17 ستمبر کو لبنان کے شہر بیروت، شام اور عراق کے علاقوں میں جو جو سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے ہیں، جس میں 20 لوگوں کے ہلاک ہونے اور ہزاروںکے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔اسے اِس صدی کا سب سے بڑا حملہ قرار دیا گیا ہے۔ حملہ اتنا شدید اور خطرناک تھا کہ آناً فاناً لوگوں کے موبائل فون، لیپ ٹاپ اور الیکٹرانک چیزیں بلاسٹ ہونا شروع ہوگئیں۔ کسی نے بھی نہیں سوچا ہوگا کہ دھماکے کچھ اس طرح بھی ہوسکتے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ دعویٰ کیا جارہاہے کہ یہ حملہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے ذریعہ حزب اللہ کے لوگوں پر کیا گیا ہے، جو لبنان، شام اور عراق کے علاقوں میں چھپے ہوئے تھے۔ یہ سب لوگ ایک دوسرے کے رابطے میں رہنے کے لیے واکی ٹاکی اور پیغام رسانی کے لیےپیجرزکا استعمال کررہے تھے۔ منصوبہ بند طریقے سے موساد نے ان تمام واکی ٹاکی اور پیجرزسے چھیڑ چھاڑ کیا یا پھر انہیں ہیک کیا اور جب یہ سب واکی ٹاکی حزب اللہ کے لوگوں کے پاس پہنچی تو موساد نے رمورٹ کنٹرول کے ذریعہ ایک ساتھ بلاسٹ کردیا، جس سے ابھی بھی پوری دنیا ورطۂ حیرت میں ڈوبی ہوئی ہے۔
اِس میں ایک خلاصہ یہ ہوا ہے کہ حزب اللہ کے لوگ اسرائیل کی طرف سے لوکیشن ٹریکنگ سے بچنے کے لیے ایسے آلات پر بہت زیادہ انحصار کرتے تھے۔یہاں اِس بات سے کلی طور پر انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ آج ٹیکنالوجی کس قدر ترقی کرچکی ہے اور آج انسان اس سے جہاں دوسروں کی زندگیوں کو بچانے کا کارنامہ سرانجام دے رہاہے وہیں دوسروں کی جانیں بھی لے رہا ہے۔ آج تقریباً تقریباً ہر شخص کے ہاتھ میں یا گھر میں ٹیکنالوجی سے جڑے سارے آلات اور ڈیوائس موجود ہیں، جو ہمیں بھی با خبر کر رہے ہیں کہ یہ ہمارے لیے جتنے مفید ہیں اتنے ہی ضرر و نقصان کا باعث بھی ہیں۔لبنان، شام اور عراق پر حملوں سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اب جنگی ہتھیار بدل چکے ہیں، میدانی جنگوں کا تصور بھی تقریباً ختم ہوچکا ہے، یہاں تک کہ اب میزائلی اور فضائی حملوں سے کہیں زیادہ ٹیکنالوجی کی مدد سے کیے جانے والے تیز حملے ہیں، جس میں نہ صرف لوگوں کی قیمتی جانیں جاتی ہیں بلکہ ایسی ہولناک تباہی و بربادی کی داستان رقم کردیتے ہیں جنہیں صدیوں تک یاد رکھا جاسکتا ہے۔
اِس سلسلہ وار بم بلاسٹ کے ضمن میں ہمیں سیرتِ رسولﷺ کے ایک اہم گوشہ کو یہاں اجاگر کرنا ہے ، جس میں ہماری فتح و کامرانی کے بہت سے راز مضمر ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مقدسہ کا ایک اہم پہلو ’’دفاعی تدبیر یا جنگی تدبیر ‘‘بھی ہے، جس کو ہم مسلمانوں نے صرف صفحوں کی زینت بنا رکھا ہے اسے کبھی بھی عملی جامہ پہنانے کی کامیاب کوشش نہیں کی، جس کے بہت سے ہلاکت خیز نتائج کا ہم سامنا کرچکے ہیںاور اس کی سب سے واضح ترین مثال حالیہ حملے کی ہے جو مسلمانوں کی بے بسی و بے چارگی کی داستانِ الم بیان کررہی ہے۔رسول اللہ ﷺ نے کئی ایک غزوات میں شرکت فرمایا اور اپنی حکمتِ عملی اور دفاعی تدابیر سے اپنی فتوحات کے جھنڈے نصب کیے اور دشمنوں کو شکست و ریخت سے ایسا دوچار کیا کہ وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے۔فتحِ مکہ، غزوۂ احد، غزوۂ خندق اور بھی دیگر غزوات و سرایا آپ کی دفاعی تدابیر کے شاہدِ عدل ہیں کہ آپ نے کس طرح دشمن افواج سے اپنے شہرِ مقدس اور وہاں کے باشندوں کا تحفظ فرمایا اور دشمنانِ اسلام کے حملوں کو ناکام بنایا۔جن لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ مبارکہ کے اِس اہم اور انقلابی گوشہ کا مطالعہ کیا ہوگا تو وہ اس سے بہت سے نتائج اخذ کرسکتے ہیں۔ مثلاً:
(1) جنگ کے مواقع پر رسول اللہ ﷺ کی دفاعی و جنگی تدابیر اور حکمتِ عملیاں کیا ہوا کرتی تھیں؟
(2) باشندگانِ شہر کے تحفظ کے لیے آپ کس طرح کے احتیاطی و دفاعی اقدامات فرمایا کرتے تھے۔
(3) آپ نے نظامِ سراغ رسانی یعنی نظامِ جاسوسی کا شعبہ قائم کیا ہوا تھا، جو جنگی حالات و مواقع پر آپ کو بر وقت حالات سے کس طرح آگاہ کیا کرتا تھا۔
(4) رسول اللہ ﷺ ہمہ وقت لشکرِ اسلام کو مستعد رکھا کرتے اور اعلانِ جنگ ہوتے ہی وہ لشکر فوری طور پر حرکت میں آجایا کرتا تھا۔
(5) رسول اللہ ﷺ کس عمدہ طریقے سے سپاہیانِ اسلام کی جنگی تربیت فرمایا کرتے اوران کی حربی مہارت اور مشق و ممارست کا حد درجہ خیال رکھا کرتے تھے۔
ان کے علاوہ اور بھی بہت سے نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں، جو اِس اہم گوشہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ آج جب کہ عرب – اسرائیل جنگ چھڑی ہوئی ہے اور اسرائیل چوں کہ ایک طاقت ور ملک اور جدید ذرائع و آلات سے لیس ہے، ایسے حساس اور چیلنج بھرے وقت میں اگر عرب ممالک اپنے ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے دفاعی طریقۂ کار اور آپ کی سیاسی و جنگی حکمتِ عملیوں اور طریقوں پر عمل در آمد کریں تو عین ممکن ہے کہ دشمن ملک پر غالب آجائیں۔
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ رسول اللہ ﷺ کی عسکری فتوحات کے پیچھے دو راز کار فرما تھے۔ ایک تو آپ کے ساتھ نصرتِ خداوندی شاملِ حال تھی۔ دوسری آپ کی جنگی و دفاعی تدبیریں تھیں، جس نے تمام غزوات و سرایا میں اسلام کو معاندین و مخالفین پر غلبہ و قوت عطا کیا۔ یہ تو آج سے چودہ سو سال قبل رسول اللہ ﷺ کی سیاسی بصیرت اور جنگی و حربی مہارت کا ایک نقشہ ہم نے پیش کیا جو یقیناً موجودہ حالات سے بالکل مختلف ہیں، لیکن رسول اللہ ﷺ کے اِن خطوط و نقوش کی روشنی میں موجودہ دور کے جدید وسائل و آلات سے فائدہ ضرور اُٹھایا جاسکتا ہے اور نہایت ہی حکمتِ عملی اور دفاعی تدبیر کے ذریعہ دشمنوں پر غلبہ و تسلط قائم کیا جاسکتا ہے۔اِس سے یہ بھی واضح ہوا کہ مسلمان دنیا میں جہاں کہیں بھی ہوں وہ رسول اللہ ﷺ کے بنائے گئے اصول اور کھینچے گئے خطوط سے انحراف کرکے کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں۔
تحریر: محسن رضا ضیائی،پونہ