بموقعہ یوم وصال حضرت سیدنا ابوبکر صديق رضی الله عنہ
نتیجۂ فکر: سلمان رضا فریدی مصباحی، مسقط عمان
دیا اہلِ محبت کو صداقت کا عَلَم تو نے
رہِ ایماں کو بخشے خوشنما نقشِ قدم تونے
ترا ہر لفظ اے صدیقِ اکبر ہے سدا زندہ
چلایا لوحِ الفت پر ادب کا یوں قلم تونے
تقاضے عشق و ایماں کے سبھی پیشِ نظر رکھ کر
سکھائے دہر کو حُبّ نبی کے پیچ و خَم تو نے
شبِ ہجرت ، نبی کے ساتھ غارِثور میں جا کر
پہاڑوں میں بنایا ہے محبت کا حرم تو نے
لگا کر پُر خَطَر سوراخ میں اپنے انگوٹھے کو
وفاؤں کی نئ تاریخ کرڈالی رَقَم تو نے
نبی کا سَر تری آغوش میں تھا، واہ کیا کہنا
شہا ! کیا خوب پائ قربتِ خیر الامم تو نے
ترے آنسو رخِ سرکار کو چھوکر بنے گوہر
بدل ڈالے گُلِ راحت سے اپنے خارِ غم تو نے
نبی کی قربتیں تھیں اور "لَاتَحْزَن” کا نغمہ تھا
گزارے غار میں لمحات کتنے محترم ، تو نے
تو پروانہ صفت ، شمعِ نبوّت پر مچلتا تھا
طوافِ عشق فرمایا ، مسلسل دمبدم تو نے
نبی کا عکس ، تیرے پیکرِ جاں میں اُتر آیا
محبت میں محبت کو کیا کچھ ایسے ضَم تونے
ترے کردار کا گلزار ، سوکھے گا نہ محشر تک
زمینِ دل کو آبِ عشق سے رکھا ہے نَم تو نے
ترے ایثار پر اہلِ وفا حیرت میں ڈوبے ہیں
کہ جاں پرکھیل کر ، رکھّا محبت کا بَھرَم تونے
ہراک طوفانِ باطل سے وفائیں لڑگئیں تیری
نبھایا دوستی کا حق زمانے سے اَتَم تو نے
نبی کے عشق میں تو آگ کے دریا سے بھی گزرا
مگر باطل کے آگے سَر کیا ہرگز نہ خَم تو نے
سخاوت کا ہنر سیکھے ، ترے کردار سے دنیا
لُٹائے مصطفیٰ پر ، جان و دل، جاہ وحَشَم تو نے
متاعِ قلب وجاں ، دستِ نبی میں سونپ کر اپنی
رضاے مصطفٰی کو، کر لیا اپنا حَکَم تو نے
رہے گی یاد ، اے صدیق اکبر تیری قربانی
گلستانِ وفا کو ، کردیا رشک اِرَم تو نے
نبی کے بعد ، پیدا کی گئ تھیں شورشیں کتنی
کُچَل ڈالے بڑی ہمت سے، فتنوں کے صنم ، تو نے
نہ کیوں اشعار کے دریا میں سچائ کی موجیں ہوں
فریدی کو دیا ہے ، حق بیانی کا قلم تونے