وہ متحد نہیں اس لئے ان کی شریعت محفوظ نہیں
ازقلم: جمال احمد صدیقی اشرفی القادری
حضور نبی رحمت رسول اکرم ﷺ کی بعثت اس لئے عمل میں آئی تاکہ آپ اپنی کوششوں اور جدوجہد سے اسلام کو غالب کرسکیں ۔ اس سرزمین پر قرآنی قانون کا نفاذ ہو ۔ باطل نظام کا خاتمہ ہوکر نظامِ حق قائم ہوسکے اور دنیا شیطانی راہوں سے نکل کر ایک خدا کی عبادت میں لگ جائے ۔۔
اس کو قرآن مجید نے اس طرح بیان کیا ہے ۔
وہ اللّٰہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کردے خواہ یہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار ہو ۔ ( سورہ التوبہ 33 )
اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر اس دنیا میں اسلام کا عادلانہ نظام قائم ہوجائے تو دنیا شراب ۔ جوا ۔ رشوت ۔ زنا ۔ چوری ۔ ڈاکہ زنی ۔ ظلم وزیادتی اور دیگر تمام منکرات سے پاک ہوجائے گی ۔ عورتوں کی آبرو محفوظ رہے گی ۔ لوگوں کی جان ومال کا تحفظ ہوگا اورایک پاکیزہ ماحول کی تشکیل عمل میں آئے گی ۔ جس کے نتیجے میں معاشرہ اور سماج بہتر ہوگا اور ہرآدمی آزادانہ اور پرسکون زندگی بسر کرسکے گا جو اسلام کی آمد اور رسالت کا اہم مقصد ہے ۔
اور ظاہر ہے کہ نظامِ حق کے نفاذ کے لئے اسلامی اقتدار کی ضرورت ہے جس کے ذریعے حدود وکفارات نافذ ہونگے ۔ معیشت ۔ سیاست ۔ عدالت اور زندگی کے ہرشعبے میں قرآن کے مطابق عمل ہوگا اور اس طرح دنیا مظالم سے پاک ہوگی ۔ ورنہ وہ افراد جن کے ہاتھ میں قانون ۔ سیاست ۔ عدالت ۔ معیشت اور تہذیب وتمدن نہ ہو اور نہ ملکی نظام ہو وہ ہزار چاہنے کے باوجود بھی معاشرے میں صالح انقلاب نہیں لاسکتے اور نہ دنیا منکرات سے پاک ہوسکتی ہے اسی لئے رسولِ اکرم نورِ مجسم ﷺ جس وقت مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لارہے تھے اور آپ کی زبانِ اقدس پر جو جملہ جاری تھا اس کا اہم جز حصولِ اقتدار کی دعا پرمشتمل تھا ۔ (بنی اسرائیل 80 )
اس سے معلوم ہوا کہ نظامِ حق کے قیام کے لیے اقتدار اور فرماں روائی نہایت ضروری ہے ۔ اس کے بغیراس کا تصور محض خواب ہے جو شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا اور اقتدار اور غلبۂ دین کے لئے مسلمانوں کے درمیان اجتماعیت اور اتحاد کی سخت ضرورت ہے اسی لئے مذہبِ اسلام نے اس پر بڑا زور دیا ہے کہ اس قدر تاکید دنیا کے کسی مذہب نے نہیں دی ۔
اسی اتحاد اور اجتماعیت کی غرض سے جب آپ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو اہلِ کتاب سے فوری معاہدہ کیا تاکہ اسلام داخلی انتشار سے محفوظ رہے اور آپ مدینہ سے باہر دیگر قوتوں کا مقابلہ کر سکیں ۔ اسی طرح آپ نے خانۂ کعبہ کی ازسرِ نو تعمیر کرنے کا ارادہ کیا اور آپ نے چاہا کہ بنائے ابراہیمی پر اس کو کردیا جائے لیکن مسلمانوں کے اختلاف اور شکوک وشبہات میں پڑنے کے اندیشے کی وجہ سے اس ارادے کو ترک فرمادیا ۔ رسولِ اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میرے بعد کچھ ظالم اور ناحق خلفاء خلافت کے عہدے پر فائز ہوں گے ۔ وہ اگرچہ نااہل ہوں گے لیکن تم ان سے اختلاف نہیں کرنا ۔ ان کی اطاعت اور فرماں برداری تمہارے ذمے واجب ہے خواہ وہ تمہاری پشت پر کوڑے
برسائیں ۔ ( صحیح بخاری )
اس میں حکمت یہ ہے کہ اگر خلیفہ کے خلاف آواز اٹھائی جائے گی تو اختلاف پیدا ہوگا ۔ دونوں طرف سے تلواریں اٹھیں گی جس کے نتیجے میں خانہ جنگی ہوگی ۔ اسلامی نظام متاثر ہوگا اور باطل طاقتوں کو اس طرف نظر اٹھانے کا موقع ہاتھ آجائے گا ۔ چنانچہ حجاج بن یوسف ظالم بادشاہ تھا ۔ اسلامی تاریخ میں بدنام ترین خلفاء میں ان کا شمار ہوتا ہے ۔ ان کے زمانے میں اکابر صحابہ کرام موجود تھے لیکن کسی نے ان کے خلاف آواز نہیں اٹھائی ۔ تقریباً سبھی نے ان کے خلافت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلیا تھا اس لئے کہ اگر آواز اٹھاتے تو اسلامی حکومت کمزور پڑجاتی اور نئے فتنے پیدا ہوجاتے ۔ اگر چہ وہ ظالم تھا لیکن پھر بھی اسلامی سرحد کی حفاظت کررہا تھا ۔ اسلامی نظام کسی نہ کسی حد تک قائم تھا ۔ اسلام اور مسلمانوں کی جانب سے دفاع ہورہا تھا اور اسلامی پرچم بلند تھاجو رسالت کا مشن ہے ۔
حضرتِ عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابۂ کرام اور مسلمانوں کی اجتماعیت باقی رکھنے کی غرض سے مصحفِ عثمانی کے علاوہ تمام مصاحف جلا دیئے تھے تاکہ مختلف انداز کی تلاوت کی وجہ سے مسلمان اختلاف اور کسی فتنے کے شکار نہ ہوں اور وہ سب ایک قرآن پر جمع ہوسکیں ۔ اسی کا اثر ہے کہ قرآن کے باب میں آج تک کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا اور ملت اسلامیہ متحد اور ایک ہے ۔ اتحاد اور یکجہتی کا اس قدر اہتمام اس لئے کیا گیا ہے کہ اتحاد ہی سب سے بڑی طاقت اور قوت ہے ۔ اس میں ایٹم بم اور بارود سے بھی زیادہ طاقت ہے ۔ اگر افراد بہت زیادہ ہوں مگر ان میں انتشار ہو تو کثرت کے باوجود ان کی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں ۔ اور اگر افراد کہیں کم ہوں تاہم اتحاد ہو تو اقلیت کے باوجود ان کی طاقت زیادہ ہوگی اسی لئے کہا گیا ہے کہ متحد اقلیت منتشر اکثریت سے ہزار گنا زیادہ بہتر ہے ۔ اسی طرح جہاں اتحاد ہو وہاں ظاہری اسباب وسائل کے باوجود دنیا پر اس کا رعب ہوگا اور بڑی بڑی طاقتیں اس قوم کی طرف نگاہ نہیں اٹھا سکتیں ۔ اور جس قوم کے پاس مادی طاقت بہت ہو لیکن اندرونِ خانہ خلفشار اور اختلاف کا شکار ہو تو وہ ساری طاقت رکھنے کے باوجود کمزور ہے ۔ اس سے کوئی ڈرنے والا نہیں ہوگا ۔
آپ نے کتوں پر بچوں کو ڈھیلا پھینکتے ہوئے دیکھا ہوگا ۔ کتے ہزار بھی ہوں گے پھر بھی ایک ڈھیلا ان سب کو بھگانے کے لئے کافی ہے کیونکہ ان میں اتحادی قوت نہیں اس لئے وہ مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ لیکن اس کے برعکس شہد کی مکھیوں پر کسی کو ڈھیلا مارنے کی قوت نہیں اور نہ ہی کوئی اس کی حماقت کرتا ہے بلکہ لوگ اس کے چھتے سے بچتے ہوئے نکلتے ہیں
۔ شہد کی مک
ھیاں دیکھنے میں نہایت کمزور ہیں لیکن ان کے اتحاد اور اجتماعیت نے انہیں ایسی طاقتور بنا دیا ہے کہ اچھے اچھے لوگ بھی انہیں چھیڑنے کے لئے ہزار بار سوچتے ہیں ۔
موتی یقیناً بہت قیمتی چیز ہے لیکن وہ گلے کا ہار اور زینت کا سامان نہیں بن سکتا جب تک کہ اسے دھاگے میں پرو نہ دیا جائے ۔ اسی طرح اینٹ اور پتھر کے ذرات کے آپس میں جمنے اورملنے کے بعد ہی بلڈنگوں اور عالیشان مکانوں کی تعمیر ہوتی ہے ۔ اگر وہ میدان میں بکھرے رہیں تو کبھی مکان کی تعمیر نہیں ہوسکتی ۔ ٹھیک اسی طرح آج مسلمانوں کے سارے مسائل کا حل ان کی اجتماعیت اور اتحاد میں ہے ۔ وہ متحد نہیں اس لئے ان کی شریعت محفوظ نہیں ۔ ان کی شناخت مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ان کے سینوں سے ایمان چھیننے کی سازشیں کی جا رہی ہیں ۔ وقفہ وقفہ سے کبھی طلاق ثلاثہ ۔ کبھی وندے ماترم ۔ کبھی تحریف قرآن ۔ کبھی توہینِ قرآن ۔ کبھی توہینِ نبی آخرالزماں ﷺ ۔ کبھی توہینِ اولیاء اللہ ۔ کبھی حجاب اور اسلامی شعائر پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں اور باطل طاقتیں مکمّل کوشش کررہی ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ ہوجائے ۔ کوئی مسلمان اپنی تہذیب اور شناخت کے ساتھ زندہ نہ رہے ۔ اگر کسی کو زندہ رہنا ہے تو وہ ہندوانہ تہذیب و تمدّن کے ساتھ زندہ رہے ۔ اس کی تعلیمات کو ہی اپنا رہبر اور پیشوا تسلیم کرے اور ایک خدا کی طاقت کا انکار کرتے ہوئے پھر زمانۂ جاہلیت کی طرف مسلمان لوٹ جائیں ۔
آج ملکی اور بین الاقوامی جو مسائل اور نئے نئے فتنے جنم لے رہے ہیں ان کی وجہ مسلمانوں کا باہمی انتشار ہے ۔ ان کا اختلاف یہاں تک پہنچا کہ ان کی مسجدیں ۔ کتابیں ۔ مدارس وغیرہ منقسم ہوگئیں اور وہ مختلف جماعتوں اور گروپوں میں بٹ گئے ۔ اسی انتشار کی وجہ سے اسمبلی اور پارلیمنٹ میں مسلمانوں کے نمائندے نہیں ہیں جو شریعت کے خلاف اٹھنے والی آواز کی مخالفت کرسکیں ۔ اس انتشار اور اختلاف کا علم تمام مخالفین کو اچھی طرح ہے ۔ وہ لوگ مسلمانوں کی کمزوری سے مکمّل واقف ہیں اس لئے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ ناچ رہے ہیں ۔
شمع کی طرح جئیں بزمِ گہہ عالم میں ۔
خود جلیں ۔ دیدۂ اغیار کو بینا کردیں