تحریر: شاہ نواز عالم مصباحی ازہری
سربراہ اعلی جامعہ حنفیہ رضویہ مانکپور شریف کنڈہ پرتاپ گڑھ
اس میں کوئی شک نہیں کہ وطن عزیز ہندوستان کو تن کے گوروں من کے کالوں انگریز ظالم کے مظالم اور ان کے ناحق قبضہ و اقتدار سے نجات دلانے کے لیے مسلمانان ہند خصوصا علمائے اہلسنت نے دیگر اقوام ہند کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر جنگ آزادی لڑی اور ملک کے لیے اپنی جان و مال سب کچھ قربان کر دیا۔
جس کی بدولت ہی 15 اگست 1947 ءکی صبح کو ہمارا ہندوستان انگریزی استعمار سے آزاد ہوا
انہیں میں میدان کارزار کے ایک عظیم مرد مجاہد بہادر سپاہی نڈر جرنیل اور نامور ہیرو ہیں جن کو دنیا شیر میسور حضرت ٹیپو سلطان کے نام سے جانتی ہے
ٹیپو سلطان کا پورا نام ابو الفتح فتح علی ٹیپو سلطان ہے
۔.1163ھ مطابق 1752ء 20 ذی الحجہ کو دیون ہلی میں پیدائش ہوئی۔ ٹیپو سلطان بانئ سلطنت میسور حیدر علی کے لائق و فائق فرزند ہیں
پانچ سال کی عمر میں عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کی امور جہانبانی فنون سپہ گری اور شہسواری میں مہارت حاصل کی۔ ٹیپو سلطان اپنے والد حیدر علی کی طرح ایک دلیر اور بہادر مرد جانباز تھے جو ہندوستان کی آزادی کے لیے تا دم آخر کوشاں رہے۔
جنگ آزادی کی تاریخ ٹیپو سلطان اور ان کے والد حیدر علی کے کارناموں کو ذکر کیے بغیر ناقص و نا تمام ہے ٹیپو سلطان اپنے والد حیدر علی کے انتقال کے بعد ۱۷۸۲ء میں سریر آرائے تخت ہوئے اور انگریزوں سے نبرد آزمائ شروع کی۔ ٹیپو سلطان کی انگریزوں سے 1767ء اور 1799ء کے درمیان چار جنگیں ہوئیں
جن میں سلطان نے ہمت و جواں مردی کے ساتھ فرنگی طاقت سے مقابلہ کیا، اور شجاعت و بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ انگریزوں کو ناکوں چنے چبوانے پر مجبور کر دیا۔
ٹیپو سلطان کے اندر وطن کو غیر ملکیوں سے آزاد کرانے کا کا جذبہ کس قدر موجزن تھا اس کا اندازہ ان کے اس نعرے سے لگایا جا سکتا ہے جو انہیں نے سب سے پہلے بلند کیا کہ “ہندوستان ہندوستانیوں کے لیے ہے “۔
اسی لیے سلطان خود بھی انگریزوں کے مقابلہ میں سینہ سپر رہے اور ہندوستان کے دیگر راجاؤں,مہاراجوں اور امراء کو بھی انگریزوں سے جنگ پر آمادہ کیا۔ چوں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی جان چکی تھی کہ اگر سلطان کو اپنے ارادوں میں کامیاب ہو نے دیا جائے تو پھر ہندوستان پر ہر گز قبضہ نہ ہو سکے گا۔
اس لئے ایسٹ انڈیا کمپنی نے جنوبی ہند کے امراء کو اپنے ساتھ ملا لیا مگر ٹیپو سلطان تا دم آخر اپنے ارادوں پر قائم رہے یہاں تک کہ اس مرد مجاہد نے 4 مئی 1799ء کو سر نگا پٹم کے معرکہ میں جام شہادت نوش کیا۔
سلطان نے ایک بہادر سپہ سالار کی حیثیت سے نہایت بہادری،استقلال،اولوالعزمی،اور عزم بالجزم کے ساتھ اپنے سینہ میں وطن کی آزادی کی خواہش لیے ہوئے انگریزوں سے معرکہ آرائی کی اور ان کے مقابلہ میں مضبوط چٹان بن کر کھڑے رہے۔
اگر سلطان اپنے ارادوں میں کام یاب ہو جاتے تو ہندوستان کی تاریخ ہی کچھ اور ہوتی سلطان کے بعد سلطنت خداداد کا خاتمہ ہوگیا اور انگریزوں کی فرط مسرت سے دل کی کلیاں کھل اٹھیں اور ان کے حوصلے اس قدر بلند ہوئے کہ جب جنرل ہارس کو سلطان کی شہادت کی خبر ملی تو اس نے ان کی نعش پہ کھڑے ہو کر یہ الفاظ کہے کہ “آج ہندوستان ہمارا ہے“۔
لیکن
افسوس کہ وطن عزیز کے ان جانباز مجاہدین اسلام اور قائدین تحریک حریت کی وطن کے لیے بے لوث خدمات اور قربانیوں کو مذہبی تعصب کی بنا پر فراموش کیا جارہا ہے اور ان کے نام کو تاریخ کے صفحات سے مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
آج فرقہ پسند اپنے ہم مذہب قائدین اور آزادی کی جنگ لڑنے والوں کا نام تو اچھل اچھل کر لیتے ہیں مگر انگریزوں سے تا دم آخر بر سر پیکار رہنے والے اس عظیم مرد مجاہد کے کارناموں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آج مسٹر گاندھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو کی قیادت اور ان کی خدمات کو تو خوب سراہا جاتا ہے
لیکن انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے فتوٰی جہاد جاری کرنے والے عظیم قائد علامہ فضل حق خیر آبادی جن کو جزیرہ انڈمان (کالا پانی) کی سزا دی گئ اور 33 دیگر علمائے اسلام کا تذکرہ نہیں کیا جاتا جن کے فتوے نے وطنیوں کے دل میں آزادی کی روح پھونک دی۔
آج بھگت سنگھ کی قربانی پر تو خوب فخر جتایا جاتا ہے مگر اسی ملک کے لیے پھانسی کے پھندے کو چومنے والے ہزاروں علماء اسلام کی شہادت کو یاد نہیں کیا جاتا۔
تاریخ کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق بائیس ہزار علما کو پھانسی دی گئی ایک اندازے کے مطابق پانچ لاکھ مسلمانوں کو پھانسی دی گئی کس کس کی قربانی کو تحریر کریں۔ کس کس کی خدمات کا تذکرہ کریں اور کس کس کی شہادت کوبتائیں:مفتی عنایت احمد کاکوروی جن کو جزیرہ انڈمان بھیجا گیا
مولانا کفایت علی کافی مرادآبادی جنہوں نے تختہ دار پر پہونچنے کے بعد بھی اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نعت کہی مولانا وہاج الدین مرادآبادی مولانا شاہ احمد اللہ مدراسی مولانا فیض احمد بدایونی مولانا رحمت اللہ کیرانوی مولانا رضا علی بریلوی و دیگر درجنوں علماء ہیں جن کی قربانی کو کسی طرح فراموش نہیں کیا جا سکتا.
اور بھی ہزاروں علما ہیں جنہوں اپنے اہل وعیال کے پرواہ کیے بغیر اپنا مال اپنی جان سب کچھ داؤ پر لگادیا پھانسی کے پھندے کو چوما انگریزوں کی طرف سے نا قابل برداشت اذیتوں کو جھیلا اور ملک کو آزاد کراکے ہی چھوڑا۔
اس کے باوجود آج مسلمانوں کی حب الوطنی پر شک وشبہ کیا جارہا ہے ان کی قربانیوں کو فراموش کر کے ان کو غدار وطن اور دیش دروہی ثابت کرنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اسکولس اور کالجزس کے نصابوں میں تحریک آزادی کے قائدین ومجاھدین اسلام کی حیات و خدمات اور جنگ آزادی میں ان کے کردار پر مشتمل کتابوں کو شامل کریں
تاکہ ہمارے بچے اور آنے والی نسلیں اپنے اسلاف کی تاریخ کا مطالعہ کریں اور بر وقت ضرورت دوسروں کو جواب دے سکیں اور یوم آزادی کے موقعہ پر قوم کو اسلام کے ان مجاہدوں کی قربانیوں سے رو شناس کرایا جائے۔