تعلیم مضامین و مقالات

اہل یورپ نے ہم سے علم وفن سیکھا

تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ

(1)مسٹر جون ڈیون پورٹ (John Davenport)(1789-1877)نے لکھاکہ دسویں صدی عیسوی تک یورپ جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہواتھا،پھر اندلس کے ذریعہ علم کی روشنی اہل یورپ تک پہنچی۔(An apology for Mohammed and the kuran)

(2)ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے لکھا:’’قرون وسطیٰ کے یورپ میںنہ کوئی درس گاہ تھی،نہ معلم ،نہ مصنف ۔ جب مسلمان اسپین ، فرانس اورسسلی میںپہنچے توانہوں نے نہ صرف اسکول اور کالج کھولے،بلکہ یونیورسٹیاں قائم کیں،جن میں دنیا کے ہرحصے سے طلبہ حصول علم کے لیے آتے تھے۔ساتھ ہی دارالکتب قائم کیے،جن میں یونان،ایران،روم ،ہنداو ر عرب کی لاکھوں کتابیں جمع کیں۔

نسل انسان پہ اس سے بڑا ستم اورکیاہوسکتا ہے کہ جاہل اور وحشی عیسائی بادشاہوں اورپادریوں نے اس زمانے میں کہ اہل علم وقلم کا شدیدقحط تھا،ساٹھ لاکھ سے زیادہ کتابیں جلاڈالیں۔سات لاکھ اسکندریہ میں، پندرہ لاکھ اسپین میں،تیس لاکھ طرابلس میں،تین لاکھ سسلی میں،اورکئی لاکھ قسطنطنیہ ، ایشیائے خورد ،فلسطین ، دمشق اور یورپ کے مختلف حصوں میں۔
اگرکوئی کسرباقی رہ گئی تھی تووہ تیرہویں صدی میںتاتاریوں نے پوری کردی۔انہوں نے بغداد، کوفہ، بصرہ ،حلب،دمشق نیشاپور ، خراسان ،خوارزم اور شیرازکی سینکڑوں لائبریریاں جن میں کتب کی مجموعی تعداد تین کروڑ سے زیادہ تھی،بھسم کر ڈالیں۔

بے شمارعلما مار ڈالے۔مدارس جلادیئے،اورمسلمان جوساری دنیا کوتجلی علم سے منور کر رہاتھا،جاہل ہوکر رہ گیا۔یہ ساٹھ لاکھ کتابیں تووہ ہیں،جن کا ذکر تاریخ میں آگیا۔نہ جانے،ان تباہ شدہ کتابوں کی تعدادکیاہوگی جومؤرخ کے علم میں نہیںآئیں۔یورپ میں طاقت دوگروہوں کے پاس تھی ، بادشاہ اورپادری،اوریہ دونوں علم کے دشمن تھے‘‘۔

(یورپ پراسلام کے احسانات ص97-98)

بھارت میں مذہبی وعصری علوم میں تفریق کابانی کون ؟

سال 1834 میں مسٹر میکالے گورنر جنرل کی کونسل کانیا قانون سازممبربن کر برطانیہ سے انڈیا آیا۔وہ انڈیا میں تعلیمی کونسل کا صدر مقرر ہوا۔اس نے اسکولوں میں انگریزی تعلیم کی حمایت کی۔درحقیقت اہل ہندکوانگریزوں کافکری غلام بنانے کی یہ ایک تحریک تھی ۔

مسٹر میکالے نے انڈیا سے واپسی پربرطانیہ میں اپنے بیان میں کہا۔

’’معززاراکین پارلیمان!میں نے ہندوستان کے طول وعرض میں باربار سفر کیا ہے۔دنوں اور راتوں میں گھوما اورپھرا ہوں۔میری آنکھیں آج تک ایسے شخص کودیکھنے کے لیے ترستی ہیں جویہاں بھکاری ہو،یا جولٹیرا ہو۔ اس ملک میں ایسی دولت دیکھی ہے،ایسی بلنداخلاقی کی قدریں دیکھی ہیں،اوراتنی بڑی ہستیوں سے ملاہوں کہ مجھے پختہ یقین ہوگیاہے کہ ہم کبھی اس ملک کو فتح نہیں کرسکیں گے،جب تک کہ اس قوم کی ریڑھ کی ہڈی نہ توڑدیں۔

اس قوم کی ریڑھ کی ہڈی کیاہے؟ان کاروحانی اورتہذیبی ورثہ۔یہی وجہ ہے کہ میں بآوازبلند تجویز پیش کرتا ہوں کہ ہم ان کا نظام تعلیم اوران کی ثقافت کوبدل کررکھ دیں گے۔دیکھنے میں خواہ یہ لوگ گندمی یاسانولی رنگت رکھتے ہوں،لیکن ان کے سینوں میں سفیدفام انگریزکا دل دھڑکتا ہو ۔اگرہم انہیں یہ یقین دلا سکیں کہ ہروہ چیزجوغیرملکی اور ہروہ چیزجوانگریزی ہے،وہ ان کی چیزوں سے بہتر ہے توہندوستانی بہت جلداپنی نظروں میں گرجائیں گے،اوراپنے قدیم کلچر کوچھوڑدیں گے۔

میں آپ کویقین دلاتا ہوں کہ اس طرح جلدایسا وقت آجائے گا ، اور وہ ایسے بن جائیں گے ،جیسے ہم چاہتے ہیں۔وہ ’’براؤن صاحب‘‘کہلانے میں فخر محسوس کریں گے،اوراس طرح وہ صحیح معنوں میں ہماری مفتوحہ اور باج گزار قوم بن کر زندگی کے دن پورے کرنے لگیں گے‘‘۔

(تختہ دار کے سائے تلے: ص261-262-ازجاوید ہاشمی: لیڈر مسلم لیگ پاکستان)

مسٹرمیکالے کی سفارش پربھارت میں سیکولر اسکولوں کی بنیادڈالی گئی۔نصاب تعلیم سے دینی مضامین کو خارج کردیاگیا۔ ابتدائی عہد میں قوم مسلم انگریزی حکومت کی جانب سے قائم ہونے والے ماڈرن اسکولوں (Modern Schools)کی جانب متوجہ نہ ہوئی ، پھر جب صرف جدید تعلیم یافتگان کوحکومتی عہدہ جات و مناصب تفویض ہونے لگے توعوام وخواص رفتہ رفتہ اسلامی تعلیم گاہوں کوترک کرکے جدید اسکولوں کی طرف دوڑپڑے،اور اسلامی تعلیمات سے ناآشنا ہوتے گئے،اوراسکولوں کا یہی سسٹم آج تک رائج ونافذ ہے ۔اب مسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ ایسی تعلیم گاہیں قائم کریں کہ نسل جدید مذہبی وعصری ہردونوع کی تعلیم سے آراستہ ہو کر دنیا وآخرت کی نعمتوں سے سرفراز ہو سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے