صحابہ کرام

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک جھوٹی حکایت

✍️__ اسدالرحمٰن (پیرمحل، پاکستان)

تعلیقات
✍️__ مفتی نثار مصباحی صاحب (ہندوستان)

"سیدنا امام حسن و حسین اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کھیل رہے تھے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اے ہمارے غلام کے بیٹے!
ان الفاظ کی وجہ سے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ رنجیدہ ہوئے تو اپنے والد محترم کی بارگاہ میں بطورِ شکایت عرض کی کہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے مجھے غلام کا بیٹا کہا ہے۔
سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
امام حسین رضی اللہ عنہ سےیہ بات لکھوا کر لے آؤ تاکہ جب میں فوت ہو جاؤں تو اس کاغذ کو میرے کفن میں رکھ دینا۔

اس روایت کوکئی خطباء نے بیان کیا ہے جبکہ اس کا کوئی بھی مستند حوالہ موجود نہیں ہے۔
جھوٹی روایت میں اگرچہ کتنی ہی محبت کا درس کیوں نہ ہو لیکن ہے تو من گھڑت۔ اس لیے علماے کرام و خطباے عظام کا حق بنتا ہے کہ مستند روایات ہی عوام الناس تک پہنچائیں۔"

یہ واقعہ اہل تشیع کی کتاب "چودہ ستارے” از نجم الحسن کراروی کے صفحہ 226 پر موجود ہے۔۔۔ اس واقعہ کا کوئی مستند حوالہ ملے تو ضرور راہنمائی کی جائے تاکہ اپنی اصلاح ممکن ہو۔

✍_اسدالرحمٰن
5جنوری 2020ء

تعلیقِ اوّل :

حدیثِ صحیح سے ثابت ہے کہ جنگِ بدر کے موقعے پر سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما ۱۳ یا ۱۴ سال کے تھے۔ اور اسی وجہ سے جنگ میں شرکت کی انھیں اجازت نہیں ملی۔ اگلے سال جنگِ اُحد میں آپ نے شریک ہونا چاہا۔ مگر بعض روایات میں ہے کہ اس میں بھی جنگ کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ مگر اس وقت آپ کی عمر مکمل ۱۴ سال تھی۔(تقریب التہذیب لابن حجر)
۳ ھ میں جنگِ احد ہوئی۔ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ ۳ھ میں اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ ۴ ھ میں پیدا ہوئے۔ اس وقت یعنی ۴ھ میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی عمر ۱۶ سال تھی۔ ظاہر ہے امام حسین کی جب کھیلنے کی عمر ہوئی ہوگی تب تک سیدنا عبد اللہ بن عمر ۱۹-۲۰ سال کے جوان مجاہد ہو چکے تھے۔ امام ابن عبد البر "الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب” میں معروف تابعی امام مجاہد کا بیان نقل فرماتے ہیں:
وعن مجاهد ، قال : عبد الله بن عمر شارك يوم فتح مكة وكان عمره عشرين سنة.
حضرت عبد اللہ بن عمر فتحِ مکہ میں شریک رہے۔ اس وقت ان کی عمر ۲۰ سال تھی۔
سب جانتے ہیں کہ فتحِ مکہ ۸ھ میں ہوئی۔ فتحِ مکہ کے وقت امام مجاہد کے بقول: عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی عمر ۲۰ سال تھی۔ یعنی ۴ ھ میں ان کی عمر ۱۶ سال تھی، اور ۳ ھ میں ۱۵ سال۔ !((بہر حال معمولی اختلاف کے باوجود یہ طے ہے کہ امام حسین کی ولادت یعنی ۴ھ میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی عمر ۱۴-۱۵ سال سے کم نہیں تھی۔ اور جب امام حسین کی عمر مبارک ۴ سال ہوئی یعنی ۸ ھ میں، اس وقت حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر امام مجاہد کے بقول ۲۰ سال، اور باختلافِ روایت کم از کم ۱۸-۱۹ سال ضرور تھی۔))

عمر کے اس تفاوت کے بعد یہ کہنا کہ دونوں ایک ساتھ کھیل رہے تھے، یہ کہنا ہی غیر معقول ہے۔ اور ہماری بیان کردہ یہ تفصیل اس فرضی واقعے کی بنیاد ڈھا دینے کے لیے کافی ہے۔

نثار مصباحی

۳۰ جنوری ۲۰۲۱ء

تعلیقِ دوم :

صحیح البخاری شریف کی حدیث ہے :

2521 – حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ قَالَ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللہ قَالَ حَدَّثَنِي نَافِعٌ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَضَهُ يَوْمَ أُحُدٍ وَهُوَ ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ سَنَةً فَلَمْ يُجِزْنِي……….الحديث

((صحيح البخاري، كتاب الشهادات، باب بلوغ الصبيان و شهادتهم. حديث نمبر : 2521)

بخاری شریف کی اس حدیث میں صراحت ہے کہ جنگِ احد کے وقت (یعنی ۳ ھ میں) حضرت عبد اللہ بن عمر کی عمر شریف ۱۴ سال تھی۔
اسی حدیث میں آگے ہے :
ثُمَّ عَرَضَنِي يَوْمَ الْخَنْدَقِ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً فَأَجَازَنِي.۔ ((یعنی جنگِ خندق کے وقت ان کی عمر ۱۵ سال تھی))

اس پر ایک اشکال ہے کہ جنگِ خندق ۵ ھ میں ہوئی۔ جب جنگ احد کے وقت وہ ۱۴ سال کے تھے تو خندق کے وقت ۱۶ سال ہونا چاہیے کیوں کہ جنگِ خندق ۵ ھ میں ہوئی۔ پھر اس میں کیسے کہا گیا کہ خندق کے وقت مَیں ۱۵ سال کا تھا ؟
اس اشکال کے ۲ جواب دیے گئے ہیں:
۱- جنگِ خندق ۵ھ میں نہیں بلکہ ۴ ھ میں ہوئی۔ جیسا کہ امامِ مغازی موسی بن عقبہ نے کہا ہے۔ (مگر یہ جواب کمزور ہے۔ کیوں کہ تحقیقی قول وہی ہے جو امام ابن اسحاق نے بیان فرمایا ہے کہ جنگ خندق ۵ھ میں ہوئی۔)
پھر اس اشکال کا دوسرا جواب دیا گیا ہے کہ:
۲- جنگِ احد کے وقت وہ تیرہ سال کے تھے اور چودہواں سال چل رہا تھا۔ اس لیے ۱۴ سال کہا۔ اور خندق کے وقت ۱۵ سال مکمل تھے، سولہواں چل رہا تھا، مگر سولہویں کے مہینوں کو نہ گنتے ہوئے صرف ۱۵ سال کہنے پر انھوں نے اکتفا کیا۔ (دیکھیے : فتح الباری شرح بخاری۔ اسی حدیث کی شرح)

بہر حال اتنا طے ہے کہ جنگِ احد کے وقت ان کی عمر ۱۳-۱۴ سال ضرور تھی۔ اس سے کم نہیں تھی۔ اس سے بھی ہمارا مدعا حاصل ہے۔

البتہ یہاں ایک اشکال ہوگا کہ اس حساب سے فتحِ مکہ کے وقت ان کی عمر ۱۸ سال بن رہی ہے۔ پھر "الاستیعاب” کے حوالے سے مذکور قول میں امام مجاہد نے فتحِ مکہ کے وقت ان کی عمر ۲۰ سال کیسے بتائی ؟
اس اشکال کے ۲ جواب ہیں:
۱- پہلا جواب یہ ہے کہ فتحِ مکہ کے وقت ان کی عمر ۱۸ سال تھی، انیسواں سال چل رہا تھا۔ امام مجاہد نے انیس کی جگہ بیس کہہ کر ۲۰ کی تعیین نہیں کی ہے بلکہ ایک تقریبی قول بیان فرمایا ہے یعنی لگ بھگ ۲۰ سال تھی۔ اور ایسا بہت ہوتا ہے کہ ۱۹ سال والے کو موٹے طور پر بیس سال کا کہہ دیا جاتا ہے۔
۲- دوسرا جواب یہ ہے کہ امام مجاہد تک یہی قول پہنچا ہوگا کہ اس وقت ان کی عمر ۲۰ سال تھی۔ اس لیے انھوں نے ۲۰ سال بیان کی۔

بہر حال ان معمولی اختلافات سے ہمارے مدعا پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
چاہے آپ فتحِ مکہ کے وقت ان کی عمر ۱۸ سال مانیں، یا ۱۹ مانیں یا ۲۰ مانیں۔ بہر حال امام حسین رضی اللہ عنہ کی عمر شریف فتحِ مکہ والے سال جب ۴ سال تھی اس وقت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی عمر ۱۸-۱۹ سال ہو چکی تھی۔ اور دونوں کی عمر میں اس تفاوت کے ہوتے ہوئے ساتھ ساتھ کھیلنا متصور نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے