منقبت پاک، یار غار مصطفٰی، پاسدارِ صداقت، تاجدار امامت، فخر انسانیت، خلیفۂ اول، افضل البشر بعد الانبیاء، امیرالمؤمنین، حضرت سرکار سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
نتیجۂ فکر: سلمان رضا فریدی مصباحی، مسقط عمان
مرے آقا کا جو در ہے ، وہ در صدیق اکبر کا
بسا ہے سبز گنبد میں ، نگر صدیق اکبر کا
فدا ہے خلد بھی اُس پر ، جہاں لیٹے ہوئے ہیں وہ
نبی کے قرب کی جنت ہے گھر صدیق اکبر کا
اترتا ہے ابھی تک” اِذھُما فی الغَار” کا صدقہ
وہی پہلو ہے اب بھی مُستَقَر صدیق اکبر کا
اَنیسِ مصطفائ بن گئ ، ہر اک ادا اُن کی
نرالا ہے جہاں سے یہ ہنر صدیق اکبر کا
ادب ان کی عبادت ہے ، ادب ھی ان کا ایماں ھے
تعارف ہے یہی بس مختصر صدیق اکبر کا
شَرَف پہلی خلافت کا، اُنھیں سرکار نے بخشا
ہے چرخِ افضلیّت پر ، قمر صدیق اکبر کا
زمانہ کیسے بھولے گا وہ” غارِثور” کا منظر
شبِ ہجرت انوکھا تھا سفر صدیق اکبر کا
بنی شمعِ نبوت کیلئے فانوس، اُن کی جاں
حصارِ شاہ تھا، تارِ جگر صدیق اکبر کا
نبی کو دیکھنا ، سب سے پسندیدہ عمل ان کا
ہے کتنا بے بہا ، نورِ بَصَر صدیق اکبر کا
فدا انسانیت کی عظمتیں ان کے تقدس پر
لقب ، بعدِ رُسُل ، افضلْ بَشَر صدیق اکبر کا
بسی اُن کی محبت حیدرِ کرار کے دل میں
ادب کرتے تھے ، عثمان و عمر صدیق اکبر کا
اِسی جذبے سے چاہت بن گئ سب سے غنی اُن کی
نبی کا عشق ہے ، انمول زر صدیق اکبر کا
کریں گے سب اجالے حشر تک، کَسْبِ ضیا اُن سے
سدا چمکے گا خورشیدِ نظر صدیق اکبر کا
ہمارے واسطے اعزاز ہے ان کی ثنا خوانی
قصیدہ ھے بہت ہی معتبر صدیق اکبر کا
وہاں سے اُس کے، سارے کام پورے ہوتے رہتے ہیں
نہیں پھرتا ہے خادم دربدر، صدیق اکبر کا
یقینا وہ ، درِ سرکار کا محبوب ھوتا ہے
جو بَن جاتا ہے محبوبِ نظر صدیق اکبر کا
بُجھا رہتا ہے سورج ، ان کے تلووں کی تجلی سے
کوئ جانے گا کیا ؟ اعجازِ ” سَر” صدیق اکبر کا
جہانِ عشق میں ہے آج بھی ان کی شہنشاہی
کہ ہے کردار ایسا تاجور ، صدیق اکبر کا
ہوئے عشق نبی کے ، آج تک جتنے دیئے روشن
فریدی ! سب میں آیا ہے اثر صدیق اکبر کا