حضور امین شریعت علامہ سبطین رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کی اہلیہ اور حضور حکیم شریعت علامہ سلمان رضا خان قادری بریلوی کی والدہ محترمہ مخدومہ ١٥ نومبر ٢٠٢١ء/٩ ربیع الآخر ١٤٤٣ھ بروز پیر رحلت فرما گئیں- انا للہ وانا الیہ رٰجعون… تدفین ١٦ نومبر کو خانقاہِ امینِ شریعت میں عمل میں آئے گی-
تحریر: محمد اشرف رضا قادری
مدیر اعلی سہ ماہی امین شریعت
بریلی شریف
پیرانی امی مخدومہ محترمہ، فقیہ اعظم مہاراشٹر مفتی عبد الرشید فتح پوری علیہ الرحمہ (بانی: جامعہ عربیہ ناگ پور) کی نیک طینت شہزادی تھیں، علمِ دین کا حصول اپنے والد گرامی سے کیا، فرائض و واجبات اور صوم و صلوٰۃ ان کے وقتوں پر ادا کرتیں- حتّٰی کہ تہجد اور دیگر نوافل (چاشت، اشراق وغیرہ) کی بہت پابند تھیں- اس ضمن میں کسی بھی طرح کی لاپرواہی کا کوئی تصور نہیں تھا-
مخدومہ محترمہ کی ولادت یکم جنوری ١٩٤٠ء کو آپ کے ننہال جہاں گیر آباد بھوپال میں ہوئی۔ فنِ تجوید کی تمام کتابیں مع مشق پڑھیں، علی گڑھ جامعہ اردو سے ادیب کامل کے امتحان میں بھی امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوئیں، گھر کے روحانی ماحول نے ذات و مزاج کو نکھار دیا-
شعر و ادب کا نکھرا ذوق رکھتی تھیں- شعر گوئی سے بھی دل چسپی تھی، یہی سبب ہے کہ جب آپ کے شہزادۂ اکبر علامہ سلمان رضا خان صاحب قبلہ کی دستار بندی کا مبارک لمحہ آیا تو موقع کی مناسبت سے کچھ اشعار قلم بند فرمائیں جن کی اشاعت بھی ہوئی۔ علاوہ ازیں ١٣ نومبر ١۹۹٣ء میں جب حضور امین شریعت کے ہمراہ حج بیت اللہ کے لئے تشریف لے گئیں اور وہاں سے بغداد مقدس کا مبارک سفر بھی فرمائیں…. تو سفر کے حالات کو بڑے عمدہ پیرائے میں منظوم قلم بند کیں، اس منظوم رودادِ سفر کو عنقریب سہ ماہی امین شریعت میں اشاعت کی منزل سے گزارا جائے گا-
حضور مفتی اعظم کا خاص فیض حاصل رہا- حضور امینِ شریعت کا نکاح حضور مفتی اعظم ہند کی عنایت و انتخاب سے ہوا، ١٨ شعبان المعظم ١٣٧٦ھ ٢٨ مارچ ١٩٧٥ء بروز چہار شنبہ بعد نمازِ عصر بڑی مسجد آم والی محلہ جہانگیر آباد بھوپال میں عقدِ نکاح کی رسم ادا کی گئی۔ حضور مفتی اعظم ہند؛ حضور امینِ شریعت کی نکاح میں خود تشریف لائے، اس موقع پر مفتئ مالوہ مفتی رضوان الرحمٰن صاحب نے نکاح پڑھایا۔ بعد نکاح اسٹیشن پر کافی دیر تک حضور مفتی اعظم ہند ورد فرماتے رہے، اس کے بعد پیرانی امی کو دَم فرمایا۔ اور وہاں سے بریلی شریف کے لئے رخصت فرمایا۔
مخدومہ محترمہ ہمیشہ ایک شعر پڑھا کرتیں اور جو بھی خاتون ملاقات کو آتی تو ناصحانہ و مصلحانہ انداز میں کہتیں:
لگانا ہے دل تو لگاؤ خدا سے
زمانہ نہیں دل لگانے کے قابل
یہ شعر ان کی شخصیت کا عکاس ثابت ہوا- بارگاہِ الٰہی عزوجل میں ان کی دعا قبول و مقبول ہوئی کہ مخدومہ محترمہ دنیا اور مادی ذرائع سے مکمل طور پر دور ہو گئیں؛ یعنی دنیا سے بے خبری کی کیفیت غالب آئی؛ لیکن دینی امور کو کبھی نہیں بھولتیں، خواتین اور بچیوں کو نمازوں کی پابندی اور پردہ کی تلقین ہمہ وقت کیا کرتی تھیں، اور از خود نمازوں کو ان کے وقتوں پر پابندی کے ساتھ ادا کرتیں۔ لیکن دنیوی امور کے متعلق اہلِ خانہ دریافت فرماتے تو بے خبر رہتیں-
غریب پروری، مہمانوں کی خاطر داری سنت رسول اللہ کی روشنی میں خوب اور توجہ سے کرتیں۔ فقیر تقریباً دس گیارہ سال حضور امینِ شریعت کی خدمت اقدس میں رہا۔ پیرانی امی مخدومہ محترمہ کی نوازشات مجھ پر بھی کافی رہیں۔ خواتین جو مراد لے کر ان کے پاس آتیں بامراد ہوکر واپس لوٹتیں-
ان کے والد گرامی فقیہ اعظم مہاراشٹر علامہ مفتی عبدالرشید فتح پوری علیہ الرحمہ بہت بڑے عالم دین اور وقت کے ولی تھے۔ تربیت و نسبت کا اثر مخدومہ محترمہ میں صاف جھلکتا تھا-
نماز سے محبت و لگاؤ کا یہ عالم تھا کہ نسیان کی وجہ سے کئی مرتبہ وضو فرماتیں اور نماز بھی کئی کئی مرتبہ ادا کرتیں اور زبان کا حال بھی اللہ اللہ۔۔۔۔۔۔ذکر و درود شریف سے زبان تر رہا کرتیں۔ ایسی مقدس و نیک طینت اور عظیم نسبتوں کی حامل خاتون مخدومہ محترمہ کی رحلت یقیناً باعث حزن و ملال ہے- اللہ تعالیٰ آپ کی تقویٰ شعار زندگی کو درجات کی بلندی کا باعث بنائے اور جملہ افراد خانوادہ کو صبر جمیل سے نوازے آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم