تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ
قسط سوم میں اس سوال کا جواب ہے کہ کون سے کفر میں فتویٰ کے بغیر مجرم کو کافرماننا ہے،اور کافر نہ مانے تو شرعی احکام نافذہوں گے،گر چہ کسی مفتی نے کفر کا فتویٰ نہ دیا ہو۔
قسط دوم میں بیان کیا گیا کہ بد یہی کی دوقسمیں ہیں:بدیہی کسبی اوربدیہی غیرکسبی۔
بدیہی کسبی کی دوقسمیں ہیں:بدیہی اولی اور بدیہی غیر اولی۔
(الف)بدیہی غیر کسبی شبہات باطلہ سے پاک ہوتا ہے۔اس میں اضطراری علم حاصل ہوتا ہے۔ بندہ اس علم اضطراری کودفع نہیں کرسکتا،جیسے آگ میں ہاتھ ڈالتے ہی علم اضطراری حاصل ہوگا کہ آگ جلانے والی ہے۔ بندہ اس علم یقینی کودفع کرنے پرقادر نہیں۔
ماننا یانہ ماننا الگ سی بات ہے۔انکاروتسلیم سے شئ کی حقیقت نہیں بدل جاتی۔
سوفسطائیہ،عنادیہ،لاادریہ وغیرہ بدیہی کا بھی انکار کرتے ہیں،اس سے کسی امر کی بداہت باطل نہیں ہوتی۔دیابنہ اشخاص اربعہ کوکافرنہیں مانتے توحکم کفر ختم نہیں ہوسکتا۔
(ب)بدیہی اولی میں کبھی بے توجہی کے سبب شبہات باطلہ لاحق ہوتے ہیں۔
(ج)بدیہی غیر اولی میں اہل علم واہل عقل کوبھی شبہات لاحق ہوتے ہیں،یہاں تک کہ بدیہی غیر اولی کوحل کرنے کے واسطے مناظرہ بھی منعقد ہوتا ہے۔
(د)بد یہی کوقطعی بالمعنی الاخص کہا جاتا ہے۔ نظری کو قطعی بالمعنی الاعم کہا جاتا ہے۔
بدیہی کسبی اولی میں شبہات باطلہ کا امکان
بدیہی غیر کسبی میں شبہہ ممکن نہیں،کیوں کہ وہ علم اضطراری ہے۔
سوفسطائیہ،لاادریہ اورعنادیہ وغیرہ ہٹ دھر م ہیں۔وہ بدیہی غیرکسبی میں بھی شبہات مانتے ہیں اور اس کی بداہت کا انکارکرتے ہیں۔یہی حال دیوبندیوں کا ہے۔
بدیہی اولی کسبی میں شبہہ ممکن ہے۔اسلام کی حقانیت بدیہی اولی کسبی ہے۔
امام رازی نے (وتلک الایام نداولہا بین الناس)کی تفسیرمیں رقم فرمایا:
(واعلم أنہ لیس المراد من ہذہ المداولۃ أن اللّٰہ تعالی تارۃ ینصر المؤمنین وأخری ینصر الکافرین-وذلک لأن نصرۃ اللّٰہ منصب شریف وإعزاز عظیم،فلا یلیق بالکافر،بل المراد من ہذہ المداولۃ أنہ تارۃ یشدد المحنۃ علی الکفار-وأخری علی المؤمنین والفائدۃ فیہ من وجوہ:
الأول:أنہ تعالی لو شدد المحنۃ علی الکفار فی جمیع الأوقات وأزالہا عن المؤمنین فی جمیع الأوقات لحصل العلم الاضطراری بأن الایمان حق وما سواہ باطل-ولو کان کذلک لبطل التکلیف والثواب والعقاب فلہذا المعنی تارۃ یسلط اللّٰہ المحنۃ علی أہل الایمان، وأخری علی أہل الکفر لتکون الشبہات باقیۃ والمکلف یدفعہا بواسطۃ النظر فی الدلائل الدالۃ علی صحۃ الاسلام فیعظم ثوابہ عند اللّٰہ
.والثانی: أن المؤمن قد یقدم علی بعض المعاصی،فیکون عند اللّٰہ تشدید المحنۃ علیہ فی الدنیا أدباً لہ وأما تشدید المحنۃ علی الکافر فانہ یکون غضبا من اللّٰہ علیہ)(تفسیرکبیر:سورہ آل عمران:تفسیرآیت منقولہ)
توضیح:اگراللہ تعالیٰ کفار کوہمیشہ آفات وبلیات اور مصائب ومشکلات میں مبتلا رکھے،اور مومنین کو ہمیشہ مصیبتوں سے محفوظ رکھے تو مومنین کو اسلام کی حقانیت کا اضطراری علم حاصل ہوگا، پھر اس سے تکلیف باطل ہوجائے گی،یعنی دین اسلام کو اپنی عقل وفہم سے حق سمجھ کر اختیار کرنے کا حکم ہے،اسی لیے کبھی مومن بندوں کوآزمائش میں مبتلا کیاجاتا ہے،تاکہ وہ علم اضطراری کے سبب اسلام کوحق نہ سمجھیں،بلکہ دلائل کی روشنی میں اپنی عقل وفہم کے ذریعہ اسلام کوحق سمجھ کر قبول کریں۔
علم اضطراری شبہات باطلہ سے پاک ہوتا ہے، اور اسلام کی حقانیت گرچہ بدیہی ہے،لیکن یہ بدیہی کسبی اولی ہے،بدیہی غیرکسبی یعنی بدیہی اضطراری نہیں،اسی لیے بہت سے انسانوں کو اسلام کی حقانیت میں باطل شبہہ لاحق ہوتا ہے،جیسے بدیہی اولی میں شبہات باطلہ لاحق ہوتے ہیں کہ لوگ ہنومان کی دم کوہنومان سے بڑی کہتے ہیں۔مور کے پنکھ کومور سے بڑا کہتے ہیں۔
ان شاء اللہ تعالی ایک مضمون میں تکلیف شرعی کے مفہوم کو عام فہم اسلوب میں بیان کیا جائے گا۔ ان شا ء اللہ تعالیٰ تکلیف شرعی،شبہات باطلہ،بعثت انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام اور عقل کے مدار تکلیف ہونے کا مفہوم واضح ہوجائے گا۔
اشخاص اربعہ کا کفر اور تاویلات باطلہ
بدیہی کی تینوں قسمیں قطعی بالمعنی الاخص ہوتی ہیں۔ان میں سے صرف بدیہی غیر کسبی شبہات سے پاک ہے،باقی دونوں قسموں میں شبہات باطلہ پائے جاتے ہیں۔
قطعی بالمعنی الاخص کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں احتمال باطل اور تاویل باطل قبول نہیں تووہ احتمالات باطلہ اورتاویلات باطلہ یہی شبہات باطلہ ہیں جو قطعی بالمعنی الاخص کے بالمقابل پیش کیے جاتے ہیں۔
اشخاص اربعہ کی تکفیر سے متعلق دیوبندیو ں کے پیش کردہ شبہات دراصل تاویلات باطلہ واحتمالات باطلہ ہیں،اسی لیے ہزار تاویل کے باوجود حکم کفر اٹھ نہیں پایا۔دیوبندیوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہماری باطل تاویل سے اشخاص اربعہ پر حکم کفر عائد نہیں ہوگا تو یہ غلط ہے۔
اشخاص اربعہ کا کفر بدیہی اولی ہے یا غیراولی؟
اشخاص اربعہ کا کفر بدیہی اولی ہے،لیکن جس طرح بعض لوگوں کوہنومان دیکھ کر شبہہ ہو جاتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ہنومان کی پونچھ ہنومان سے بڑی ہوتی ہے،حالاں کہ جز کل سے بڑا نہیں ہوتا ہے۔یہ بدیہی اولی ہے،لیکن ہنومان کی دم دیکھ کر بعض لوگوں کوشبہہ ہوجاتا ہے۔
اگر جزوکل کے مفہوم کی طرف توجہ ہوتی توہنومان کی دم ہنومان سے بڑی نظر نہیں آتی۔
اسی طرح اشخاص اربعہ کا کفربدیہی اولی ہے،بدیہی غیرکسبی نہیں۔ ہرایک کی کفریہ عبارت میں کچھ ایسے امور ہیں،جن کے سبب عوام الناس کو شبہات باطلہ لاحق ہوسکتے ہیں، اسی لیے جب امام احمد رضا قادری نے اشخاص اربعہ پر کفر کا فتویٰ دے دیا،تب عام حکم جاری فرمایا کہ جوان لوگوں کوکافر نہ مانے، وہ کافر ہے۔
فتویٰ سے قبل عوام کو شبہات لاحق ہوسکتے ہیں۔فتویٰ کے بعدیعنی جب تحقیق وتدقیق کے بعدحکم شرعی جاری ہوگیا،او رعرب وعجم کے علمائے حق نے بھی تائید وتصویب وتصدیق کردی تو عوام کوشبہات باطلہ کے سبب انکارکا حق نہ رہا۔
صحیح فتویٰ جاری ہونے کا مفہوم ہی یہ ہے کہ وہ باطل شبہات ہیں۔
فتویٰ صادرکرنے سے قبل امام احمدرضا قادری نے (من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر)کا حکم نہیں دیا۔بیان حکم سے قبل عوام الناس کے شبہات کا لحاظ کیا گیا۔
شبہات باطلہ کی صورت میں قائلین کوکافرماننے کے لیے محض کفریہ عقائد پر واقف ہونا کافی نہیں،بلکہ ان کے متعلق حکم کفر کوبھی جاننا ہے،تب من شک:الخ کا حکم نافذہوگا۔
جہاں شبہات باطلہ نہ ہوں،بلکہ کفر بدیہی غیر کسبی ہو، وہاں فتویٰ کی ضرورت نہیں۔ فتویٰ کے بغیر مجر م کو کافرتسلیم کرنا لازم ہے۔ دونوں قسموں کا حکم مندرجہ ذیل ہے۔
(الف)کفر بدیہی اولی جہاں فتویٰ کی ضرورت ہے:
امام احمدرضا قادری علیہ الرحمۃ والرضوان سے سوال ہوا:
(سوال دوم)زید مولویان فرقہ وہابیہ دیوبندیہ کوعالم دین سمجھتا ہے، اور ان کی تعظیم وتکریم بھی کرتا ہے،لیکن خود عالم نہیں ہے۔اب زید مذکور اہل سنت وجماعت کی امامت کر سکتا ہے یانہیں؟اور اس کی امامت سے نماز سنی کی صحیح ہے یا کیا؟
امام احمدرضاقادری نے جواب میں رقم فرمایا:”دیوبندیہ کی نسبت علمائے کرام حرمین شریفین نے بالاتفاق فرمایا ہے کہ وہ مرتد ہیں اورشفائے امام قاضی عیاض وبزازیہ ومجمع الانہر ودر مختا ر وغیرہا کے حوالہ سے فرمایا کہ ”من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر“جوان کے اقوال پر مطلع ہوکر ان کے کفر میں شک کرے،وہ بھی کافر۔
اوران کی حالت کفر وضلال اور ان کے کفری وملعون اقوال طشت ازبام ہوگئے۔ ہرشخص کہ نراجنگلی نہ ہو، ان کی حالت سے آگاہ ہے،پھر انھیں عالم دین جانے تو ضرور منہم ہے،اور اس کے پیچھے نماز باطل محض:واللہ تعالیٰ اعلم“۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد سوم:ص265 -رضا اکیڈمی ممبئ)
توضیح:منقولہ بالا عبارت میں آخری پیراگراف میں ان کی حالت کفروضلال اور ان کے کفری اقوال کی شہرت کا ذکر ہے۔حالت کفر وضلال یہ ہے کہ ان لوگوں پر کفر کا فتویٰ آیا اور یہ لوگ تائب نہ ہوئے۔چوں کہ ان کے کفریہ عقائد اور ان پر عائد شدہ حکم کفر مشہورتھے تواب جو ان کوکافر نہ مانے،وہ بھی کافر ہے۔ اگر محض کفریہ عقائدکو جاننا کافی ہوتا تو دیوبندیوں کے کفریہ عقائد المعتمد المستند اورحسام الحر مین سے بہت پہلے مشہور تھے۔
1324-1323ہجری مطابق 1906 میں علمائے حرمین طیبین اشخاص اربعہ اور قادیانی پر حکم کفر عائد فرمایا،اس کے بعد من شک:الخ کا حکم نافذ کیا گیا۔جب کہ کفریہ عبارتوں پر ایک مدت گزرچکی تھی۔تحذیر الناس 34:سال قبل لکھی گئی تھی۔براہین قاطعہ 20: سال قبل،گنگوہی کا فتویٰ 15:سال قبل اور حفظ الایمان 6:سال قبل لکھی گئی تھی۔
(1)قاسم نانوتوی نے 1290 مطابق 1872میں تحذیر الناس لکھی۔
(2)خلیل احمد انبیٹھوی نے سال 1304مطابق 1886 میں براہین قاطعہ لکھی۔
(3)گنگوہی کاوقوع کذب کا فتویٰ میرٹھ (یوپی)سے ماہ ربیع الاول 1308 مطابق 1890میں شائع ہوا۔
(4)اشرف علی تھانو ی نے سال 1319 مطابق 1901 میں حفظ الایمان لکھی۔
شبہات باطلہ کے اسباب:
عوام کے شبہہ میں مبتلا ہونے کا اہم سبب یہ ہے کہ اشخاص اربعہ نے اپنے باطل موقف کوثابت کرنے کے لیے قرآن وحدیث اور اقوال اسلاف رقم کیے ہیں،اس لیے عوام کو شبہہ ہوجائے گا کہ یہ باتیں صحیح ہیں یاغلط۔
یہ کفریات کلامیہ بدیہی اولی ہونے کے باوجود عوام کو شبہات باطلہ لاحق ہوسکتے ہیں،نیزدیابنہ باطل تاویلات پیش کرتے رہے،اور عوام الناس کوان کفریات بدیہیہ میں شبہات باطلہ لاحق ہوتے رہے۔
حرمین طیبین سے فتویٰ کفر آنے کے بعد بھی شبہات باطلہ وارد کیے جاتے رہے۔ بعض شبہات کے جواب امام احمدرضا نے فتاویٰ رضویہ میں رقم فرمائے۔ہت سے شبہات کے جواب تمہید ایمان،الموت الاحمر،ادخال السنان،وقعات السنان وغیرہ میں دئیے گئے۔
امام احمدرضا نے یہ نہیں فرمایا کہ شبہات باطلہ کاامکان نہیں،بلکہ آپ نے شبہات باطلہ کا بطلان ظاہر فرمایا۔شبہات باطلہ کے بعض اسباب درج ذیل ہیں۔
(1)نانوتوی نے لکھا کہ خاتم النبیین کا معنی آخری نبی یہ عوام کا خیال ہے۔اس سے عوام الناس کویہ شبہہ لاحق ہوگا کہ شاید اہل علم کے یہاں خاتم النبیین کا دوسرا معنی ہے۔اب عوام الناس کو اتنی قوت نہیں کہ وہ خود تحقیق کرسکیں۔انہیں علما سے رجوع کرنا پڑے گا۔
(2)نانوتوی نے لکھا کہ خاتم النبیین کا معنی نبی بالذات ہے،اور نبی بالذات کے لیے ختم زمانی لازم ہے تو عوام الناس یہی سمجھیں گے کہ یہ تو ختم زمانی مانتا ہے۔
(3) جہاں لکھا کہ بالفرض کوئی نبی عہد نبوی کے بعد آجائے تو بھی ختم ذاتی میں فرق نہیں پڑے گا،اس سے عوام کو یہ شبہہ ہوگاکہ یہ با ت محض فرض محال کے طورپر کہی گئی ہے۔
(4) یہ توعوام مسلمین کو معلوم ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بے ادبی کفر ہے۔جب انبیٹھوی نے لکھا کہ شیطان کا علم زیادہ ہے تو عوام یہی سمجھیں گے کہ یہاں شیطان کے علم کو زیادہ اور نبی کے علم کو کم بتایا جارہا ہے،یہ بے ادبی ہے،لیکن انبیٹھوی نے ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیا ہے کہ شیطان کے علم کی زیادتی نص یعنی قرآن وحدیث سے ثابت ہے،تب عوام کوشبہہ ہوجائے گا کہ جب نص سے ثابت ہے تو پھر یہاں بے ادبی نہیں ہوگی۔
اب عوام الناس کو علما کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔عوام کو تحقیق کی قوت نہیں۔نہ ہی عوام الناس کو شرعی مسائل میں تحقیق کی اجازت ہے۔علما کے بیان کردہ احکام پرعمل کرنا ہے، حسب ضرورت سوال کرنا ہے:(فاسئلوااہل الذکر ان کنتم لاتعلمون)
(5)گنگوہی نے وقوع کذب کے فتویٰ میں لکھ دیا کہ خلف وعیدکے مسئلہ سے امکان کذب ثابت ہوتا ہے۔عوام کونہ خلف وعید کی بحث معلوم ہے،نہ وہ فیصلہ کرسکتے ہیں۔
(6) تھانوی نے لکھا کہ ایسا علم غیب زیدوبکر کوبھی ہے، اورآگے لکھ دیا کہ نبی کے لیے جوعلم ضروری ہے،وہ تمام علوم آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو حاصل ہیں توعوام مسلمین کو یہ شبہہ ہو گا کہ یہ علم نبوی کو زید وبکر کے مساوی نہیں مانتاہے،بلکہ صرف ایک مثال دیا ہے۔
مذکورہ شبہات کے علاوہ بہت سے شبہات ہیں جو اشخاص اربعہ کی کفریہ عبارتوں کی تاویل میں دیابنہ پیش کرتے ہیں،اس لیے اشخاص اربعہ کے کفریات کلامیہ بدیہی اولی ضرور ہیں، لیکن عوام کے لیے شبہات باطلہ کی گنجائش ہے،پس ایسے امور میں مفتی کے فتویٰ کے بعد ملزم کوکافر ماننے کا حکم ہوگا۔
جب حکم شرعی صادرہوگیا،اس کی تشہیر بھی ہوگئی تو اب ملزم کے کفریہ عقائد اور اس پر نافذکردہ حکم سے واقفیت کے بعد جو بھی اس کوکافر نہ مانے،وہ خود کافر ہے۔
(ب)کفربدیہی غیرکسبی میں بغیر فتویٰ مجرم کوکافر ماننے کا حکم
کفربدیہی غیرکسبی: شبہات سے خالی ہوتا ہے۔ یہاں بغیر فتویٰ مجرم کو کافر ماننا ہے۔
(1)اگر کوئی دین اسلام چھوڑ کر مجوسی مذہب اختیارکرلے تو اس کا کافرہونا ہرعالم وجاہل کے لیے واضح اور بدیہی غیرکسبی ہو گا،اوراس کے کافر ہونے میں باطل شبہہ بھی نہیں رہے گا۔ ایسی صورت میں کسی عالم کے فتویٰ کی ضرورت نہیں۔جوعالم وجاہل ایسے آدمی کو کافر نہ مانے،وہ خود کافر قرار پائے گا۔یہ بدیہی غیرکسبی ہے،جس میں شبہہ کی گنجائش نہیں۔
کتاب الشفا اور دیگر کتابوں میں کفر کلامی کی توضیح میں بار بار یہ مثال دی جاتی ہے کہ جیسے یہود ونصاریٰ وغیرہ کافر ہیں،اسی طرح مرتدین یعنی کفر کلامی کے مرتکبین کافر ہیں۔یہ کفربدیہی غیر کسبی کے ذریعہ مرتدین کے کفر بدیہی اولی کی تفہیم ہے۔
(2)کوئی آدمی اعلانیہ کہتا ہے کہ معبود ایک نہیں،بلکہ دوہیں۔ایک معبود اللہ ہے، اور ایک معبود شیطان ہے۔میں دونو ں کوپوجتا ہوں،دونوں کی عبادت کرتا ہوں۔
اب ایسے آدمی کو جوعالم یا جاہل کافر نہ مانے تو وہ خود کافر ہے۔ایسے واضح کفریعنی کفر بدیہی غیر کسبی میں فتویٰ کی ضرورت نہیں۔
(3)کوئی روزانہ بت پوجنے مندرجاتا ہے، جیسے ہنودبت پوجتے ہیں،اسی طرح بت پوجتے ہوئے لوگ اسے دیکھتے ہیں،پھر وہ مسجد میں آکر نماز بھی پڑھتا ہے۔اب جواس کے حالات وکفریات سے یقینی طورپر واقف ہوکر بھی اس کومومن مانتا ہے تو وہ کافر ہوگا۔
(4)کوئی اعلانیہ کہتا ہے کہ میں نبی ہوں۔کوئی اعلانیہ کہتا ہے کہ میں خدا ہوں۔
ایسوں کے حالات وکفریات سے واقف ہوکر بھی کوئی اسے مومن کہتا ہے تو وہ یقینا کافر ہے۔ ایسے ظاہری مسائل میں فتویٰ کی ضرورت نہیں۔
ایسا بدیہی غیر کسبی کفر جس کا حکم عوام کوبھی معلوم ہو، پھر مرتکب کے حالات سے یقینی طورپر واقف ہوکر بھی کوئی اسے مسلمان سمجھے تووہ یقینا کافر ہے۔
ایسے واضح کفریات میں فتویٰ کی ضرورت نہیں،بلکہ جب ایسے روشن اورشبہات سے بالاترکفریات کا علم یقینی حاصل ہو، اسی وقت سے مرتکب کوکافر ماننا ہے، اور اسے مومن سمجھنے کے سبب خوداس پر حکم کفر عائد ہوگا۔
امام احمدرضا قادری سے ایک پیرکے بارے میں سوال کیا گیا جوسب کوخدا کہتا تھا۔ زیدوبکر سب کو خدا کہتا۔خود کوبھی اللہ کہتا۔نماز،روزے وحج سے منع کرتا۔شریعت کو خودساختہ کہتا:وغیرہ۔امام اہل سنت نے فرمایا کہ جو اس کے حالات کا علم ہونے کے باوجود اس کو پیر مانے،وہ کافر ہے۔ ان کی عورتیں نکاح سے نکل چکی ہیں،حالاں کہ ابھی کسی مفتی نے فتویٰ ہی نہیں دیا تھا تو ”من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر“کا حکم کیسے نافذہوگا۔دراصل ایسا کفر بدیہی غیر کسبی ہے۔سوال وجواب طویل ہیں۔جواب کا ضروری حصہ درج ذیل ہے۔
”جو لوگ مرید اس کے ہوچکے ہیں،ان پر فرض ہے کہ اس سے جدا ہوں،دور بھاگیں کہ وہ بیعت اس کے ہاتھ پر نہیں،ابلیس کے ہاتھ پر ہوئی،پھر ان مریدوں میں جواس کے ان کفروں سے آگاہ تھے،اور اس کے بعد مریدہوئے،یا بعد مریدی کے آگاہ ہوئے،اور اس کی بیعت سے الگ نہ ہوئے،وہ سب بھی اسلام سے خارج ہیں۔
ان پر بھی فرض کہ نئے سرے سے مسلمان ہوں،توبہ کریں،توبہ واسلام کے بعد ان کی عورتیں اگر ان سے دربارہ نکاح پر راضی نہ ہوں تو ان پر جبر نہیں۔
عورتیں جس سے چاہیں، اگر عدت گزرچکی ہے تو ابھی،ورنہ بعد عدت اپنا نکاح کرلیں،اوراگر انہیں سے دوبارہ نکاح کریں تومہر جدید لازم آئے گا،اور پہلامہر بھی،اگر باقی ہے،دینا ہوگا“۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد ششم:ص 195-رضااکیڈمی ممبئ)
توضیح:مذکورہ بالا فتویٰ سے واضح ہوگیا کہ ایسا بدیہی غیرکسبی کفر جس میں شبہات باطلہ بھی نہ ہوں، اس میں مفتی کے فتویٰ کے ضرورت نہیں۔
جب ایسے واضح کفر کا علم ہوتو اسی وقت سے مرتکب کوکافر ماننا ہے۔مذکورہ فتویٰ میں بتایا گیا کہ ان کی بیویوں سے نکاح ٹوٹ چکے ہیں۔اگر ان کی عدت گزرچکی ہے توابھی جس سے نکاح کرنا چاہیں تو کرسکتی ہیں۔فسخ نکاح کفرکلامی میں ہوتا ہے۔
گویا مذکورہ مرید ین کافر کلامی ہوچکے ہیں اور فتویٰ سے قبل ہی سارے احکام نافذہوچکے،اسی لیے کہا گیا کہ اگران کی بیویوں کی عدت گزرچکی ہے تو جس سے چاہے، ابھی نکاح کر سکتی ہیں۔اگر اسی شوہر سے نکاح ہوتو نیا مہر دینا ہوگا،کیو ں کہ یہ نیا نکاح ہے۔
الحاصل ایسا بدیہی غیر کسبی کفر جس میں کوئی شبہہ نہ ہو،اس میں مفتی کے فتویٰ کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح باربار یہ بتایا جا چکا ہے کہ جو اشخاص اربعہ کے کفریات اور ان پر عائد کرد ہ حکم کفر سے واقف ہوکر ان کو مومن مانے تووہ بھی کافر ہے۔ اب ایسے کافروں کے لیے بھی مستقل فتویٰ کی ضرورت نہیں۔عام مشہور حکم شرعی کے تحت اس پر حکم لازم ہوگا۔
کفربدیہی یعنی کفر کلامی کے اقسام واحکام:
کفر بد یہی یعنی کفر کلامی کی تین قسمیں ہیں:
(1)بدیہی غیرکسبی جس میں عوام کے لیے بھی شبہہ کی گنجائش نہ ہو۔ اس صورت میں فتویٰ کی ضرورت نہیں۔بلا فتویٰ مجرم کو کافرماننا ہے۔
(2)بدیہی اولی جس میں عوام کے لیے شبہہ کی گنجائش ہو۔اس میں عوام کے لیے مفتی کے فتویٰ کی ضرورت ہے۔فتویٰ کے بعد مجرم کو کافر کلامی ماننالازم ہے۔
(3)بدیہی غیر اولی:اس میں علما وفقہا کو بھی شبہات باطلہ لاحق ہوسکتے ہیں۔
ماہرعلمائے متکلمین کے صحیح فتویٰ کے بعدمجرم کو کافرکلامی ماننا لازم ہے۔
کفرکلامی کی دوسری اورتیسری قسم او ر کفر نظری یعنی کفر فقہی میں عوام کو بحث وتحقیق کی اجازت نہیں۔علمائے کرام کے بیان کردہ حکم کوماننا ہے۔ کفر نظری کا تعین کچھ مشکل ہوتا ہے، اور کفر بدیہی غیر اولی میں خفا ہوتا ہے۔عوام کو صرف کفربدیہی غیرکسبی میں مفتی کے فتویٰ کے بغیر مجرم کو کافرماننے کا حکم ہے۔
باقی دوقسموں میں علما سے سوال کا حکم ہے۔
امام احمد رضا قادری نے رقم فرمایا:”جاہل کو احکام شرع خصوصًا کفرواسلام میں جرأت سخت حرام،اشد حرام ہے۔کوئی ہو، کسے باشد۔ واللہ تعالیٰ اعلم“۔
(فتاویٰ رضویہ جلدششم: ص209-رضا اکیڈمی ممبئ)
ابتدائی مرحلہ میں قائلین کو صریح لفظوں میں کافر نہ کہنا:
جب دیابنہ کی کفریہ تحریریں منظرعام پرآئیں توابتدائی مرحلہ میں علمائے کرام کویہ شبہہ ہوا کہ یہ کفریات کلامیہ ان لوگوں کا کا عقیدہ ہے، یالغزش کے سبب ایسا صادر ہوگیا۔
لغزش کے سبب اگر مفتی ومناظرومحقق ومباحث سے کچھ صادر ہوتولغزش کا علم ہوتے ہی فوراً رجوع کرنا ہے،لیکن جب طواغیت اربعہ اپنی عبارتوں کی تاویل کرنے لگے۔ان عبارتوں پر مناظرہ کرنے لگے۔اپنی عبارتوں کی تاویل میں کتابیں لکھنے لگے،تب واضح ہو گیا کہ یہ ان کے عقائد ہیں۔لغزش کے سبب ایسا صادر نہیں ہوا،بلکہ مخفی عقائد کا اظہار ہے۔
ابتدائی مرحلہ میں علمائے کرام نے صریح لفظوں میں کافر نہیں کہا،لیکن ان عبارتوں کو کفریہ بتایا اور یہ ظاہرسی بات ہے کہ کفریہ کلام کا قائل کافرہوتا ہے تو ان کفریات کے قائلین کافر ہوئے۔دراصل بطورکنایہ ان کوکافر کہاگیا اور کنایہ صریح سے زیادہ بلیغ ہوتا ہے۔
علم بلاغت کا مشہورکلیہ ہے:(الکنایۃ ابلغ من التصریح)
صریح لفظوں میں کافر نہ کہنے کا ایک سبب یہ ہے کہ قائلین کو توبہ ورجوع کی طرف مائل کرنا مقصود تھا،اس لیے یہ نرمی اختیار کی گئی کہ صریح لفظوں میں کافر نہیں کہا گیا اور حکم شرعی بیان کردیا گیاکہ یہ قول کفریہ ہے۔ حکم شرعی کی متوجہ کرنے کے واسطے نرمی اختیار کی گئی۔
ارشاد الٰہی ہے:(ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ)
(سورہ نحل:آیت 125)
ہاں،یہ ضروری ہے کہ کافر کو کافر اعتقاد کیا جائے۔مسئلہ حاضرہ میں قوم کوان کے کفر سے محفوظ رکھنے کے واسطے علمائے حق ان کفریہ اقوال کی قباحت وشناعت بیان فرماتے رہے۔ان اقوال کو کفروضلالت اور خلاف حق بتاتے رہے۔اعتقاد اور افتا دو متغایر امر ہیں۔
امام احمدرضا قادری نے رقم فرمایا:”اللہ عزوجل نے کافر کوکافر کہنے کا حکم دیا:(قل یاایہا الکفرون)۔ہا ں،کافرذمی کہ سلطنت اسلام میں مطیع الاسلام ہوکر رہتا ہے،اسے کافر کہہ کر پکار نا منع ہے،اگر اسے ناگوار ہو۔درمختار میں ہے:(شتم مسلم ذمیا،عزر- وفی الغنیۃ:قال لیہودی اومجوسی:یا کافر یاثم،ان شق علیہ)
یوہیں غیر سلطنت اسلام میں جب کہ کافر کو ”اوکافر“کہہ کر پکارنے میں مقدمہ چلتا ہو(فانہ لا یحل لمسلم ان یذل نفسہ الا بضرورۃ شرعیۃ)مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ کافر کوکافر نہ جانے،یہ خود کفر ہے۔ من شک فی عذابہ وکفرہ فقد کفر۔
اسی طرح جب کسی کافر کی نسبت پوچھا جائے کہ وہ کیسا ہے،اس وقت اس کا حکم واقعی بتانا واجب ہے۔ حدیث میں ہے:اتر عون عن ذکر الفاجرمتی یعرفہ الناس- اذکروا الفاجر بمافیہ یحذرہ الناس۔یہ کافر کہنا بطوردشنام نہیں ہوتا،بلکہ حکم شرعی کا بیان“۔(فتاویٰ رضویہ:جلدنہم:جزدوم:ص313-رضا اکیڈمی ممبئ)
توضیح:کافرکو کافر اعتقاد کرنا ضروری ہے، اور کسی ضرورت شرعیہ کے سبب زبان سے کافر نہ کہے تواس پر مواخذہ نہیں۔علمائے حق نے ابتدائی مرحلہ میں اکابر دیوبند کوصریح لفظوں میں گرچہ کافر نہیں کہا،لیکن ان کے اقوال کو کفروضلالت ہی بتایا۔مسئلہ حاضرہ میں صریح لفظوں میں کافرنہ کہنے کے متعدداسباب ہیں۔بعض اسباب مندرجہ ذیل ہیں۔
ابتدائی مرحلہ میں اکابردیوبند کوکافر نہ کہنے کا سبب:
(1)اگرابتدائی مرحلہ میں علمائے حق نے قائلین کوصراحت کے ساتھ کافر نہیں کہاتو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ا ن قائلین کومومن اعتقاد کرتے تھے۔جب قول کو کفریہ بتارہے ہیں تو قائل کو مومن کیسے شمار کریں گے۔یہاں صریح لفظوں میں کافر کہنے سے پرہیز کیا گیا،تاکہ وہ لوگ توبہ کی طرف مائل ہو جائیں۔
وہ لوگ تنہا نہیں تھے،بلکہ ان لوگوں کے ساتھ ان کے تلامذہ،مریدین اور معتقد ین کی ایک بڑی تعداد تھی۔اگریہ لوگ توبہ ورجوع کرلیتے تو بہت سے لوگ ہدایت پا لیتے۔ جب وہ لو گ توبہ کی طرف بالکل مائل نہ ہوئے تو انجام کارقائلین کا صریح حکم شرعی بیان کرنا پڑا۔
صریح لفظوں میں قائل کوکافر نہ کہنے کی مثال موجود ہے۔جو فقہا باب تکفیر میں مذہب متکلمین پر ہوتے ہیں،وہ کفر فقہی کی صورت میں قائل کو کافر نہیں کہتے ہیں،لیکن قائل کے لیے توبہ،تجدید ایمان اور تجدید نکاح کا حکم دیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب وہ کافر ہی نہیں ہوا،مومن ہی رہا تو نکاح پر کچھ اثر آیا ہی نہیں،پھر تجدید نکاح کا حکم کیوں؟جب ایمان پر کچھ اثر آیاہی نہیں تو تجدید ایمان کا حکم کیوں؟
دراصل جو فقہا ئے اسلام باب تکفیر میں مذہب متکلمین پر ہوتے ہیں،مثلاً امام ابن ہمام حنفی (صاحب فتح القدیر)۔ایسے فقہا کفرفقہی کی صورت میں ملزم پرلفظ کافر کااطلاق نہیں کرتے،لیکن چوں کہ فقیہ ہیں توعملی احکام بیان کرنا ان کی ذمہ داری ہے،پس کافرفقہی کا جوحکم ہے،وہ بیان کرتے ہیں۔
اسی طرح ابتدائی مرحلہ میں بعض مرتدین کوصریح لفظوں میں کافر کہنے سے احتراز کیا جاتا ہے۔ اب اسلامی سلطنت نہیں کہ بادشاہ اسلام اس مجرم کو قید وقتل کرے،اور مجرم قید وقتل کے خوف سے غور وفکر کی طرف متوجہ ہو،پس ابتدائی مرحلہ میں ملاطفت کے ساتھ حکم شرعی کی تفہیم ہوتی ہے،اور ملزم کو اتباع شرع کی ترغیب دی جاتی ہے۔قول کا حکم بیان کیا جاتا ہے، تاکہ عوام الناس اور دیگر لوگ اس کفر وضلالت میں مبتلا نہ ہوسکیں۔
(2)صریح لفظوں میں کافرنہ کہنے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ جن لوگوں کوتواتر کے ساتھ وہ کفریہ کلمات موصول نہیں ہوسکے،وہ تکفیر نہیں کرسکتے تھے،کیوں کہ تکفیر کلامی کی شرط ہے کہ مفتی کویقین بالمعنی الاخص حاص ہوجائے کہ اس ملزم نے ایسا کہا ہے۔ یقین کی دوہی صورت تھی کہ مفتی کوتواتر کے ساتھ کفریہ کلام موصول ہو،یامفتی نے خود ہی اسے ملزم سے سنا ہو۔
جن علمائے حق کوتواتر کے ساتھ وہ کفریہ کلمات نہیں مل سکے توانہوں نے صرف کلام کا حکم بیان کیا کہ یہ کفریہ کلام ہے۔قائل کا حکم بیان نہیں فرمایا۔
وہ قائل کو ابھی کافر نہیں کہہ سکتے تھے۔نسبت جب تک یقینی نہ ہوجائے،اس وقت تک قائل کا حکم بیان نہیں کیا جاسکتا۔
نسبت یقینی نہ ہوتوصرف کلام کا حکم بیان کیا جائے گا کہ یہ کفریہ کلام ہے۔ایسا کہنے والا کافر ہے۔ جس نے ایسا کہا،وہ کافر ہے۔اگر اس نے ایسا کہا ہے توکافر ہے۔
بعض علمانے ان کفریہ اقوال کوضلالت وگمرہی لکھا تو ضلالت کا اطلاق ضلالت کفر یہ وضلالت غیر کفریہ دونوں پرہوتا ہے۔بدعت کا اطلاق بھی بدعت کفریہ اوربدعت غیر کفریہ دونو ں پر ہوتا ہے۔محل استعمال کے اعتبارسے کسی معنی کا تعین ہو گا۔جب کلام کفریہ ہوتو وہاں ضلالت وبدعت سے ضلالت کفریہ وبدعت کفریہ مراد ہوگی۔
اطلاع:جس طرح کفر کلامی کی تین قسموں کا بیان ہوا۔ان شاء اللہ تعالیٰ اسی طرح کفر فقہی کی تین قسموں کا بیان ہوگا۔ دوقسم پر حکم کفر عائد ہوتا ہے۔ ایک قسم پر حکم کفر نہیں۔