نتیجہ فکر: اسانغنی مشتاق رفیقیؔ
اجڑے ہوئے محلوں سے پہچان نہیں لیتے
ہم بیتے زمانوں کا احسان نہیں لیتے
جو کچھ بھی ہیں جیسے ہیں خود اپنے کرم پر ہیں
اجداد کے اترن سے ہم شان نہیں لیتے
تم کو ہی مبارک ہو یہ طوق غلامی کا
ارباب سیاست سے ہم دان نہیں لیتے
کس ناز سے کہتے ہیں وہ قتل ہمیں کر کے
بس جسم مٹاتے ہیں ہم جان نہیں لیتے
ہم اپنے عقیدوں کے ہر رمز سمجھتے ہیں
تقلید کے پنوں سے احسان نہیں لیتے