نتیجۂ فکر: رمشا یاسین، کراچی پاکستان
میں جھکی تھی دنیا کے آگے،
میں رویٔ تھی دنیا کے آگے،
امید تھی مجھ کو دنیا سے ہی،
یقین تھا مجھ کو دنیا پہ ہی،
دنیا نے مجھے ٹھکرادیا،
مجھے چلتے چلتے گرا دیا۔
کر کے خود کو خدا سے غافل،
کر کے خود کو دنیا کے قابل،
آگ کی لپٹوں میں جلتی رہی،
میں دنیا کو خدا سمجھتی رہی،
دنیا نے مجھے ٹھکرادیا،
مجھے چلتے چلتے گرادیا۔
محبت میں مجھ کو ٹھوکر ملی،
رشتوں نے مجھ کو تنہا کیا۔
میں جب سڑک پر آگیٔ،
مجھے پھر خدا یاد آگیا۔
میں پھر جھکی خدا کے آگے،
میں رویٔ بس خدا کے آگے۔
وہ ایک سجدہ جو میں نے کیا،
سارے گناہوں کو دھو گیا۔
وہ آنسو جو آنکھوں سے بہ گیٔ،
میری روح کو وہ چھڑا گیٔ۔
میں پھر خدا کی ہو گیٔ،
اور خدا بھی میرا ہوگیا۔
پھر چلتے چلتے گری نہیں،
گری تو خود ہی اٹھ گیٔ۔
مجہے وہ سبھی کچھ مل گیا،
جو دنیا نے مجھ کو دیا نہیں۔
میری آرزوئیں پوری ہوئیں،
تمناؤں کو منزل ملی۔
رشتوں نے بھی پھر یاد کیا،
محبوب بھی مجھ کو آ ملا۔
دنیا تو مجھ کو مل گیٔ،
پر میں خدا کی ہوگیٔ۔
وہ ایک سجدہ جو میں نے کردیا،
وہ حیا ِت نو کو بخش گیا۔