شعر و شاعری نبی کریمﷺ

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا

از قلم: سید خادم رسول عینی

علامہ سید اولاد رسول قدسی مصباحی راقم الحروف کے نعتیہ مجموعۂ کلام” رحمت و نور کی برکھا ” کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں :
” اگر صحیح معنوں میں نعت گوئی کا سلیقہ و قرینہ چاہیے تو سیدی اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کے مجموعۂ کلام حدائق بخشش کا مطالعہ کرنا بے حد مفید و سود مند ثابت ہوگا۔میں نے جب نعت گوئی کا آغاز کیا تو مجھے ایسا کوئی مخلص استاد نہیں ملا کہ جس کی رہنمائی میں اپنا نعتیہ فکری سفر جاری رکھ سکوں ۔ تو ایک دن‌ ابی الشفیق والمحترم حضور مفتیِ اعظم‌ اڑیسہ علامہ سید شاہ عبد القدوس علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں اپنے تردد کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا کہ تمھاری نعت گوئی کی مکمل رہنمائی کے لیے سیدی اعلیٰ حضرت کا نعتیہ دیوان حد ایق بخشش کافی ہے۔لہذا تم اس کے مطالعے کو اپنا معمول بنالو۔آپ‌ نے مزید فرمایا کہ حدائق بخشش تمھیں شاعری کے رموز و اسرار بتائیگی اور شاعری کے قواعد و ضوابط بھی سکھائے گی۔شریعت کی پاسداری کے موثر طریقوں سے آشنا کرائیگی۔ عقائد و اعمال کی اصلاح کا سبق بھی پڑھائیگی، بد‌ مذہبوں اور بد عقیدوں سے دور و نفور رہنے کی ترغیب عطا کریگی اور احقاق حق و ابطال باطل کا جذبہ بھی اجاگر کریگی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہی کتاب تمھیں آداب نعت گوئی کے ساتھ ساتھ عشق رسول اور نور ایماں کی لازوال نعمت سے ہم کنار بھی کرےگی”۔

جب ہم حدائقِ بخشش کا مطالعہ کرتے ہیں تو سب سے پہلے جس نعتیہ گلدستے کی زیارت ہوتی ہے اس کا مطلع یوں ہے :

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

اس سے پہلے کہ ہم شعر کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کریں آئیے عروضی ضاویے سے شعر پر تبصرہ کرتے ہیں :

عروض

سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے اس کلام کے افاعیل یوں ہیں :
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن
مطلع کے دوسرے مصرع میں افاعیل یوں ہے:
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن
گویا اعلیٰ حضرت نے اپنے نعتیہ دیوان کے پہلے شعر میں ہی زحاف(خبن) کا استعمال کیا ہے۔
اس سے علم عروض پر آپ کی استادانہ مہارت کا پتہ چلتا ہے۔

اعلیٰ حضرت کے دوسرے کلاموں کے اشعار میں بھی زحاف خبن کا استعمال ملتا ہے ، جیسے:
شب اسریٰ کے دولھا پہ دایم درود
اس مصرع کے افاعیل ہیں :
فعلن فاعلن فاعلن فاعلان
جب کہ مطلع کے مصرعوں کے افاعیل ہیں :
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلان۔

اگر علم عروض کے زاویے سے حدائق بخشش کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ اعلیٰ حضرت نے اپنے کلاموں میں کئی مقامات پر مختلف زحافات کا استعمال فرماکر اشعار کے حسن کو دوبالا کردیا ہے۔
مثال کے طور پر:
کعبے کے بدر الدجیٰ تم پہ کروڑوں درود۔
اس کلام کے کئی اشعار میں آپ نے زحاف ازالہ کا استعمال فرمایا ہے، ضرب و عروض میں بھی اور حشو میں بھی۔مثلا”
کیا ہیں جو بےحد ہیں لوث تم تو ہو غیث اور غوث

تم ہو حفیظ و مغیث کیا ہے وہ دشمن خبیث

وہ شب معراج راج وہ صف محشر کا تاج

لحت فلاح الفلاح رحت فراح المراح

جان و جہان مسیح داد کہ دل ہے جریح

اف وہ رہ سنگلاخ آہ یہ پا شاخ شاخ

تم سے کھلا باب جود تم سے ہے سب کا وجود

خستہ ہوں اور تم معاذ بستہ ہوں اور تم ملاذ

مندرجہ بالا مصرعوں کے افاعیل یوں ہیں:
مفتعلن فاعلان مفتعلن فاعلان
جب کہ مطلع
کعبے کے بدر الدجیٰ تم پہ کروڑوں درود
کے افاعیل یوں ہیں :
مفتعلن فاعلن مفتعلن فاعلان
گویا اعلیٰ حضرت نے مندرجہ بالا مصرعوں کے حشو میں زحاف ازالہ کا استعمال فرمایا ہے‌۔
اور اعلی’حضرت کا ایسا استعمال دلیل ہے کہ حشو میں زحاف ازالہ کا استعمال درست ہے۔

بلاغت

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

اعلیٰ حضرت کے اس شعر میں بلاغی حسن ہے۔
شعر کئی صنعتوں کے جمال سے مزین ہے:

صنعت تلمیح:
شعر میں ایک مشہور واقعے کی طرف اشارہ ہے کہ ایک سائل سرکار سے طلب کرتا رہا اور سرکار عطا فرماتے رہے اور آپ نے کبھی لا نہیں فرمایا۔

صنعت تکریر:
نہیں کا دوبار آنا شعر کے حسن کو دوبالا کررہا ہے

صنعت تجنیس:
پہلے نہیں کا مطلب ہے No
,دوسرے نہیں کا مطلب ہے not، لہذا شعر تجنیس تام‌ کے category میں آیا۔

جملۂ خبریہ vs جملۂ انشائیہ:
اس شعر میں ایک اور خوبی یہ ہے کہ اولی’ انشاءیہ جملہ ہے اور ثانی جملہء خبریہ۔ جملہء خبریہ کے ساتھ ساتھ انشاءیہ جملہ کے استعمال نے شعر میں مقناطیسیت پیدا کی ہے اور اثر انگیزی بھی ۔

دعویٰ vs دلیل:
شعر میں مزید خوبی یہ ہے کہ پہلے جملے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم صاحب جود و کرم ہیں اور ثانی میں ایک واقعے کو بیان کرکے دعوے کی دلیل بھی پیش کردی گئی۔

لفظ تیرا کی افادیت:
تمھارا / آپ کا کے عوض تیرا استعمال کیا گیا ہے کیونکہ لفظ تو / تیرا میں زیادہ محبت اور اپنائیت ہے اور تو / تیرا کے استعمال میں اقرار بے مثلیت ذات محمدی بھی ہے ۔صلی اللہ علیہ وسلم

تفہیم شعر

یہ شعر ایک حدیث کی طرف اشارہ کررہا ہے ۔وہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اور اس کا مفہوم یوں ہے:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ سخی ہیں ۔آپ کی سخاوت تیز آندھی سے بھی زیادہ جاری ہے۔آپ نے کبھی کسی سوالی کو خالی واپس نہیں لوٹایا یعنی لا نہیں فرمایا۔

اسی لیے عرب کے ایک شاعر نے کیا خوب فرمایا تھا :

ما قال لا قط الا فی تشھدہ
لولا التشھد کانت لا وہ نعم‌

سخاوت مصطفی’ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسلک کئی واقعات مشہور ہیں ۔
صحابیء رسول حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی کبھی سوال کیا گیا تو آپ نے جواب میں نہ نہیں کہا ۔

تبھی تو ‌اعلی’ حضرت فرماتے ہیں:

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

جود vs کرم

کرم کے ساتھ جود کا لفظ بھی لایا گیا ہے کیونکہ جود ، کرم سے اعلیٰ ہے ، higher category کے کرم کو جود کہا جاتاہے ۔ کرم مانگنے پر عطا کرنے کو کہتے ہیں اور جود بے مانگے دینے کو کہتے ہیں ۔آپ کی شان اجود الناس بالخیر اور اکرم الناس بالخیر ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق سخاوت لوگوں کے اسلام قبول کرنے کا باعث بن گیا ۔ مسلمانوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بخالت کا مظاہرہ نہ کریں ، بلکہ اسوہء حسنہ پہ عمل کرتے ہوئے سخاوت اور فراخ دلی کا مظاہرہ کریں ۔مال سے محبت نہ کریں بلکہ جس نے مال دیا ہے اس سے محبت کریں ، یعنی خداوند قدوس سے محبت کریں اور خدا کے بندوں کے حقوق ادا کرتے رہیں۔