مذہبی مضامین نبی کریمﷺ

حدیث "کل بدعۃ ضلالۃ” کا صحیح مفہوم جاننے کے لیے اس مضمون کا ضرور مطالعہ کریں!

میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ثبوت اورحدیث ” کل بدعۃ ضلالۃ "کا تحقیقی تجزیہ

تحریر: محمد اسلم نبیل ازہری ، پیلی بھیت

ماہ ربیع النور کی جلوہ گری ہے ، سید ابرار واخیار، نور دیدۂ آمنہ، جگر گوشۂ حضرت عبد اللہ، پیارے مصطفی علیہ التحیۃ والثنا کی آمد آمد ہے۔ہر طرف خوشی کی لہر دوڑ رہی ہے،محسن ِانسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے جشن منائے جارہے ہیں۔میلاد کی محفلیں سجائی جارہی ہیں۔سیرت طیبہ کے جلسے ہورہے ہیں۔ ان سب کاموں کےپیچھے عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا جذبہ کارفرما ہے۔کیوں نہ ہوکہ سرور کائناتﷺکا میلاد منانا،آپ کی آمدپرخوشی کا اظہار کرنا، آپ سے محبت،قلبی لگاؤ، آپ کی تعظیم وتوقیر کا واضح ثبوت ہے۔ بے شمار خیر وبرکت کا ذریعہ ہے۔ یوں تو خاص میلادکے جواز واستحباب پرقرآن و حدیث میں متعدددلیلیں موجود ہیں ۔اگر بالفرض میلادمنانےپر کوئی دلیل نہ بھی ہوتی تب بھی یہ عمل خیر، ارشاد خداوندی” وافعلوا الخیر لعلکم تفلحون” کے عموم میں داخل ہوتا۔کیوں کہ آیت مبارکہ میں موجود کلمۂ ”خیر” کا مفہوم بہت کشادہ ہے،جس میں ہر بھلائی کی گنجائش ہے۔

میلادکےثبوت پرکثرت سے دلائل ہونے کے با وجود ،کچھ "سخت گیرطبیعت”کےحامل افراد، میلاد نبوی کو ناجائز وبدعت کہتے نہیں تھکتے۔اور اس پر حدیث ” کل بدعة ضلالة ” کو چسپاں کرکے میلاد منانے والوں کو بدعتی ٹھہراتے ہیں ۔جبکہ علمائے اسلام نے اپنی تصنیفات میں بار ہا یہ ذکر کیا ہے، کہ میلادکی اصل سنت ہے۔قرآن پاک میں آپ کی آمد پر خوشی منانے کا حکم ہے۔آپ نےاعلان نبوت کےبعداپنا عقیقہ دوبارہ کرکے،یوں ہی دوشنبہ کو روزہ رکھ کراپنا میلاد منایا۔ہاں میلاد کی موجودہ صورت حال جیسےجشن منانا ،چراغاں کرنا ،جھنڈے لہراناوغیرہ،قرون اولی میں نہیں تھی ،بعد میں پیدا ہوئی ۔اور ایسا کام جو رسول اللہ ﷺ کے زمانۂ اقدس میں نہ ہو،بعد میں پیدا ہواس کو بدعت کہتے ہیں۔اس لیےمیلاد کی موجودہ صورت حال بدعت ہوئی ۔لیکن یہ بدعت حسنہ(اچھی) ہے۔اگرخلوص نیت اور شرعی حدودمیں رہ کراس کو کیا جائے تو کرنے والا اجروثواب کا مستحق ہوگا ۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر بدعت بری نہیں ہوتی۔کچھ بدعتیں اچھی ہوتی ہیں۔ کیوں کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں ؛بدعت حسنہ،اوربدعت سیئہ۔بدعت حسنہ سےمرادہروہ نیا کام ہے،جو اصول شریعت کے مطابق ہو۔جبکہ بدعت سیئہ اصول شریعت کےمخالف ہوتی ہے۔لیکن وہابیہ کہتے ہیں "کہ ہر بدعت، سیئہ(بری)اور گمراہی ہے۔بدعت حسنہ کوئی چیز نہیں۔جبکہ قرآن وحدیث سےبدعت حسنہ اوربدعت سیئہ کی تقسیم ثابت ہے۔جس کو ہم نے دوسرے مضمون میں قدرےتفصیل سے لکھا ہے۔

بدعت کی اقسام پنج گانہ۔
جب تمام بدعتیں بدعت سیئہ میں منحصر نہیں ہیں ،بلکہ کچھ بدعتیں حسنہ ہیں اس لیے علما ئے اہل سنت نے بدعت کو پانچ قسموں میں تقسیم کیا ہے۔سلطان العلما عز الدین بن عبد السلام(سال وفات: ۶۶۰ہجری)،امام ابو زکریایحی بن شرف نووی(سال وفات: ۶۷۶ہجری)امام شہاب الدین احمد بن ادریس قَرافی(سال وفات: ۶۸۴ہجری)، جیسے اساطین علم وفضل نے بدعت کی تقسیمِ خُماسی فرمائی۔ذیل میں امام نووی علیہ الرحمۃ کا حوالہ ملاحظہ کیجیے،امام نووی "المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج”میں لکھتے ہیں:
قال أهل اللغة : هي كل شيء عمل على غير مثال سابق . قال العلماء : البدعة خمسة أقسام : واجبة ، ومندوبة ومحرمة ، ومكروهة ، ومباحة . فمن الواجبة : نظم أدلة المتكلمين للرد على الملاحدة والمبتدعين وشبه ذلك . ومن المندوبة : تصنيف كتب العلم ، وبناء المدارس والربط وغير ذلك . ومن المباح : التبسط في ألوان الأطعمة وغير ذلك . والحرام والمكروه ظاهران . وقد أوضحت المسألة بأدلتها المبسوطة في تهذيب الأسماء واللغات۔
(ترجمہ)میں نے اس مسئلے کو اپنی کتاب "تہذیب الاسماء واللغات” میں دلائل کی روشنی میں تفصیل سے بیان ہےکہ علمائے لغت کے نزدیک بدعت ہر اس کام کو کہتے ہیں جو بغیر کسی سابق نمونے کےعمل میں آئے۔البتہ علما ئے شرع نے بدعت کی پانچ قسمیں کی ہیں؛ واجب،مستحب،حرام، مکروہ، مباح۔بدعت واجبہ جیسے بے دینوں اور بدمذہبوں کا رد کرنے کے لیے علمائے عقائد کا دلائل ترتیب دینا۔بدعت مستحبہ جیسے کتابیں تصنیف کرنا، مدرسے، سرائےوغیرہ تعمیر کرنا۔بدعت مباح جیسے کھانے پینے کی چیزوں میں تکلف سے کام لینا۔بدعت حرام اوربدعت مکروہہ واضح ہیں ۔

(شرح صحیح مسلم از امام نووی ج6/ص154/مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت)

امام نووی کی مذکورہ عبارت سے معلوم ہوا کہ ہر بدعت بری نہیں ہے۔بدعت دو قسم کی ہوتی ہے ؛بدعت حسنہ ، بدعت سیئہ ، اوپر کی تین قسمیں بدعت حسنہ ہیں، اور باقی دو قسمیں بدعت سیئہ ہیں۔ لیکن آج وہابیہ ہر بدعت کو بدعت سیئہ کہتے ہیں،اوربات بات پر تمام احادیث کوپس پشت ڈال کر صرف حدیث "کل بدعة ضلالة” کی رٹ لگاتےہیں۔

اس سے انکار نہیں کہ "کل بدعة ضلالة”متفق علیہ ،صحیح حدیث ہے۔امام احمد،امام بخاری، امام مسلم ، امام ابن ماجہ ، امام ابن خزیمہ نےاس کی تخریج کی ہے ۔لیکن یہ حدیث اپنے عموم پر نہیں ہے ۔بلکہ یہ ”عام مخصوص منہ البعض”کے قبیل سے ہے۔یعنی باعتبار لفظ عام ہے، لیکن اس سے بعض افراد کو خاص کر لیا گیا ہے۔امام نووی علیہ الرحمۃ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں: هذا عام مخصوص، والمراد غالب البدع.

(ترجمہ)یہ حدیث عام مخصوص ہے، اس سے(تمام بدعتیں نہیں بلکہ) اکثر بدعتیں مراد ہیں۔

یہی امام نووی بدعت کی اقسام سے فارغ ہونےکے بعد فرماتے ہیں: فإذا عرف ما ذكرته علم أن الحديث من العام المخصوص وكذا ما أشبهه من الأحاديث الواردة. ويؤيد ما قلناه قول عمر بن الخطاب رضي الله عنه في التراويح "نعمت البدعة”۔ ولا يمنع من كون الحديث عاما، مخصوصا قوله” كل بدعة”مؤكدا بكل، بل يدخله التخصيص مع ذلك، كقوله تعالى تدمر كل شيء.
(ترجمہ)میری بیان کردہ تقسیم کو سمجھنے کے بعد یہ معلوم ہوگیا ہوگا کہ "کل بدعۃ ضلالۃ”اور اس کےہم معنی احادیث عام مخصوص کے قبیل سے ہیں۔اور ہمارے قول کی تائید تراویح کے سلسلے میں سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ارشاد مبارک "نعمت البدعة”سے بھی ہوتی ہے۔نیزآپ صلی اللہ علیہ وسلم کےقول "کل بدعة”کا لفظ کل سے مؤکد ہونا اس حدیث کے عام مخصوص ہونے سے مانع نہیں۔تاکید کے باوجود اس کی تخصیص ہوگی، جیسے اللہ جل شانہ کے قول "تدمرکل شئ”میں ہوئی ہے۔

(مرجع سابق)

لہٰذا جب اس حدیث کا ظاہری معنی بہت سی نصوص سے متصادم تھاتو اس تصادم کا ازالہ کرنے کے لیےکبار ائمۂ محدثین نےمتعدداعتبار سے اس حدیث کی تخصیص کی ۔ذیل میں تخصیص کی چند صورتیں ذکر کی جاتی ہیں ۔

تخصیص کی پہلی صورت:۔
وہ تمام احادیث جن میں بدعت کو حسنہ ،اور سیئہ کی طرف تقسیم کیا گیا ہے ان سے بھی اس حدیث کی تخصیص ہوتی ہے۔ان میں سے تین حدیثیں نیچے مذکور ہیں :
(۱)امام مسلم نے اپنی صحیح میں ، امام نسائی و امام ابن ماجہ نے اپنی اپنی سنن میں،امام احمد نے مسند میں صحابیِ رسول، حضرت جریر بن عبد اللہ بَجلی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اکرمﷺنے ارشاد فرمایا:

” من سنّ فى الإسلام سنة حسنة، فعمل بها بعده كتب له مثل أجر من عمل بها، ولا ينقص من أجورهم شىء، ومن سنّ فى الإسلام سنة سيئة، فعمل بها بعده كتب عليه مثل وزر من عمل بها، ولا ينقص من أوزارهم شى” .
(ترجمہ)اگر کسی نے اسلام میں کوئی اچھا کام ایجاد کیا، اس کے بعد لوگوں نے اس پر عمل کیا، تو ایجاد کرنے والے کو عمل کرنے والوں کے برابر ثواب ملے گا۔جبکہ عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔اسی طرح جس کسی نے اسلام میں کوئی براکام ایجاد کیا، اس کے بعد لوگوں نے اس پر عمل کیا، تو ایجاد کرنے والے کو عمل کرنے والوں کے برابر گناہ ملے گا۔جبکہ عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔

(صحیح مسلم، کتاب "العلم”باب "من سن سنۃ حسنۃ او سیئۃ، ومن دعا الی ھدی او ضلالۃ”حدیث نمبر6695)۔

مذکورہ حدیث میں "سنۃ”کا لغوی معنی مراد ہے۔لغت میں "سنۃ”طریقے کو کہتے ہیں۔خواہ یہ طریقہ اچھا ہو یا برا۔”سنۃ”کا شرعی معنی مراد نہیں ہے۔کیوں کہ شرعی اعتبار سے سنت حسنۃ ہی ہوتی ہے۔کیوں کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بری ہے۔دوسرے یہ کہ سنّ یسنّ کا معنی ہے :کسی چیز کا آغاز کرنا، ایجاد کرنا، جیسا کہ عربی کی معاجم سے ظاہر ہے۔لہٰذا وہابی علما کا یہ کہنا کہ "سنّ”کا معنی احیاء (زندہ کرنا)ہے، یہ خود ساختہ معنی ہے۔ورنہ وہابی علما صحیحین کی اس حدیث کا کیا جواب دیں گے؛جس میں "سن” کا معنی سب کے نزدیک آغاز کرنا ہے:

عن عبد الله ، رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا تقتل نفس ظلما إلا كان على ابن آدم الأول كفل من دمها لأنه أول من سن القتل.
(ترجمہ)حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب کبھی کسی انسان کو ناحق قتل کیاجاتاہے توآدم(علیہ السلام)کے پہلے بیٹے پر اس کے خون کا ایک حصہ ہوتا ہے، کیوں کہ اس نے ہی سب سے پہلے قتل کی شروعات کی تھی۔

(صحیح البخاری، کتاب "احادیث الانبیاء "، باب”خلق آدم صلوات اللہ علیہ وذریتہ "، حدیث نمبر:۳۳۳۵)
(صحیح مسلم ، کتاب "القسامۃ "، باب "بیان اثم من سن القتل "، حدیث نمبر:۴۴۷۳)۔

(۲) امام ابو عبد اللہ محمد بن یزیدبن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ(سال وفات: ۲۷۳ہجری) نے اپنی سنن کےمقدمے میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :من استن خيرا فاستن به ، كان له أجره كاملا ، ومن أجور من استن به ، ولا ينقص من أجورهم شيئا ، ومن استن سنة سيئة فاستن به ، فعليه وزره كاملا ، ومن أوزار الذي استن به ، ولا ينقص من أوزارهم شيئا.
(ترجمہ) جس نے اچھا طریقہ جاری کیا، پھر اس پر عمل کیا گیا، تو اسے اس کا پورا ثواب ملےگا، اور ان لوگوں کے برابر ثواب بھی جنھوں نے اس کی پیروی کی، اور ان کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی، اور جس نے برا طریقہ شروع کیا ، پھر اس پرعمل کیا گیا، تو اس پر اس کا پورا گناہ ہوگا، اور ان لوگوں کی مانند گناہ بھی ہوگا جنھوں نے اس کی پیروی کی ،البتہ ان کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔

(مقدمۂسنن ابن ماجہ ، باب ” من سن سنۃ حسنۃ او سیئۃ”حدیث نمبر ۲۰۴)

(۳)امام ترمذی کی سنن میں حضرت جریر بن عبد اللہ بَجلی رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: من سن سنة خير، فاتبع عليها، فله أجره، ومثل أجور من اتبعه غير منقوص من أجورهم شيئا، ومن سن سنة شر، فاتبع عليها، كان عليه وزره ومثل أوزار من اتبعه غير منقوص من أوزارهم شيئا۔
(ترجمہ)جس نے کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا ،پھر اس میں اس کی پیروی کی گئی، تو اس کو اپنےعمل کا ثواب ملےگااور پیروی کرنے والوں کی مانند ثواب ملےگا، جبکہ ان کے ثوابوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی،اور جس نے کوئی برا طریقہ ایجاد کیا اور اس میں اس کی اتباع کی گئی تو اس پراپنےعمل کا گناہ ہوگااور اتباع کرنے والوں کی مانند گناہ ہوگا، ان کے گناہوں میں کمی کئے بغیر۔

(سنن ترمذی، کتاب "العلم”، باب” ما جاء فیمن دعا الی ھدی فاتبع او الی ضلالۃ”، حدیث نمبر۲۶۷۵)

تخصیص کی دوسری صورت:۔
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث جس کو امام بخاری ومسلم نے اپنی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔اس سے بھی مذکورہ حدیث کی تخصیص ہوتی ہے؛حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ : قال رسول الله صلي الله عليه وسلم:من أحدث في أمرنا هذا ما لیس منه فهورد (ترجمہ)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کسی نے دین میں کوئی ایسی چیز پیدا کی،جودین سے نہ ہو،تووہ مردود ہے۔

(صحیح البخاری ” کتاب "الصلح "،باب "اذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود "،حدیث نمبر ۲۶۹۷)
(صحیح مسلم ” کتاب "الاقضیۃ "،باب "نقض الاحکام الباطلہ ورد المحدثات "،حدیث نمبر ۱۷۱۸)

اس حدیث سےبدعت کی تقسیم بھی ثابت ہوتی ہے ۔کیوں کہ یہ حدیث واضح طور پر بتا رہی ہےکہ دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کرنا جو دین سےنہ ہو وہ ناقابل قبول ہے۔جس کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ نوپید چیز اگر دین سے ہو تو وہ قابل قبول ہے۔معلوم ہوا کہ نوپید چیز دو طرح کی ہے ؛ایک وہ جو دین سے ہو، دوسری وہ جو دین سے نہ ہو ۔اول الذکر مردود ہے ۔اور آخر الذکر مقبول ہے ۔دین سےہونے،نہ ہونے کا مطلب یہ ہے، کہ اگروہ کام اصول شریعت کے مطابق ہو،تووہ دین میں سےہے۔ اوراگراصول شریعت کےمخالف ہوتو دین میں سےنہیں۔لہذادین میں کسی ایسے کام کاآغاز کرنا جوشریعت کےاصول سےمتصادم نہ ہو،اس حدیث کی روسےوہ جائزہے۔ہاں اگر وہ کام شریعت کےاصول کے معارض ہو،تووہ ناجائزہے۔بدعت حسنہ چوں کہ قرآن وحدیث کےعام اصول کےمطابق ہوتی ہے، اس لیے وہ گمراہی نہیں ہے۔گمراہی توبدعت سیئہ ہے،جو دینی اصول کے مخالف ہوتی ہے۔

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکوہ حدیث، حدیث "کل بدعۃ ضلالۃ” کی مضبوط مخصص ہے۔اور اس کو صرف بدعت سیئہ میں محصور کرنے کی قوی دلیل ہے۔کیوں کہ اگر ہر بدعت گمراہی ہوتی تو حضورسید عالمﷺیہ نہ فرماتے: "من أحدث في أمرنا هذا ما لیس منه فهو رد”۔ جس کسی نے دین میں کوئی ایسی چیز پیدا کی،جودین سے نہ ہو،تووہ مردود ہے۔ بلکہ حضورﷺیہ فرماتے: من أحدث في أمرنا هذا "شيئا "فهو رد ۔ جس نے دین میں کوئی بھی نئی بات پیدا کی وہ مردود ہے۔

تخصیص کی تیسری صورت:۔
حدیث میں وارد لفظ "کل”جو”عموم” کےلیےآتا ہے ۔اردو میں اس کا معنی ”ہر”،” سب”، تمام” وغیرہ ہے۔اور یہ جس کلمے پر داخل ہوتا ہے، اس کے افراد کا احاطہ کرنے اور گھیرنے کے لیے آتا ہے۔علم "منطق” کی اصطلاح میں اس کو "موجبہ کلیہ” کا” سور” کہاجاتا ہے ۔یہ لفظ بہت سی آیات واحادیث میں وارد ہواہے۔ایک شمار کے مطابق لفظ "کل” قرآن پاک میں تین سو ستّاون(۳۵۷)بار آیا ہے۔علمائے اصول اس کو عموم کا سب سے قوی لفظ مانتے ہیں۔

بایں ہمہ لفظ "کل” ہمیشہ عموم کے لیے نہیں آتا ہے ۔بلکہ کوئی قرینہ یا دلیل پائے جانے کے وقت اس کی تخصیص ہوجاتی ہے۔اسی لیےقرآن مجید کی بہت سی آیات اور احادیث میں اس کی تخصیص ہوئی ہے۔بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بجا ہوگا کہ لفظ ہی کیا جتنے بھی الفاظ عموم ہیں ان میں سے اکثر کی تخصیص ہوئی ہے۔اور بعض علما نے تو یہاں تک کہہ دیا ” ما من عام الا وقد خص "ایسا کوئی عام نہیں جس کی تخصیص نہ ہوئی ہو۔اسی تناظر میں یہ کہا گیا کہ قرآن پاک کے چند عاموں کے علاوہ ہر عام کی تخصیص ثابت ہے۔حتی کہ علما کی ایک جماعت نے”کل شیء ھالك الا وجهه "،اور "کل نفس ذائقة الموت "کوبھی عام مخصوص قرار دیا ہے، اور ان سے چند چیزوں کو مستثنی کیا ہے ، جن میں کچھ یہ ہیں:روح، عَجب الذنَب، انبیا علیہم السلام اور شہداکے اجسام ، عرش، کرسی، جنت، دوزخ، حوریں وغیرہ۔امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ(سال وفات:۹۰۱۱ہجری)نے ان میں سے آٹھ کو اپنے اس شعر میں ذکر کیا ہے: ثمانية حكم البقاء يعمها…… من الخلق والباقون في حيز العدم.(ترجمہ)مخلوق میں سےآٹھ چیزوں کو حکم بقا شامل ہے، باقی ساری کائنات کو فنا ہونا ہے۔

(شرح جوھرۃ التوحید للامام الباجوری، ص: ۲۶۸/ط: دار السلام، قاہرہ، مصر)

مذکورہ سطور سے یہ واضح ہوگیا کہ قرآن وحدیث میں بے شمار مقامات پرعام بول کر خاص مراد لیا گیا ہے۔ایسا کیوں نہ ہو جبکہ قرآن وحدیث عربی زبان میں ہیں اور عام سے خاص کا ارادہ کرنا عربی زبان میں مشہور ومقبول ہے، چناں چہ امام ابو عبد اللہ محمد بن احمدقرطبی رحمۃ اللہ علیہ(سال وفات:۶۷۱ہجری)اپنی تفسیر”الجامع لاحکام القرآن”میں سورۂ روم کی آیت”فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیھا ” کی تفسیر میں تحریرفرماتے ہیں : والعموم بمعني الخصوص کثیر في لغة العرب۔ عام بول کر خاص مراد لینا عربی زبان میں شائع ذائع ہے۔اب آئیے ہم "مشتے نمونہ از خروارے "کے طور پر ذیل میں قرآن پاک سے چند آیات پیش کر رہے ہیں؛ جن میں عام سے خاص مراد ہے۔

پہلی مثال :۔
سورۂ نمل ،آیت نمبرتیئیس(۲۳)میں ہدہد کی زبانی ملکۂ ” سبَا”،” بلقیس” کا حال بیان فرمایا ،ہدہد کہتا ہے : إِنِّي وَجَدتُّ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ۔ (ترجمہ)میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ ان پر حکومت کرتی ہے ،اور اس کو ہر چیز دی گئی ہے، اور اس کا (بہت)بڑا تخت ہے۔
اس آیت کریمہ میں بھی لفظ ”کل” آیاہے۔جوالفاظ عموم سےہے۔ لہٰذا اس کے اعتبار سے آیت کا مطلب یہ ہونا چاہیئے ،کہ بلقیس کےپاس ہر چیز تھی ۔حالاں کہ یہ بالکل بدیہی ہے، کہ بلقیس کو دنیا کی ہر چیز نہیں دی گئی تھی ۔جیسے حضرت سلیمان علی نبینا وعلیہ السلام کا تخت اس کونہیں دیا گیا تھا۔ معلوم ہوا کہ اس آیت مبارکہ میں لفظ کل سےمجازا بعض مراد ہے۔لہٰذا اس آیت میں عام بول کر خاص مراد ہے۔

امام ابو البرکات نسفی رحمۃ اللہ علیہ(سن وفات:۷۰۱ہجری) تفسیر "مدارک التنزیل "میں اللہ تعالی کے قول:”من کل شیء ” کے تحت فرماتے ہیں: من اسباب الدنیا ما یلیق بحالھا۔اسباب دنیا میں سے اسے وہ تمام چیزیں دے دی گئیں جو اس کےحال کے لائق تھیں۔امام جلال الدین محلی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات:۸۶۴ہجری)تفسیر جلالین میں لکھتے ہیں: ما یحتاج إليه الملوك من الآلة والعُدة۔ وہ اسباب وآلات دے دیےگیے؛بادشاہوں کو جن کی ضرورت پیش آتی ہے۔

دوسری مثال:۔
سورۂ احقاف،آیت نمبرپچیس(۲۵)میں اللہ تعالٰی نےقوم عاد پران کی بے اعتدالیوں کی پاداش میں ہوا کی شکل میں بھیجے گئے عذاب کا کچھ اس طرح ذکر کیا ہے : تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍ بِأَمْرِ رَبِّهَا فَأَصْبَحُوا لا يُرَى إِلاَّ مَسَاكِنُهُمْ كَذَلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ۔

(ترجمہ)وہ ہوا اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو تباہ وبرباد کر رہی تھی،تو جب صبح ہوئی تو صرف ان کے گھر دکھائی دے رہے تھے،اسی طرح ہم مجرم قوم کو بدلہ دیتے ہیں ۔
اس آیت مقدسہ میں بھی کلمۂ”کل ” توجہ طلب ہے۔جوعموم پردلالت کرتاہے۔معنی اصلی کے لحاظ سے آیت کا ترجمہ یہ ہونا چاہیئے، کہ قوم عاد پر اللہ رب العزت کی بھیجی ہوئی ہوا نے ہر چیز کو تباہ کر دیا ۔جبکہ آیت کا اگلا حصہ یہ بتا رہا ہے ،کہ جب صبح نمودار ہوئی تو قوم عاد تو ہلاک ہوچکی تھی، البتہ ان کے گھر جو انہوں نےپہاڑوں میں تراش کر بنائے تھے ہنوز موجود تھے۔معلوم ہوا کہ یہاں بھی "کل” کا حقیقی معنی عموم مراد نہیں ہے، ورنہ ان کے گھر باقی نہیں بچتےکیوں کہ” کل شییء” میں وہ بھی داخل تھے۔ اس تخصیص کی تائید درج ذیل مفسرین کی عبارتوں سے بھی ہوتی ہے:

(۱)امام نسفی”تدمر کل شیء” کی تفسیر میں لکھتے ہیں: تهلك من نفوس عاد وأموالهم الجم الكثير، فعبر عن الكثرة بالكلية.(ترجمہ)اس ہوا نےقوم عادکا بہت بڑا جانی مالی نقصان کیا ، اس آیت میں کل بول کر کثیر مراد ہے ۔

(۲)امام جلال الدین محلی لکھتے ہیں : تهلك كل شئ مرت عليه. (ترجمہ)اس ہوا نے ہر اس چیز کو ہلاک کردیا جس کےاوپرہوکر وہ گذری۔

تیسری مثال :۔
سورۂ انعام آیت نمبرچوالیس(۴۴) میں اللہ جل جلالہ نے سابقہ اقوام کے بارے میں فرمایا : فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُكِّرُواْ بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ ۔ (ترجمہ)تو جب انھوں نے وہ نصیحتیں بھلادیں ؛جو انہیں کی گیں تھیں تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیے۔
اس آیت کریمہ میں بھی” کل شئ” سے مراد ہر چیز نہیں ہے۔اس سے صرف صحت وسلامتی، وسعت رزق وعیش وغیرہ مراد ہے۔یا "شئ” کے بعد "صالح”صفت محذوف ہے۔
امام حافظ الدین نسفی اس کی مراد واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: {فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أبواب كُلِّ شَيْءٍ } من الصحة والسعة وصنوف النعمة۔ ترجمہ: کل شی سے مراد صحت، کشادگی، طرح ، طرح کی نعمتیں۔

مفتیِ تونس ، علامہ طاہر بن عاشور(سال وفات: ۱۳۹۳ ہجری) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

ولفظ "كل”هنا مستعمل في معنى الكثرة، كما في قول النابغة: بها كل ذيال وخنساء ترعوي … الى كل رجاف من الرمل فارد.
أواستعمل في معناه الحقيقي؛ على أنه عام مخصوص، أي أبواب كل شيء يبتغونه، وقد علم أن المراد بكل شيء جميع الأشياء من الخير خاصة بقرينة قوله: {حَتَّى إِذَا فَرِحُوا} وبقرينة مقابلة هذا بقوله: {أَخَذْنَا أَهْلَهَا بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ}، فهنالك وصف مقدر، أي كل شيء صالح، كقوله تعالى: {يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْباً} أي صالحة.

(ترجمہ)لفظ "کل”اس مقام پر کثرت کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔جیسے نابغہ ذبیانی کے اس شعر میں ہے: وہاں ریت کے بہت سے ڈھیروں میں بہت سے وحشی جانور ہیں۔
یا "کل” اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہے،البتہ اس صورت میں آیت عام مخصوص ہوگی ۔اور "ابواب کل شئ ” کا معنی ہوگا ” ہر اس چیز کے دروازے جس کی وہ تمنا کرتے تھے۔اور یہ بات معلوم ہوچکی ہے کہ "کل شئ "سے خصوصی طور پر بھلائی کی تمام چیزیں مراد ہیں۔ کیوں کہ باری تعالی کا قول "حتی اذا فرحوا” اور اس کے مقابل "اخذنا اھلھا بالبأساء والضراء "اس پر قرینہ ہے۔لہٰذا یہاں پر "صالح "صفت محذوف ہوگی، اور آیت کی تقدیر یہ ہوگی "کل شئ صالح” جیسے اللہ تعالی کے قول ” یأخذ کل سفینة غصبا” میں ” صالحة” محذوف ہے۔

(تفسیر التحریر والتنویر ، ج :۶،ص:۹۷،ط: مؤسسۃ التاریخ العربی ، بیروت)

تخصیص کی چوتھی صورت:۔
تخصیص کی ایک صورت یہ ہے ،کہ حدیث "کل بدعة ضلالة”میں لفظ”کل” کواس کے عموم پر ہی رکھا جائے، اس کی تخصیص نہ کی جائے۔ لیکن یہ کہا جائے،کہ حدیث میں کلمۂ”بدعة” موصوف ہے۔ اوراس کی صفت "سیئة "محذوف ہے ۔گویا اصل حدیث اس طرح ہے : "کل بدعة سیئة ضلالة”۔اس توجیہ پر ترجمہ یہ ہوگا”ہر بری بدعت گمراہی ہے”۔
تخصیص کا یہ طریقہ بھی قرآن ،وحدیث نیز کلام عرب میں معروف ومتعارف ہے ۔قرآن مجید میں متعدد مقامات پر صفت محذوف ہے۔ صرف تین مثالیں ذکر کی جاتی ہیں ۔

قرآن مجید میں صفت محذوف ہونے کی مثالیں۔

پہلی مثال:۔
سورۂ کہف،آیت نمبراناسی(۷۹)میں، حضرت موسی ا ورحضرت خضر علیہما السلام کے قصے میں ہے: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا۔
(ترجمہ) لیکن کشتی تو وہ ایسے مسکینوں کی تھی جو سمندر میں کام کرتے تھے، تو میں نے چاہا کہ میں اس میں عیب پیدا کردوں ، اور پیچھے ایک بادشاہ تھا جو ہر(درست) کشتی کو جبرا چھین لیتا تھا۔

مذکورہ آیت میں وارد لفظ "سفینة”موصوف ہے ۔اس کی صفت "سالمة”محذوف ہے۔اس لیے کہ اگر”سفینة”کے بعد "سالمة”صفت محذوف نہ مانی جائے تو معنی یہ ہوگا کہ بادشاہ ہر کشتی چھین لیا کرتاتھا ۔جبکہ وہ صحیح و سالم کشتیاں ہی چھیناکرتا تھا۔مفسرین کا تقریبا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس آیت میں لفظ سفینۃ کے بعد "صالحة، سالمة، جیدۃ” جیسے الفاظ محذوف ہیں ، کیوں کہ اس کے بغیر معنی مقصود درست نہیں ہوگا۔علامہ بغوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما یہاں پر کل سفینة صالحة پڑھا کرتے تھے۔

دوسری مثال :۔
سورۂ قریش میں اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے: الَّذِي أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ ۔ (ترجمہ)جس نے انہیں بھوک میں کھانا دیا، اور انھیں خوف سے امان بخشا۔

اس آیت میں دو جگہ صفت محذوف ہے۔ایک "جوع” کے بعد ،دوسرے ” خوف "کے بعد ۔ جوع کے بعد”شدید” اور خوف کے بعد” عظیم ” محذوف ہے۔

تیسری مثال :۔
سورۂ کہف کے آخر میں رب تعالی کا ارشاد ہے: أُولَئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا۔(ترجمہ) یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیتیں اور اس کا ملنا نہ مانا تو ان کا کیا دھرا سب ضائع ہے، تو ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی تول قائم نہیں کریں گے۔
اس آیت مبارکہ میں "وزنا” کے بعد” نافعا” صفت محذوف ہے۔کیوں کہ تولا تو سب کے اعمال کو جائے گا، لیکن کافروں کے لیے تول نفع بخش نہیں ہوگی۔

ان کے علاوہ اوربھی وجوہ تخصیص علما نے ذکر فرمائی ہیں ؛ جن کی اس مختصر
تحریر میں گنجائش نہیں ۔اگر اللہ سمجھ کی توفیق دے تو یہی کفایت کرجائیں گی۔

طوفان نوح لانے سے اے چشم فائدہ ۔۔۔۔۔۔۔ دو اشک ہی بہت ہیں اگر کچھ اثر کریں۔

مضمون کا خلاصہ۔
گذشتہ گفتگو سےآفتاب ِنیم روزکی مانند روشن ہوگیا کہ حدیث "کل بدعۃ ضلالۃ” میں بدعت سے ہر بدعت مراد نہیں ہے۔ بلکہ بدعت سیئہ مراد ہے۔اگربدعت کو اس کے اطلاق وعموم پر رکھا جائے تومذکورہ حدیث قرآن مجیداوربدعت کی تقسیم کرنے والی احادیث،اوراقوالِ علما سےمتصادم ہوجائے گی ۔جبکہ سابقہ توجیہ کے اعتبار سے یہ حدیث نہ قرآن وحدیث کےمعارض ہے نہ اقوال علماکےمخالف ۔
لہٰذا جماعت وہابیہ کا مذکورہ حدیث کو اس کے عموم پر رکھ کر ہر بدعت کو گمراہی بتانا دیانت علمی کا خون کرنے کے مترادف ہے۔عوام اہل سنت سے راقم الحروف کی گذارش ہے کہ ان گندم نماجو فروش لوگوں کی چکنی چپڑی باتوں میں نہ آئیں ، اگر کوئی چیز سمجھ میں نہ آئے تو اپنے علما سے سمجھنے کی کوشش کریں ۔ان شاء اللہ ہمارے علما آپ کو قرآن وحدیث کی روشنی میں اطمینان بخش جواب دینے کی مقدور بھر کوشش کریں گے۔

قرآن وحدیث سمجھنے کے لیے صرف ترجمہ کافی نہیں۔
آخر میں ایک بات اور عرض ہے کہ کچھ لوگ قرآن وحدیث سمجھنے کے لیے اردو ، ہندی تراجم کو کافی جانتے ہیں، اور پھر علماے اہل سنت سے الجھتے پھرتے ہیں، ایسے لوگوں سے ہماری گزارش ہے کہ محض ترجموں کی بنیاد پر قرآن وحدیث کو سمجھنے کی کوشش نہ کریں ۔قرآن وحدیث سمجھنے کے لیے بہت سے علوم ضروری ہیں ؛جن کے بغیر قرآن وحدیث سمجھنا تو کجا ایمان بھی ہاتھ سے جانے کا اندیشہ ہے۔اللہ عز وجل قرآن مجید میں فرماتا ہے:یضل به کثیرا ویھدي به کثیرا۔اللہ تعالی قرآنی امثال کے ذریعے بہتوں کو گمراہ فرمائے گااور بہتوں کو ہدایت دے گا۔

محدث الحرم المکی ،تلمیذ امام ابو حنیفہ، استاذ امام شافعی ،فقہ وحدیث کے جامع ،حضرت سیدنا سفیان بن عُیینہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات:۱۹۸ہجری)فرماتے ہیں :”الحدیث مضلة الا للفقھاء”۔ ترجمہ: حدیث مجتہدین کے علاوہ اوروں کو خوب گمراہ کرتی ہے۔

کیوں کہ فقیہ ومجتہد ہی یہ جانتا ہے کہ متعلقہ حدیث عام ہےیا خاص ہے، محکم ہے کہ منسوخ ہے، مؤول ہے یا اپنے ظاہر پر محمول ہے۔

غیر مقلدین کی جہالت۔
آج غیر مقلدین کا حال یہ ہے کہ جہاں کہیں کوئی حدیث دیکھی ؛جو بظاہر سند کے اعتبار سے صحیح ہے فورا اس پر عمل کرنے لگتے ہیں، ان کایہ طریقہ نہایت غلط ہے ۔کیوں کہ کسی حدیث پر عمل کرنے کے لیے اس کاصحیح الاسناد ہونا کافی نہیں ، بلکہ اور بھی کئی چیزیں ضروری ہیں ۔اسی لیے علما فرماتے ہیں کہ صحت سند اور عمل بالحدیث میں تلازم نہیں ہے۔صحت وعمل کے درمیان عام خاص من وجہ کی نسبت ہے؛ کبھی حدیث کی سند صحیح ہوتی ہے اور اس پر عمل بھی ہوتا ہے۔اور کبھی سند صحیح ہونے کے باوجود عمل نہیں کیا جاتا ہے، مثلاوہ حدیث منسوخ ہوچکی ہے۔اور کبھی سند ضعیف ہونےکے باوجود قابل عمل ہوتی ہے۔

محدث کے لیے فقیہ کی ہم نشینی ضروری ہے۔
محدث کے لیے فقیہ (مفتی) کی صحبت اختیار کرنا ناگزیر ہے، اس لیے کہ حدیثیں بکثرت ہیں ، ان میں سے کونسی حدیث قابل عمل ہے اور کونسی نہیں ان کے درمیان تمیز کرنا فقیہ کا کام ہے، فقیہ کی ذمہ داری محدث سے دشوار تر ہے، اسی لیےتو فقیہ عبقری، محدث بے مثال اعلی حضرت، امام احمد رضا قادری، برکاتی قدس سرہ (سال وفات: ۱۳۴۰ہجری) فرماتے ہیں:
محدث ہونا علم کا پہلا زینہ ہے، اور مجتہد ہونا علم کی آخری منزل۔

(الملفوظ ج: ۲، ص: ۲۳۸)

فقہا کی ہم نشینی اور ان سے اکتساب فیض کرناکتنا اہم ہے،اس پر محدث دیار مصریہ، امام عبد اللہ بن وہب مصری علیہ الرحمۃ(سال وفات:۱۹۷ہجری) کے مندرجہ ذیل ارشاد سے کافی روشنی پڑتی ہے، امام ابن وہب فرماتے ہیں:
لولا أن الله أقذني بمالك والليث لضللت، فقيل له :كيف ذلك؟. قال: أكثرت من الحديث فحيرني.فكنت أعرض ذلك على مالك والليث، فيقولان لي: خذ هذا، ودع هذا.

ترجمہ:اگر اللہ نے مجھے امام مالک اور امام لیث(یہ دونوں حضرات فقیہ ومجتہد تھے) کے ذریعے نہ بچایا ہوتا تو میں گمراہ ہوچکاہوتا، آپ سے کہا گیا : کیسے گمراہ ہوچکے ہوتے؟۔آپ نے فرمایا:میں نے احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ جمع کرلیا؛جس نے مجھے حیرت میں ڈال دیا۔تو میں ان حدیثوں کو امام مالک اور امام لیث کی بارگاہ میں پیش کرتا تھا۔یہ دونوں امام مجھ سے کہتے تھے:اس حدیث کو لے لو، اس کو چھوڑ دو۔

(ترتیب المدارک للقاضی عیاض ،ج :۱/ص ۲۴۷)

امام مالک ،امام دار الہجرہ رضی اللہ تعالی عنہ تو کسی تعارف کے محتاج نہیں، البتہ امام لیث بن سعد مصر کے مفتی ، حدیث اور فقہ دونوں کے جامع تھے۔ ان کے بارے میں امام شافعی جو امام مالک کے شاگرد ہیں فرماتے ہیں :

"الليث أفقه من مالك، إلا أن أصحابه لم يقومو به”.(ترجمہ)امام لیث امام مالک سے بڑے فقیہ تھے،مگران کےتلامذہ نے ان کے مسلک کی اشاعت نہیں کی۔

(تہذیب التہذیب للامام ابن حجر عسقلانی،ج:۴/ص:۶۱۰)

عظیم مؤرخ علامہ ابن خَلِّکان(سال وفات:۶۸۱ہجری) کےبقول حضرت امام لیث بن سعد حنفی المذہب تھے۔اب ذرا سوچیے کہ حضرت امام لیث جن کے اندر فقہی کمال حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی وجہ سے آیا، جب آپ نے اپنے تفقہ کے ذریعےاجلۂ محدثین کوگمراہ ہونے سے بچالیا تو ہمارے امام ابوحنیفہ نےناجانے کتنے گم گشتگان ِراہ شریعت کو نشان منزل دیا ہوگا، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اللہ جل جلالہ ہم پر ہمارے اکابر کا سایہ دراز فرمائے۔

وما توفيقي إلا بالله، عليه توكلت وإليه أنيب.
وصلي الله تعالي على خير خلقه، وصفوة أنبيائه سيدنا محمد وعلى آله وصحبه وسلم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے