلمان کے شایان شان نہیں ۔ ہمارے اسلاف نے میدان جنگ میں بھی نماز کو ترک نہیں فرمایا تو ہمارے لیے کب روا ہوگا کہ ہم میلاد النبیﷺ کے جلوس کے نام پر نماز کو ترک کردیں۔ بالعموم تمام شرکاء جلوس اور بالخصوص منتظمین جلوس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ بوقت نماز جلوس کو روک کر نماز کا اہتمام کریں۔جس محتشم و معظم نبی ﷺ نے اپنی امت کو صلوٰہ الخوف (یعنی حالت جنگ میں پڑھی جانے والی نماز)کا طریقہ تعلیم فرمایا ہواس عظیم الشان نبیﷺ کے جلوسِ میلاد کا بہانا بناکر مسلمان نمازوں سے بے اعتنائی برتیں اس روش کو کسی بھی طرح جائز نہیں ٹہرایا جاسکتا ۔ بروز قیامت جب سورج سوا نیزے پر ہوگا، زمین تانبہ کی ہوگی ، جب انسان کی دل اور آنکھیں اورزیر و زبر ہوجائیں گی ایسی ہولناکی کے عالم میں بندے سے نماز کے بارے میں سب سے پہلے پوچھا جائے گا ۔ جلوس میں شرکت کیے یا نہیں اس کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا چونکہ اس کا تعلق مستحبات سے ہے۔ دوسری چیز: جلوس کے دوران اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ بلالحاظ مدہب و ملت کسی بھی طرح راہگیروں کو کوئی تکلیف نہ پہنچیں۔رحمت عالمﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ایمان کی ایک شاخ ہے۔آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ راستہ میں حائل رکاوٹ کو دور کرنا صدقہ ہے جو اللہ تعالی کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے ،انسان کو بری موت سے محفوظ رکھتا ہے اور گھر سے پریشانیوں اور بلائیات کو ٹال دیتا ہے۔ کیا کوئی عاشق رسول ایسا ہوگا جو جلوس کے نام پر راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کرکے اللہ کے غضب، بری موت اور مشاکل ، مسائل ، مصائب و آلام کو دعوت دے؟ کیا خاتم پیغمبراںﷺ ہماری اس غلط روش سے خوش ہوں گے؟ دین اسلام کی یہ خوبصورتی ہے کہ اس نے نہ صرف حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تعلیم عنایت فرمائی بلکہ مسلمانوں کو راستوں کے حقوق بھی بتائے ہیں۔منجملہ ان کے ایک حسب ذیل ہے :تاجدار مدینہﷺ نے مسلمانوں کو روڈ پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے چونکہ اس سے لوگوں کی آمد و رفت میں خلل واقع ہوتا ہے۔ (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو جامع ترمذی) جب اسلام ہم کو اہم عبادت نماز کو غیر ضروری طور پر روڈ پر ادا کرنے سے منع کرتا ہے تو بتایئے کہ مسلمانوں کے لیے یہ کب جائز ہے کہ وہ ایسے انداز سے جلوس نکالیں جس سے راہگیروں بالخصوص مریض حضرات کو تکلیف پہنچتی ہو۔لہٰذا دوران جلوس تمام شرکاء اور منتظمین کی مذہبی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ جلوس کی وجہ سے بلا لحاظ مذہب و ملت کسی راہگیر کو کوئی ذہنی، جسمانی اور روحانی اذیت نہ پہنچے اور اسے منزل مقصود پر پہنچنے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو۔ تیسری چیز: قرآن مجید نے اللہ تعالی کے بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ ان کا کردار عجز و انکساری کا مجسم نمونہ ہوتا ہے جس کا اظہار ان کی رفتار میں بھی ظاہر ہوتا ہے یعنی ان کے چلنے پھرنے میں انکساری پائی جاتی ہے چونکہ وہ جانتے ہیں کہ تواضع ایمان کی جان ہے۔ علاوہ ازیں شریعت مطہرہ نے مسلمانوں کو جماعت میں شرکت کے لیے مسجد کو تیزی سے دوڑ کر جانے سے منع فرمایا چونکہ اس سے مسلمان کا وقار متاثر ہوتا ہے لیکن صدحیف کہ جلوس میں شامل اکثر مسلم نوجوان نہ صرف مٹ مٹ کر چلتے ہیں جس سے غرور و تکبر اور نفسانی خوشی کا اظہار ہوتا ہے بلکہ بعض نوجوان تیز رفتار بائیک چلاتے ہیں اور خرافاتی اعمال کا ارتکاب کرتے ہیں جس سے لوگوں کے دلوں میں وحشت پیدا ہوجاتی ہے موجودہ حالات میں ان تمام چیزوں کا تدارک وقت کی اہم ضرورت ہے۔نہ صرف نو جوان بلکہ نوجوانوں کے سرپرست بھی اس جانب فوری توجہ کریں تاکہ مخالفین اسلام کو غیر ضروری اعتراض کا موقع نہ ملے۔ اگر ہم تعلیمات اسلامی کے مطابق جلوس نکالیں گے تو یقینا جانئے جب کبھی دیگر اقوام کمشنر آف پولیس سے جلوس نکلنے کی اجازت لیں گے تو کمشنر آف پولیس ان سے کہیں گے کہ ایک شرط پر اجازت دی جاسکتی ہے بشرطیکہ آپ لوگ وعدہ کریں کہ جلوس کا اہتمام ایسے ہی کریں گے جیسے میلاد النبیﷺ کا جلوس نکالا جاتا ہے ۔ ماہ ربیع النور ایک بہتر موقع ہے مسلمانوں کے پاس اسلامی تعلیمات سے غیر مسلم کو روشناس کروانے کا لہٰذا تم مسلمان حتی المقدور کوشش کریں کہ عملی طور پر اسوہ حسنہ سے اغیار کو روشناس کروائیں۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔