حضرت خطیب البراہین حضرت علامہ الحاج مفتی صوفی نظام الدین رضوی محدث بستوی کی ذاتِ ستودہ صفات محتاج تعارف نہیں، اللہ رب العزت اپنے جن محبوب بندوں کو اپنے حضور منتخب کرکے اپنا قربِ خاص عطا فرمایا۔ آپ انھیں چنیدہ اہل علم بندوں میں سے ایک ہیں ، جس طرح آپ ظاہری صورت وسیرت شکل وشباہت میں تھے ، اسی طرح باطن میں روحانی بالیدگی ، تصوف جیسے منصب پر فائز رہ کر اپنے قلوب اذہان کو اللہ کی یاد سے مامور کرتے تھے، آپ کی زندگی شریعت کی آئینہ دار تھی ، آپ خلوت وجلوت میں جہاں بھی رہے خلافِ شریعت عمل نا کرتے، اسی وجہ سے آپ کے قول وفعل میں یکسانیت جھلکتی آتی تھی، آپ اپنے ہم عصر علماء میں ایک عظیم الشان مقام رکھتے تھے، شب میں جہاں لوگ خواب غفلت کے شکار ہوتے ہیں وہیں شب کے آخری پہر حضور محدث بستوی رحمہ اللہ اپنی پیشانی کو رب کے حضور سجدہ ریز ہوجاتے اور نالہ فریاد کرتے کرتے اذان فجر کی صدائے کانوں سے ٹکرانے لگتیں۔
آپ کی شخصیت نمونۂ سلف تھے حضرت خطیب البراہین نے بعدِ فراغت متعدد دینی درسگاہوں میں درس وتدریس کا فریضہ انجام دیا ، اور آپ نے قابل فخر شاگرد پیدا فرمایا جو ملک کے طول وعرض میں دینی خدمت انجام دے رہے ہیں ، اللہ عزوجل نے آپ کو قوت و گویائی بھی کمال کی عطا کی تھی ، جب آپ کسی غیر سے باتیں کرتے تو اس انداز سے کرتے کہ آپ کی بات مؤثر ہوتی اور مخاطب آپ کا گرویدہ ہو جاتا، آپ ایک مایہ ناز خطیب بھی تھے، جب آپ کسی پروگرام میں شرکت کرتے اور آپ کی باری آتی تو کرسیِ خطابت پر پوری کرو فر کے ساتھ جلوہ افروز ہوتے ، دوران تقریر دلائل وشواہد کا انبار لگا دیتے اور آپ کی تقریر مدلل ومبرہن سے مرصع ، اور حشو وزوائد سے خالی ہوتی تھی ، آپ کا انداز خطابت عام مقررین سے بالکل منفرد تھا ، طرز تقریر آپ کا یوں ہوتا کہ جس موضوع پر بیان کرنا ہوتا اسی کے مطابق پہلے قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور عام فہم سلیس جس سے ہر عوام وخواص سمجھ سکیں ترجمہ فرماتے ، پھر صحاح ستہ ودیگر کتب احادیث سے دلائل کا انبار لگا دیتے آخر میں بزرگان دین ، اقوال ائمہ ومحدثین بیان فرماتے اور اس کی تشریح وتوضیح بھی فرماتے، یہاں تک اس موضوع کی مکمل باتیں سب پر آشکار اور دوپہر کی سورج کی طرح واضح ہوجاتی تھیں، آپ کی ذہنی استعداد ، قوت حافظہ ، بھی بہت مستحکم تھی ، جس کا اندازہ دوران خطاب لگایا جاسکتا تھا۔ کبھی کبھی کتب احادیث کا جلد، صفحہ ، مطبع وغیرہ بھی سماعتوں کے حوالے کرتے تھے، جس سے منبر رسول پر بیٹھے علمائے ذوی الاحترام بھی عش عش کراٹھتے تھے۔
حاصل یہ کہ آپ بے شمار کمال وصفات سے متصف تھے، آپ گوناگوں خوبیوں کے مالک تھے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بھی حضور خطیب البراہین کے مشن کو عام کریں، جس طرح انھوں نے مسلک حقا کی ترویج واشاعت اور خدمت دین وملت میں مصروف رہے اور اپنی زندگی کو سنت نبوی کے سانچے میں ڈھالی، اسی طرح ہمارا مقصد بھی اعلائے کلمتہ اللہ ہونا چاہیے، شریعت کی روشنی میں زندگی بسر کرنا چاہیے ، عرق ریزی، جانفشانی اور محنت شاقہ کے ساتھ علم دین حاصل کرکے اسے عام کریں ، دین وملت کا درد اپنے اندر پیدا کریں ، اور تاحینِ حیات دین کی خدمت کرتے رہیں اللہ عزوجل آپ کو اجر عظیم سے نوازے گا ، مخالفت ومخاصمت ، کی پرواہ نا کریں بلکہ نیت محض رضائے الہیٰ اور دل میں خلوص وللہیت مزید توکل علی اللہ کرکے دیں کا کام شروع کریں، ہر عہد میں ہمارے بزرگوں نے تاریکی میں ڈوبی ہوئی عوام کے زندگی کو اجالے میں بکھیرا ، نہ کی چراغ زندگی کی لو ہی سے بجھا دی ۔کیونکہ مضبوط ارادے اور محنت نے ہمیشہ ظلمت کا سینۂ چیرا ہے، وہی حربہ دور حاضر میں استعمال کرنا چاہیے۔
مولی کریم ہم کو حضور خطیب البراہین کے فیضان سے مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرما، اور اور ان کی طرح خدمتِ دین کرنے کی توفیق عطا فرما!آمین ثم آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
ازقلم: محمد ارشاد احمد قادری امجدی
متعلم: جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو