تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ
انسانی فطرت ہے کہ ہر انسان اس سے محبت کرتا ہے جو اس کا وفادار وفرماں بردار ہو۔ اس کے دکھ درد میں اس کا ساتھ نبھائے۔اپنی خوشی اور آرام کو اس کے لئے قربان کردے۔اپنی پسند پر اس کی پسند کو ترجیح دے۔اس کے لئے فداکارانہ جذبہ رکھتا ہو اور محبت والفت میں سچا ہو۔فریبی اور ڈھونگ رچنے والا نہ ہو۔
اگر آل و اولاد میں سے کوئی ایسا ہو تو وہ والدین کا پیارا ہوتا ہے۔احباب واقارب میں سے کوئی ایسا ہو تو اس سے تعلقات مضبوط رہتے ہیں۔اگر بیوی ایسی ہو تو وہ شوہر کے لئے لیلی بن جاتی ہے۔
عہد حاضر کی بہت سی تعلیم یافتہ بیویاں اپنے شوہر کے حق میں مذکورہ صفات سے عاری رہتی ہیں اور اس بات کی خواہش مند ہوتی ہیں کہ اس کا شوہر اسے اپنی لیلی بنا لے۔جب شوہر اسے ایک بیوی تسلیم کرتا ہے,لیکن اس کے ساتھ لیلی کی طرح سلوک نہیں کرتا ہے تو ان چنچل لڑکیوں کو بہت کوفت محسوس ہوتی ہے۔
اگر یہ لڑکیاں اپنے ذاتی عادات واطوار پر نظر ثانی کریں تو ممکن ہے کہ لیلی کے امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہو جائیں۔بصورت دیگر وہ بیوی رہیں گی۔لیلی بننے کے خواب نہ دیکھیں۔
کم تعلیم یافتہ اور جاہل لڑکیوں میں بہت کم ہی بیویاں لیلی بننے کا سپنا دیکھتی ہیں اور نسوانی غرور و گھمنڈ سے بھی بہت حد تک پاک رہتی ہیں۔تعلیم یافتہ اور دولت مند بیوی اگر اپنے شوہر کی وفادار ہو تو وہ بیچارہ بڑا خوش نصیب ہے۔
بیویوں کے رعب و دبدبہ اور ابلیسی غرور کے سبب بہت سے شوہروں کو یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ ہم محترمہ کی بعض خدمات کے لئے مثل ملازم ہیں اور انہیں خدمتوں پر خوش ہو کر جینا وہ سیکھ لیتے ہیں۔
شادی خانہ آبادی بھی ہونی چاہئے اور زندگی آبادی بھی ہونی چاہئے۔اگر شوہر کی زندگی اجیرن ہو جائے تو یہ بھی غلط ہے اور بیوی کی زندگی اجیرن ہو جائے تو یہ بھی غلط ہے۔
سماج میں عام طور پر شوہروں کو مجرم مانا جاتا ہے,حالاں کہ اکثر بیویاں ہی ماحول بگاڑتی ہیں۔اہل سماج جان بوجھ کر شوہروں پر دباؤ ڈالتے ہیں۔یہ اہل سماج کا سنگین جرم ہے۔