قرآن حکیم آسمانی کتابوں میں آخری اور آسمانی کتابوں کے سلسلے کو ختم کرنے والی کتاب ہے۔ یہ پہلی وہ آسمانی کتاب ہے جس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا اور اس کی حفاظت کے لیے جتنے اسباب و وسائل اور طریقے ہوسکتے تھے، سب اختیار کئے، اس طرح پاکیزہ کتاب ہر لحاظ اور ہر جانب سے مکمل محفوظ ہوگئی۔ الحمدللہ!سینکڑوں برس گذرنے کے بعد بھی اس میں رتی برابر بھی تغیر و تبدل نہ ہوسکا، لاکھ کوششیں کی گئیں، مگر کوئی ایک کوشش بھی کامیاب اور کارگر ثابت نہ ہوسکی، اور نہ قیامت تک ہوسکتی ہے۔
وسیم رضوی آرایس ایس اور شدت پسند ہندو تنظیموں کا ایجنٹ ہے جب سے مرکز میں بی جے پی برسراقتدار آئی ہے اسی وقت سے یہ مختلف عنوان سے اسلامی تعلیمات کے خلاف بکواس کے ذریعہ مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کررہا ہے اوراب قرآن حکیم کی بعض آیات کو شدت پر مبنی اور الحاقی قرار دے کر ان کو قرآن سے حذف کرنے کا مطالبہ لے کرسپریم کورٹ آف انڈیا پہنچ گیا ہے،دراصل یہ قرآن حکیم کے تقدس کے ساتھ عظمت خلفائے راشدین پر حملہ ہے،یہ وہ نفوس قدسیہ ہیں جنہیں اسلامی تاریخ کے آفتاب و ماہتاب کہا جاتا ہے، ان کے بے شمار فضائل ہیں، خلفائے راشدین کو دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ایک مشن اور ایک خاص کردار بنا کر بھیجا جنہوں نے دین کی سربلندی اور دین کے وقار کی خاطر مصائب برداشت کیے دین اسلام کے لئے قربانیاں پیش کیں اور حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اپنی جان ومال سب کچھ قربان کردیا۔ ان پر یا ان میں سے کسی ایک پر بھی اگر کوئی تنقید کرے یا ان میں سے کسی کی توہین کرے،ایسی حرکت امت مسلمہ کے لئے ناقابل برداشت ہے،اور وسیم رضوی جیسا آرایس ایس کی گندگی پر پلنے والا تو کیا اس جیسے سینکڑوں دشمنان اسلام بھی ایک جگہ جمع ہوجائیں تو قرآن حکیم کی کسی سورۃ یا کسی آیت کو حذف نہیں کرسکتے۔ اس لئے کہ قرآن پاک ہر طرح کے تغییر اور تبدیل اور تحریف اور کمی بیشی سے محفوظ ہے۔اس کی تمام قرآت اور روایات کے جاننے والے،پڑھنے پڑھانے والے اور حفظ کرنے والے ہمیشہ سے موجود ہیں۔تار یخی حقائق بھی اس بات کی تائید ہی کرتے ہیں کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قرآن پاک مسلمانوں کو عطا فرمایا ہے،وہ آج تک مسلمانوں کے پاس محفوظ ہے۔اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی شخص کر سکتا ہے۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں جتنے قرآن کریم کے نسخے لکھے گئے تھے وہ عموماً متفرق اشیاء پر لکھے ہوئے تھے۔خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہد خلافت میں جب جنگ یمامہ کے دوران حفاظ قرآن کی ایک بڑی جماعت شہید ہوگئی تو حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کروانے کا مشورہ دیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ ابتداء میں اس کام کے لئے تیار نہیں تھے لیکن شرح صدر کے بعد وہ بھی اس عظیم کام کے لئے تیار ہوگئے اور کاتب وحی حضرت زید بن ثابتؓ کو اس اہم وعظیم عمل کا ذمہ دار بنایا۔ اس طرح قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کرنے کا اہم کام شروع ہوگیا۔حضرت زید بن ثابتؓ خود کاتب وحی ہونے کے ساتھ پورے قرآن کریم کے حافظ تھے۔وہ اپنی یادداشت سے بھی پورا قرآن لکھ سکتے تھے، اُن کے علاوہ اُس وقت سینکڑوں حفاظ قرآن موجود تھے،مگر انہوں نے احتیاط کے پیش نظر صرف ایک طریقہ پر بس نہیں کیا بلکہ ان تمام ذرائع سے بیک وقت کام لے کر اُس وقت تک کوئی آیت اپنے صحیفے میں درج نہیں کی جب تک اس کے متواتر ہونے کی تحریری اور زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں۔کئی واقعات ہیں جو قران حکیم کے محفوظ رہنے کی ایک مستقل حسی دلیل ہیں جن سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں، پس جو کوئی قران کریم میں کسی قسم کی کمی یا زیادتی واقع ہو جانے کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہی نہیں بلکہ کافر ہے۔مولانا ممشاد پاشاہ نے مزید کہا کہ قرآن حکیم ایک ہی دفعہ میں نازل نہیں ہوا بلکہ ضرورت اورحالات کے اعتبار سے مختلف آیات نازل ہوتی رہیں۔ قرآن کریم کی حفاظت کے لئے سب سے پہلے حفظ قرآن پر زور دیا گیا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پہلے حافظ قرآن ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کرام کو قرآن کے معانی کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ انہیں اس کے الفاظ بھی یاد کراتے تھے۔ چنانچہ ہمیشہ اصحاب کرام میں ایک اچھی خاصی جماعت ایسی موجودرہتی جو نازل شدہ قرآن کی آیات کو یاد کرلیتی اور راتوں کو نماز میں اسے دہراتی تھی۔ غرضیکہ قرآن کی حفاظت کے لئے سب سے پہلے حفظ قرآ ن پر زور دیا گیا اور اُس وقت کے لحاظ سے یہی طریقہ زیادہ محفوظ اور قابل اعتماد تھا۔وسیم رضوی جیسا بد باطن کی اس قسم کی حرکات پر پابندی لگوانا اشد ضروری ہے۔
از افادات: (مولانا) سید محمد علی قادری الہاشمی