تم نے کہا “حماس نے بغیر تیاری کے جنگ چھیڑدی”۔ حماس نے دنیا کی مضبوط ترین فوج سے ایک سال تک جنگ لڑ کر بھی شکست نہیں کھائی اور آج بھی غزہ سے اسرائیلی فوجیوں کی لاشیں اور راکیٹ اسرائیل میں بھیج رہے ہیں۔
تم نے کہا “یہ اسماعیل ھنیئہ دولت سمیٹ کر غزہ سے باہر بیٹھیں ہیں۔ ان کا خاندان عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہے اور فلسطینی ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں”۔ اسماعیل ھنیئہ اور ان کے خاندان نے شہادت کو گلے لگا لیا۔
تم نے کہا “یہ ایران ہوائی بیان بیازی کرتا ہے۔ یہ کبھی بھی اسرائیل پر حملہ نہیں کرے گا”۔ ایران نے ڈھائی سو بیلیسٹک میزائل ایک ساتھ اسرائیل پر داغ دئیے۔
تم نے کہا “یہ حزب اللہ جھوٹ موٹ کے پٹاخے داغتا رہتا ہے جس سے کہ اسرائیل کو کوئی نقصان نہیں ہوتا”۔ ایک پورا خطہ اسرائیلی شہریوں سے خالی ہوگیا اور اسرائیل لبنان میں باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی۔
تم نے کہا “یہ حزب اللہ جنگ میں شامل ہونا نہیں چاہتا۔ صرف دکھاوا کرتا ہے”۔ حزب اللہ کی تقریباً پوری قیادت نے فلسطینی جنگ میں شریک ہوکر شہادت کو گلے لگا لیا۔
تم نے کہا کہ “فلسطینیوں کو اسرائیل سے الجھنا نہیں چاہئیے۔ اسرائیل اتنا مضبوط ہے کہ چند دنوں میں فلسطینیوں کو صاف کرسکتا ہے”۔ لیکن امریکہ اور یوروپ کی پوری مدد کے باوجود ایک سال بعد بھی اسرائیل اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ اتنی لمبی جنگ و تباہی کے خاطر خواہ نتائج دکھا کراپنے شہریوں کو مطمئن کرسکے اور جنگ بند کردے۔
تم نے کہا کہ “حماس نے زبردستی اپنے شہریوں کو جنگ کی طرف ڈھکیل دیا”۔ فلسطینی اپنا گھر بار،تعلیم، کاروبار اور پچاس ہزار جانوں کی قربانیاں دینے کے بعد بھی حماس کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس کے ہر فیصلے کی تائید کررہے ہیں۔
تم پھر بھی اپنی بہتان بازیوں اور بے بنیاد تبصروں سے باز نہیں آؤگے۔ تمہیں بالکل بھی ندامت نہیں ہوگی۔ تمہیں فلسطین کی فتح سے زیادہ اپنے موقف کی فتح پیاری ہے۔ تم کچھ نیا نکال کر لاتے جاؤگے اور وقت تمہیں غلط ثابت کرتا جائے گا۔
ذرا بھی حق کی جستجو ہے تو کم ازکم اب اپنی خبروں کے ذرائع پر نظر ثانی کرو۔ سچ کو جاننے کی کوشش کرو اور حق کے ساتھ کھڑے ہونے کی جرأت پیدا کرو۔
نصر من اللہ وفتح قریب
ازقلم: ڈاکٹر صلاح الدین ایوب