تحریر: (مفتی) محمد انور نظامی مصباحی
قاضی ادارہ شرعیہ جھارکھنڈ
روزہ کی حقیقت
صوم(روزہ) کا لغوی معنی،، رکنا،، ہے خواہ کسی بھی شءے سے رکنا ہو ۔
حضرت مریم رضی اللہ تعالی عنہا کے واقعہ میں گفتگو سے رکنے کو قرآن میں روزہ کہا گیا ہے ۔
قرآن عظیم میں :
انی نذرت للرحمن صوما فلا اکلم الیوم انسیا ۔آیت نمبر 26 میں نےرحمن کے لئے لیے روزہ کی نذر مانی ہے لہذا آج کسی سے بات نہیں کروں گی عمدۃ القاری شرح بخاری میں ہے : صوم (روزہ )لغت میں رکنے کو کہتے ہیں .
الصوم: ھو فی اللغۃ،الامساک۔(عمدۃالقاری ج١٠ ص٣٦١)
روزہ کی شرعی تعریف
اس سلسلے میں فقہائے کرام نے جو تعریفات بیان کی ہیں ہیں ان میں سے سب سے بہتر تعریف امام ابن الہمام علیہ الرحمۃ والرضوان کی ہے، جو فتح القدیر میں ہے:
جماع سے اور کسی بھی شءے کو کسی بھی بطن میں جس کے لیے باطن کا حکم ہے فجر سے غروب آفتاب تک داخل کرنے سے نیت کے ساتھ رکنا نا شرعا روزہ کہلاتا ہے ۔
فتح القدیر کے الفاظ یہ ہیں:
وفی الشرعی :امساک عن الجماع،وعن ادخال شءی بطنا لہ حکم الباطن من الفجر الی الغروب،عن نیۃ۔
ونکرنا البطن ووصفناہ لأنہ لو اوصل الی باطن دماغہ شیئا فسد، والی باطن فمہ وانفہ لا یفسد۔
(فتح القدیر ٢/٣٠٧کتاب الصوم)
اس تعریف کو علامہ شامی علیہ الرحمۃ والرضوان نے منحۃ الخالق حاشیہ البحر الرائق میں نہر کے حوالے سے اجود قرار دیا ہے۔منحۃ الخالق میں ہے:
قولہ(والمراد بترک الاکل ترک ادخال شیئ بطن الخ)قال فی النہر: بعید لان الصوم لا یختص بالکف عما یوکل ،کما سیاحتی بافطارہ بادخال نحو الحدید۔
فلو قال المصنف کما فی الفتح "ھو امساک عن الجماعت وعن ادخال شیئ بطنا لہ حکم الباطن من الفجر الی الغروب عن نیۃ”
لکان اجود۔
منحۃ الخالق حاشیہ البحر الرائق (کتاب الصوم ج٢ ص٤٥٣)