ملفوظاتِ و اقوال سرکار غوث اعظم قدس سرہ النورانی رضی اللہ تعالی عنہ (قسط:4)
تحریر: اے۔ رضویہ، ممبئی
مرکز: جامعہ نظامیہ صالحات کرلا ممبئی
مزرعِ چِشت و بخاراو عِراق و اجمیر
کون سی کشت پہ برسا نہیں جھالا تیرا
اللہ عزوجل کی اطاعت کرو!
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رضی اللہ تعالٰی عنہ ارشاد فرماتے ہیں: “اللہ عزوجل کی نافرمانی نہیں کرنی چاہئیے اور سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئیے، اس بات پر یقین رکھنا چاہئیے کہ تو اللہ عزوجل کا بندہ ہے اور اللہ عزوجل ہی کی ملکیت میں ہے، اس کی کسی چیز پر اپنا حق ظاہر نہیں کرنا چاہئیے بلکہ اس کا ادب کرنا چاہئیے کیونکہ اس کے تمام کام صحیح درست ہوتے ہیں، اللہ عزوجل کے کاموں کو مقدم سمجھنا چاہئیے۔ اللہ تبارک و تعالٰی ہر قسم کے امور سے بے نیاز ہے اور وہ ہی نعمتیں اور جنت سے عطا فرمانے والا ہے، اور اس کی جنت کی نعمتوں کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ اس نے اپنے بندوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لئے کیا کچھ چھپا رکھا ہے، اس لئے اپنے تمام کام اللہ عزوجل ہی کے سپرد کرنا چاہئیے، اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنا فضل و نعمت تم پر پورا کرنے کا عہد کیا ہے اور وہ اسے ضرور پورا فرمائے گا۔ بندے کا شجر ایمانی اس کی حفاظت اور تحفظ کا تقاضا کرتا ہے، شجر ایمانی کی پرورش ضروری ہے، ہمیشہ اس کی آبیاری کرتے رہو، اسے (نیک اعمال) کھاد دیتے رہو تاکہ اس کے پھل پھولیں اور میوے برقرار رہیں اگر یہ میوے اور پھل گر گئے تو شجر ایمانی ویران ہو جائے گا اور اہل ثروت کے ایمان کا درخت حفاظت کے بغیر کمزور ہے لیکن تفکر ایمانی کا درخت پرورش اور حفاظت کی وجہ سے طرح طرح کی نعمتوں سے فیضیاب ہے، اللہ عزوجل اپنے احسان سے لوگوں کو توفیق عطا فرماتا ہے اور ان کو ارفع و اعلٰی مقام عطا فرماتا ہے۔“ اللہ تعالٰی کی نافرمانی نہیں کر، سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور اس کے دربار میں عاجزی سے معذرت کرتے ہوئے اپنی حاجت دکھاتے ہوئے عاجزی کا اظہار کر، آنکھوں کو جھکاتے ہوئے اللہ عزوجل کی مخلوق کی طرف سے توجہ ہٹاکر اپنی خواہشات پر قابو پاتے ہوئے دنیا و آخرت میں اپنی عبادت کا بدلہ نہ چاہتے ہوئے اور بلند مقام کی خواہشات دل سے نکال کر رب عزوجل کی عبادت و ریاضت کرنے کی کوشش کرو۔
(فتوح الغیب مع قلائد الجواہر، ص44)
ایک مومن کو کیسا ہونا چاہئیے؟
حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا فرمان عالیشان ہے: “محبت الٰہی عزوجل کا تقاضا ہے کہ تو اپنی نگاہوں کو اللہ عزوجل کی رحمت کی طرف لگادے اور کسی کی طرف نگاہ نہ ہو یوں کہ اندھوں کی مانند ہو جائے، جب تک تو غیر کی طرف دیکھتا رہے گا اللہ عزوجل کا فضل نہیں دیکھ پائے گا پس تو اپنے نفس کو مٹاکر اللہ عزوجل ہی کی طرف متوجہ ہو جا، اس طرح تیرے دل کی آنکھ فضل عظیم کی جانب کھل جائے گی اور تو اس کی روشنی اپنے سر کی آنکھوں سے محسوس کرے گا اور پھر تیرے اندر کا نور باہر کو بھی منور کر دے گا، عطائے الٰہی عزوجل سے تو راحت و سکون پائے گا اور اگر تو نے نفس پر ظلم کیا اور مخلوق کی طرف نگاہ کی تو پھر اللہ عزوجل کی طرف سے تیری نگاہ بند ہو جائے گی اور تجھ سے فضل خداوندی رک جائے گا۔“تو دنیا کی ہر چیز سے آنکھیں بند کرلے اور کسی چیز کی طرف نہ دیکھ، جب تک تو چیز کی طرف متوجہ رہے گا تو اللہ عزوجل کا فضل اور قرب کی راہ تجھ پر نہیں کھلے گی، توحید، قضائے نفس، محویت، ذات کے ذریعے دوسرے راستے بند کردے تو تیرے دل میں اللہ تعالٰی کے فضل کا عظیم دروازہ کھل جائے گا تو اسے ظاہری آنکھوں سے دل، ایمان اور یقین کے نور سے مشاہدہ کر دے گا۔مذید فرماتے ہیں: تیرا نفس اور اعضاء غیراللہ کی عطا اور وعدہ سے آرام و سکون نہیں پاتے بلکہ اللہ تعالٰی کے وعدے سے آرام و سکون پاتے ہیں۔“
(فتوح الغیب مع قلائد الجواہر، ص 103)
اللہ عزوجل کے ولی کا مقام: شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ارشاد مبارک ہے: “جب بندہ مخلوق، خواہشات، نفس، ارادہ اور دنیا و آخرت کی آرزوؤں سے فنا ہو جاتا ہے تو اللہ عزوجل کے سوا اس کا کوئی مقصود نہیں ہوتا اور یہ تمام چیز اس کے دل سے نکل جاتی ہیں تو وہ اللہ عزوجل تک پہنچ جاتا ہے، اللہ عزوجل اسے محبوب و مقبول بنا لیتا ہے اس سے محبت کرتا ہے اور مخلوق کے دل میں اس کی محبت پیدا کر دیتا ہے۔ پھر بندہ ایسے مقام پر فائز ہو جاتا ہے کہ وہ صرف اللہ عزوجل اور اس کے قرب کو محبوب رکھتا ہے اس وقت اللہ تعالٰی کا خصوصی فضل اس پر سایہ فگن ہو جاتا ہے۔ اور اس کو اللہ عزوجل نعمتیں عطا فرماتا ہے اور اللہ عزوجل اس پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اور اس سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ رحمت الٰہی عزوجل کے یہ دروازے کبھی اس پر بند نہیں ہوں گے اس وقت وہ اللہ عزوجل کا ہو کر رہ جاتا ہے، اس کے ارادہ سے ارادہ کرتا ہے اور اس کے تدبر سے تدبر کرتا ہے، اس کی چاہت سے چاہتا ہے، اس کی رضا سے راضی ہوتا ہے، اور صرف اللہ عزوجل کے حکم کی پابندی کرتا ہے۔
(فتوح الغیب مع وقلائد الجواہر، المقالہ السادستہ و الخمسون، ص 100)
طریقت کے راستے پر چلنے کا نسخہ:
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ ارشاد فرماتے ہیں: “اگر انسان اپنی طبعی عادات کو چھوڑ کر شریعت مطہرہ کی طرف رجوع کرے تو حقیقت میں یہی اطاعت الٰہی عزوجل ہے، اس سے طریقت کا راستہ آسان ہوتا ہے۔اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
وما اتکم الرسول فخذوہ وما نھکم عنہ فانتھوا ( پ28، الحشر:7 )
ترجمہ کنزالایمان: اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو۔کیونکہ سرکار مدینہ، قرار قلب و سینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہی اللہ عزوجل کی اطاعت ہے، دل میں اللہ عزوجل کی وحدانیت کے سوا کچھ نہیں رہنا چاہئیے، اس طرح تو فنافی اللہ عزوجل کے مقام پر فائز ہو جائے گا اور تیرے مراتب سے تمام حصے تجھے عطا کئے جائیں گے اللہ عزوجل تیرے حفاظت فرمائے گا، موافقت خداوندی حاصل ہو گی۔اللہ عزوجل کو کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئیے ان اعمال کو شریعت کی پیروی کرتے ہوئے بجا لانا چاہئیے، بندے کو ہر حال میں اپنے رب عزوجل کی رضا پر راضی رہنا چاہئیے، اللہ عزوجل کی نعمتوں سے شریقت کی حدود ہی میں رہ کر لطف و فائدہ اٹھانا چاہئیے اور ان دینوی نعمتوں سے تو حضور تاجدار مدینہ راحت قلب و سینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے بھی حداد شرع میں رہ کر فائدہ اٹھانے کی ترغیب دلائی ہے چنانچہ سرکار دو جہاں، رحمت عالمیان صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: “خوشبودار عورت مجھے محبوب ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔“
(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الرقائق، الفصل الثالث، الحدیث 5261، ج2، ص 258 )
لٰہذا ان نعمتوں پر اللہ عزوجل کا شکر ادا کرنا واجب ہے، اللہ عزوجل کے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور اولیاء عظام رحمھم اللہ تعالٰی کو نعمت الٰہیہ حاصل ہوتی ہے اور وہ اس کو اللہ عزوجل کی حدود میں رہ کر استعمال فرماتے ہیں، انسان کے جسم و روح کی ہدایت و رہنمائی کا مطلب یہ ہے کہ اعتدال کے ساتھ احکام شریعت کی تعمیل ہوتی رہے اور اس میں سیرت انسانی کی تکمیل جاری و ساری رہتی ہے۔
(فتوح الغیب، مترجم، صفحہ72)
(مضمون جاری)