بے سکونی ایک داخلی کیفیت ہے جس میں انسان ذہنی، روحانی، اور جذباتی طور پر عدم اطمینان، پریشانی، یا بےچینی محسوس کرتا ہے۔ اس کے کئی علامتیں ہیں:-1.خوف و مایوسی، 2.نیند کا خراب ہونا، 3.روزمرہ زندگی میں دلچسپی کا فقدان وغیرہ
اس کے اسباب یہ ہیں:-
1.اللہ تعالیٰ سے دوری: اللہ تعالیٰ کا ذکر اور عبادت جو دل کو مطمئن رکھنے کا ذریعہ ہے،سے غفلت ہونا۔
2.گناہ: انسان کے گناہ اور نافرمانیاں بھی بےسکونی کا باعث بنتی ہیں کہ یہ دل میں ندامت اور بوجھ پیدا کرتے ہیں۔
3.دنیاوی خواہشات: دنیاوی معاملات میں حد سے زیادہ ملوث ہونا اور مادّی چیزوں کی محبت کہ اس سے انسان کو بےچین کر دیتی ہے۔
4.نامعلوم خوف: مستقبل کی فکر، ناکامی کا خوف، یا موت کا خوف بھی بےسکونی کا سبب ہے۔
5.انسانی تعلقات میں مسائل: تعلقات میں عدم توازن، لڑائی جھگڑے یا دوسروں سے ناپسندیدگی انسان کے اندر بےچینی کو بڑھا دیتے ہیں۔
اس کا علاج یہ ہیں:-
1.گناہوں سے توبہ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کا یقین: قرآن مجید میں ارشاد ہے:”لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ“ اللہ کی رحمت سے نااُمید نہ ہو بےشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے بےشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔ (الزمر: 53) یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اللہ کی رحمت پر یقین رکھو، چاہے حالات جیسے بھی ہوں، توبہ اور استغفار کرو کہ اس کے ذریعے گناہوں کی معافی ہوتی ہے، جو دل کو سکون عطا کرتی ہے۔
2.توکل علی اللہ: جب بندہ مکمل طور پر اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ اس کی زندگی کی مشکلات کو آسان کر دیتا ہے اور اسے قلبی سکون عطا فرماتا ہے۔ارشاد ربانی ہے: "مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗؕ“اور جو اللہ پر بھروسہ کرےگا، وہ اسے کافی ہے۔” (الطلاق: 3)
3.اللہ تعالیٰ کا ذکر: قرآن مجید میں ارشاد ہے: ”اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ“ سن لو! اللّٰہ کی یاد ہی سے دل چین پاتے ہیں۔” (الرعد: 28) اس آیت کریمہ میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے سے دلوں کو سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
4.نماز اور صبر: یہ بےسکونی کے وقت سکون اور مدد کا اہم ذریعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ- (ت) اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد چاہو۔(البقرۃ: 153)
5.قرآن پاک کی تلاوت: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَۙ- اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔(بنی اسرائیل:82) قراٰن مجید کی تلاوت کرنے سے بیماریوں سے شفا ملتی ہے، یہ دلوں کا سکون اور چین ہے۔ نیز احادیث مبارکہ میں قراٰن پاک کی تلاوت کے بے شمار فضائل ذکر کئے گئے ہیں۔
6.شکر گزاری: حالات کیسا ہی ہو اللہ عزوجل کا شکر ادا کرو۔ اس سے دل کو سکون اور مزید نعمتوں کی بشارت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ“ اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔ (ابراھیم: 7)
7.دعائیں: قرآن کریم میں ارشاد ہے: وَقَالَ رَبُّكُمُ ٱدۡعُونِیۤ أَسۡتَجِبۡ لَكُمۡۚ۔ اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔(غافر:60)
حدیث پاک میں رسول اللہ ﷺ نے مختلف مواقع پر دعائیں مانگنے کی ترغیب دی ہے۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا: «الدُّعَاءُ سِلَاحُ الْمُؤْمِنِ، وَعِمَادُ الدِّينِ، وَنُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ» یعنی دعا مسلمانوں کا ہتھیار ، دین کا ستون اور آسمان وزمین کا نور ہے۔(المستدرك على الصحيحين للحاكم، كتاب الدعاء، والتكبير، والتهليل، والتسبيح والذكر، الرقم: 1812، 1/ 669 الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت)
8.درود و سلام: یہ عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول ترین ہے۔ جو لوگ درود و سلام پڑھتے ہیں اس کے دلوں کو سکون اور خوشی میسر ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: اِنَّ اللهَ وَمَلٰـئِکَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّ یٰـاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيْمًا’’ بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی مکرمّ ﷺ پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔(الأحزاب: 56)
9.نعت شریف: حضور پاک ﷺ کی تعریف اللہ تعالیٰ کی تعریف ہے۔ کئی مقامات پر قرآن مجید میں حضور اکرم ﷺ کی مدح سرائی کی گئی ہے۔ نعت پاک پڑھنے یا سننے سے قربت الٰہی، دل کی طہارت، روحانیت میں اضافہ اور ذہنی سکون حاصل ہوتی ہے۔
از قلم:
محمد توصیف رضا قادری علیمی
مؤسس اعلیٰ حضرت مشن کٹیہار