ہندوستان کی گنگا- جمنی تہذیب، جو مذہبی ہم آہنگی اور تنوع کا ایک شاندار نمونہ ہے، گزشتہ کچھ دہائیوں میں شدید سیاسی اور عدالتی تنازعات کی زد میں آچکی ہے۔ 1991ء کا عبادت گاہوں کا قانون، جس کا مقصد تاریخی مذہبی مقامات کی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھنا تھا، ایک ایسی قانونی دیوار ہے جس نے فرقہ وارانہ تنازعات کو محدود رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم، گیان واپی مسجد سے متعلق حالیہ عدالتی فیصلے اور اس کے مضمرات پر اٹھنے والے سوالات نے اس قانون کی حیثیت اور عدلیہ کے کردار پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
1991ء کا عبادت گاہوں کا قانون:
عبادت گاہوں کے (خصوصی دفعات) قانون 1991ء کا مقصد ملک میں مذہبی تنازعات کو روکنا تھا۔ اس قانون کے تحت 15 اگست 1947ء کو موجود تمام مذہبی عبادت گاہوں کی حیثیت کو برقرار رکھنے کی بات کہی گئی ہے، اور کسی بھی قسم کی تبدیلی کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔ اس کا ایک واضح مقصد بابری مسجد تنازعے کے بعد مزید تنازعات کو جنم لینے سے روکنا تھا۔
یہ قانون ایک اہم سنگ میل تھا، جو ایک سیکولر اور تکثیری معاشرے کے تحفظ کے لیے بنایا گیا۔ تاہم، گیان واپی تنازعے میں سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ اور زیریں عدالتوں کی جانب سے اس کے بعد جاری کیے جانے والے احکامات نے اس قانون کے دائرے کو کمزور کر دیا ہے۔
فیصلے کے اثرات:
ناقدین کے مطابق، سابق چیف جسٹس چندرچوڈ کے فیصلے نے عبادت گاہوں کے قانون کے دروازے کھول دیے ہیں، جو ہندو توا نظریے رکھنے والی تنظیموں کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔ یہ تنظیمیں تاریخی مساجد کو نشانہ بنا کر ان کے نیچے مندروں کی موجودگی کا دعویٰ کرتی ہیں اور زیریں عدالتوں کو اپنی تحقیقات شروع کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔
1.زیریں عدالتوں کی فعالیت: فیصلے کے بعد کئی زیریں عدالتوں نے دیگر مساجد، جیسے متھرا کی شاہی عیدگاہ، سنبھل جامعہ مسجد، اور گزشتہ روز اجمیر شریف، کے حوالے سے تحقیقات کے احکامات دیے ہیں۔ یہ اقدامات عبادت گاہوں کے قانون کے اصولوں کے خلاف جاتے ہیں اور ملک میں مذہبی کشیدگی کو ہوا دیتے ہیں۔
2.تاریخ کو سیاسی ہتھیار بنانا: ہندوتوا تنظیمیں تاریخ کو مسخ کرکے اسے اپنے نظریے کی توسیع کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ مساجد کے نیچے مندروں کی موجودگی جیسے دعوے محض تاریخی حقائق کے بجائے سیاسی ایجنڈے پر مبنی ہیں۔
3.عدلیہ پر اثرات: سپریم کورٹ کے فیصلے نے زیریں عدالتوں کے لیے ایک نظیر قائم کر دی ہے، جو آئندہ مزید تنازعات کو جنم دے سکتی ہے۔
قانون، سیاست، اور مذہب کا تصادم:
گیان واپی تنازعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کس طرح قانون، سیاست، اور مذہب ایک پیچیدہ گٹھ جوڑ میں بندھ گئے ہیں۔ عدلیہ، جو ایک آزاد اور غیر جانبدار ادارہ ہونا چاہیے، اب ایسے فیصلے دے رہی ہے جو سیاسی نظریات کی تائید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ہندوتوا کی سیاست عبادت گاہوں کو نشانہ بنا کر نہ صرف مذہبی جذبات کو بھڑکا رہی ہے بلکہ آئینی اصولوں اور ملک کے سیکولر ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔ عبادت گاہوں کا قانون ایسے سیاسی تنازعات کو ختم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، لیکن عدالتی فیصلے اسے کمزور کر کے ان تنازعات کو دوبارہ جنم دے رہے ہیں۔
حل کی راہ:
اس وقت ہندوستان کو آئین کی بالادستی اور سیکولر اقدار کے تحفظ کی ضرورت ہے۔ عبادت گاہوں کے قانون کو مضبوطی سے نافذ کرنا اور اس کی روح کو برقرار رکھنا عدلیہ اور حکومت دونوں کی ذمہ داری ہے۔
ازقلم:
محمد توصیف رضا قادری علیمی
مؤسس اعلیٰ حضرت مشن کٹیہار
شائع کردہ: 28، نومبر، 2024ء