رمضان المبارک فقہ و فتاویٰ

رمضان المبارک کے فضائل و مسائل

ازقلم: عبدالرشید امجدی اشرفی دیناجپوری
مسکونہ: کھوچہ باری رام گنج اسلام پور بنگال

روزہ اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے اور رمضان المبارک اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں،برکتوں، کامیابیوں اور کامرانیوں کا مہینہ ہے ۔اپنی عظمتوں اور برکتوں کے لحاظ سے دیگر مہینوں سے ممتاز ہے ۔رمضان المبارک وہی مہینہ ہےکہ جس میں اللہ تعالیٰ کی آخری آسمانی کتاب قرآن مجید کا نزول لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر ہوا۔ ماہ رمضان میں اللہ تعالی جنت کے دروازے کھول دیتا ہے او رجہنم کے دروازے بند کردیتا ہے اور شیطان کوجکڑ دیتا ہے تاکہ وہ اللہ کے بندے کو اس طر ح گمراہ نہ کرسکے جس طرح عام دنوں میں کرتا ہے اور یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ تعالی خصوصی طور پر اپنے بندوں کی مغفرت کرتا ہے اور سب سے زیاد ہ اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی کا انعام عطا کرتا ہے۔رمضان المبارک کے روضے رکھنا اسلام کےبنیادی ارکان میں سے نبئ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ماہ رمضان اور اس میں کی جانے والی عبادات ( روزہ ،قیام ، تلاوت قرآن ،صدقہ خیرات ،اعتکاف ،عبادت لیلۃ القدر وغیرہ )کی بڑی فضیلت بیان کی ہے ۔روزہ کے احکام ومسائل سے ا گاہی ہر روزہ دار کے لیے ضروری ہے۔

روزے کی فضیلت و اہمیت

روزے کی فضیلت و اہمیت دیگر عبادات کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ اور بے حساب ہے اس طرح ہے کہ انسان کے ہر نیک کام کا بدلہ دس سے سات سو گنا تک دیا جاتا ہے جبکہ روزہ کا اجر خود اﷲتعالیٰ عطا کرے گا۔ حدیث قدسی میں ہے کہ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے
کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصِّيَامَ، فَإِنَّهُ لِي وَأنَا اَجْزِيْ بِهِ.
’’ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزے کے۔ پس یہ (روزہ) میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔‘‘ (بخاری، الصحيح، کتاب الصوم)
روزہ دار کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے انتہا اجرو ثواب کے ساتھ ساتھ کئی خوشیاں بھی ملیں گی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا : إِذَا أفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ.
’’روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں جن سے اسے فرحت ہوتی ہے : افطار کرے تو خوش ہوتا ہے اور جب اپنے رب سے ملے گا تو روزہ کے باعث خوش ہوگا۔‘‘ (بخاری، الصحيح، کتاب الصوم مسلم، الصحيح، کتاب الصيام)

مسائل رمضان المبارک

مسئلہ :- افطارکرنے کی دعا افطار کے بعد پڑھنا سنت ہے قبل افطار نہیں (فتاویٰ رضویہ جلد٤ صفحہ٦۵۱)
مسئلہ :- روزہ کی حالت میں گل اور منجن اور کولگیٹ(ٹوتھ پیسٹ) کا استعمال سخت ممنوع ہے بعض صورتوں میں روزہ ٹوٹ بھی جاتا ہے۔
مسئلہ :- روزہ کی حالت میں انار اور بانس کی لکڑی کے علاوہ ہر کڑوی لکڑی کی ہی مسواک بہتر ہے۔ (ردالمحتار جلد۱ صفحہ۲۳۵)
مسئلہ :- گلوز کا ڈراپ یا طاقت کا انجکشن لگوانے سے روزہ فاسد نہ ہو گا اگر چہ بھوک پیاس ختم ہو جائے، ہاں اگر بھوک پیاس سے بچنے کے لئے ایسا کرے تو مکروہ ہے۔
مسئلہ :- روزہ کی حالت میں آنکھ میں دوا ڈالنے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتاویٰ شامی جلد۲ ص۳۹۵)
مسئلہ :- بغیرسحری کے روزہ رکھنا جائز ہے۔ (فتاوی فیضُ الرسول جلد۱ صفحہ۵۱۳)
مسئلہ :- روزه کی حالت میں عطر لگانا،پھول سونگھنا، سرمہ لگانا، تیل لگانا،بال ترشوانا،موئے زیر ناف مونڈنا،بام لگانا،ویسلین یاکریم لگانا،تیل کی مالش کرنا یہ سب جائز ہیں ان سب چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ (فتاویٰ مرکزی دارالافتاء بریلی شریف)
مسئلہ :- سورج ڈوبنے کے بعد بلا تاخیر فوراً افطار کریں، اذان کا انتظار نہ کریں! (فتاویٰ فیضُ الرسول جلد۱ صفحہ۵۱٤)
مسئلہ :- ماہ رمضان کی راتوں میں بیوی سے ہمبستری کرنا جائز ہے۔ (القرآن : پارہ۲/سورة البقره۱۸۷/رکوع۷)
مسئلہ :- روزہ رکھنے کے لئے حائضہ عورت اگر ٹیبلیٹ کا استعمال کرے تو اس کا روزہ صحیح ہے، البتہ اس کا یہ فعل جائز نہیں کہ بہت ساری بیماریوں کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ (ہدایہ اولین صفحہ٦٣)
مسئلہ :- روزہ کی حالت میں غسل کرنے یا احتلام سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
مسئلہ :- عید ،بقرعید اور ایام تشریق ١۱، ۱۲، ۱۳ ذی الحجہ کو روزہ رکھنا حرام ہے۔ (بہار شریعت حِصَّہ۵ صفحہ ١٤٢)
مسئلہ :- جو شخص روزہ نہ رکھے اس پر بھی صدقہ فطر واجب ہے کیونکہ صدقہ فطر کے وجوب کے لئے روزہ رکھنا شرط نہیں۔ (فتاویٰ شامی جِلد۲ صفحہ٧٦)
مسئلہ :- حالت جنابت میں روزہ درست ہے۔اس سے روزے میں کوئی نقص وخلل نہیں آئے گا کہ طہارت باجماع ائمہ اربعہ شرط صوم نہیں ہے البتہ وہ شخص نمازیں قصدا چھوڑنے کے سبب اشد گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو گا۔ (فتاویٰ رضویہ شریف جِلد٤ صفحہ٦١۵)
مسئلہ:- روزے کی حالت میں منہ میں پان, تمباکو اور نسوار رکھنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ (فتاوی رضویہ جلد10)
اگر مشت زنی سے انزال ہوجائے (یعنی منی نکل آئے) تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ (درمختار مع ردالمحتار)
مسئلہ:- دمے کا مریض انہلیر کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے گیس اور باریک بوندوں کی شکل میں پانی اور دوا کے اجزاء مریض کے پھیپھڑوں تک پہنچتے ہیں۔
مسئلہ:- روزے کی حالت میں آکسیجن ماسک لگانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
مسئلہ:- روزے کی حالت میں ناک میں سپرے کرنے یا دوا چڑھانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔(درمختار)
کیا کسی کو خون دینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟
مسئلہ :- کسی کی جان بچانے کے لئے خون دینا بلاکراہت جائز ہے اور اس سے روزہ بھی نہیں ٹوٹتا.
مسئلہ :- غیبت کرنے, گالی گلوچ کرنے اور جھوٹ بولنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا مگر یہ سب کام گناہ کے ہیں اور ان سے روزے کی نوارانیت ختم ہوجاتی ہے۔ (بہار شریعت وعامہ کتب فقہ)
مسئلہ :- اگر دانتوں سے خون نکل کر حلق سے نیچے اترجائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اگر حلق سے نیچے نہ اترے تو روزہ نہیں ٹوٹتا.
مسئلہ :- روزے کی حالت میں آنکھ میں دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے.
اگر کان کا پردہ سلامت ہوتو کان میں دوا یا تیل وغیرہ ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور اگر کان کا پردہ پھٹا ہوا ہو تو کان میں دوا اور تیل وغیرہ ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے.
مسئلہ :- روزے کے لئے سحری شرط نہیں ہے , رات میں روزے کی نیت کر لی جائے یا پهر زوال سے پہلے بھی نیت کرسکتے ہیں، لیکن سحری کا وقت ختم ہونے کے بعد اور زوال سے پہلے نیت اس وقت کرسکتے ہیں جب دو چیزیں پائی جائیں:
1-پہلی یہ کہ روزہ بند ہونے کے بعد سے کوئی منافی روزہ کام مثلا کهانا پینا وغیرہ نہ کیا ہو. 2-دوسرا یہ کہ یہ نیت کرے کہ میں روزہ بند ہونے کے وقت سے روزے سےہوں۔ (عامہ کتب فقہ)
۞ روزہ کسی چیز کے معدے کے راستہ میں یا دماغ میں جانے سے ٹوٹتا ہے، جسم سے کوئی چیز باہر آنے پر نہیں ٹوٹتا لھذا خون زخمی ہونے پر نکلے یا پھر ٹیسٹ کروانے کے لئے نکلوایا جائے یا کسی کو دینے کے لیے نکلوایا جائے, اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا. کیونکہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ "روزہ اس چیز سے ٹوٹتا ہے جو اندر جائے, جو باہر نکلے اس سے نہیں ٹوٹتا”۔ (مسندابویعلی و عامہ کتب فقہ)
مسئلہ :- قوی اور مضبوط دلائل کی روشنی میں انجکشن اور ڈرپ لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا لہذا ضرورت ہو تو انجیکشن یا ڈرپ لگوا سکتےہیں۔ (فتاوی فیض رسول, فتاوی یورپ)
مسئلہ :- جب سحری کا وقت ختم ہو جاتا ہے تو اذانِ فجر اور نمازِ فجر کا وقت شروع ہوتا ہے لھذا جو سحری بند ہونے کے باوجود اذان ختم ہونے تک سحری کرتےرہتے ہیں (یعنی کھاتے پیتے رہتے ہیں) تو وہ اپنا روزہ برباد کردیتے ہیں کیونکہ اس طرح ان کا روزہ ہوتا ہی نہیں اور سارا دن بھوک پیاس کے سوا انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ (فیضانِ رمضان)
مسئلہ :- تھوک اور بلغم جب تک منہ میں ہوں، ان کو نگلنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، البتہ منہ سے باہر مثلاً ہتھیلی پر تھوک کر پھر منہ میں دوبارہ ڈالا تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور ایسا عام طور پر کوئی نہیں کرتا۔ (درمختار مع ردالمحتار)
مسئلہ:- اگر کسی جگہ یا کمرے میں اگربتی سُلَگْ رہی ہو اور اس کا دھواں منہ یا ناک کے ذریعے اندر گیا تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا البتہ اگر منہ یا ناک کو اگ ربتی کے قریب جاکر اس کے دھواں کو کھ ینچھا اور روزہ بھی یاد ہوا تو روزہ ٹوٹ جائے گا.
مسئلہ :- قے کی صرف دو صورتیں ایسی ہیں جن میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے باقی تمام صورتوں میں روزہ نہیں ٹوٹتا, جن صورتوں میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے وہ یہ ہیں :
1-روزہ یاد ہونے کے باوجود جان بوجھ کر قے کی مثلاً انگلی وغیرہ حلق میں ڈال کر قے کی اور وہ قے منہ بهر ہوئی تو روزہ ٹوٹ جائےگا بشرطیکہ قے کھانے, پانی, خون وغیرہ کی ہو۔
2-بغیر اختیار کے منہ بھر قے آئی اور ایک چنے یا اس سے زیادہ مقدار میں واپس حلق سے نیچے لوٹادی تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ (فتاوی عالمگیری, درمختار)
مسئلہ :- روزہ شروع ہونے سے پہلے غسل فرض ہو یا روزہ میں احتلام ہو جائےتو روزہ کی حالت میں غسل کے تمام فرائض ادا کیے جائیں گے .غسل میں کلی کرنا اور ناک میں نرم حصہ تک پانی پہنچانا فرض ہے اس کے بغیر نہ غسل اترے گا نہ نمازیں ہوں گی۔ (عامہ کتب فقہ)
مسئلہ :- روزے کی حالت میں دن کے کسی بھی وقت مسواک کر سکتے ہے, اور اس سے اور دنوں کی طرح سنت کا ثواب بھی حاصل ہو گا البتہ اگر مسواک چبانے سے اس کے ریشے چھوٹتے ہوں یا مزہ محسوس ہو تو ایسی مسواک روزے کی حالت میں نہیں کرنی چاہیے۔ (بحرالرائق, ردالمحتار, فتاوی رضویہ)
مسئلہ :- روزے کی حالت میں ضرورتِ صحیحہ کے بغیر ٹوٹھ پیسٹ اور منجن وغیرہ کرنا مکروہِ تنزیہی ہے اور اگر اس کا کوئی جز حلق سے نیچے اتر گیا تو روزہ ہی ٹوٹ جائے گا, اس لیے روزے کی حالت میں ان کو استعمال کرنے سے بچنا چاہیے۔ (فتاوی رضویہ وغیرہ)
مسئلہ :- روزے کی حالت میں تیل لگانا اور موئے زیر ناف بنانا جائز ہے, ان سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ (عامہ کتب فقہ)
مسئلہ :- سرمہ لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، کاجل کا حکم سرمہ والا نہیں لہذا روزے کی حالت میں کاجل نہیں لگا سکتے۔

اعتکاف کے فضائل و مسائل

مسجِد میں اللہ تعالیٰ کی رِضا کیلئے بہ نیت اِعتکاف ٹھہرنا اِعتکاف ہے۔ ‘‘ اس کیلئے مسلمان کا عاقل ہونا اور جَنابت اورحیض ونفاس سے پاک ہوناشرط ہے۔بلوغ شرط نہیں ، نابالغ بھی جو تمیز رکھتا ہے اگر بہ نیّتِ اعتکاف مسجِد میں ٹھہرے تواُس کا اعتکاف صحیح ہے۔ (عالمگیری ج۱ ص ۲۱۱)

دو حج اور دو عمروں کا ثواب:
( 1) جس نے رَمَضانُ الْمُبارَک میں دس دن کا اعتکاف کرلیاوہ ایسا ہے جیسے دوحج اوردوعمرے کئے۔ (شُعَبُ الْاِیمان جلد نمبر 3)
(2 )اِعتکاف کرنے والاگناہوں سے بچا رہتا ہے اور اس کے لیے تمام نیکیاں لکھی جاتی ہیں جیسے ان کے کرنے والے کے لئے ہوتی ہیں‘‘۔ (ابنِ ماجہ جلد نمبر 2)
مُفَسِّرِ شہیر حکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ الرحمہ حدیث نمبر 2 کے تحت مراٰۃ جلد 3 صفحہ 217 پر فرماتے ہیں : ’’ یعنی اعتکاف کا فوری فائدہ تو یہ ہے کہ یہ معتکف کو گناہوں سے باز رکھتا ہے۔ عَکْف کے معنی ہیں روکنا، باز رکھنا، کیونکہ اکثر گناہ غیبت، جھوٹ اور چغلی وغیرہ لوگوں سے اختلاط کے باعث ہوتی ہے معتکف گوشہ نشین ہے اور جو اس سے ملنے آتا ہے وہ بھی مسجد و اعتکاف کا لحاظ رکھتے ہوئے بری باتیں نہ کرتا ہے نہ کراتا ہے۔ یعنی معتکف اعتکاف کی وجہ سے جن نیکیوں سے محروم ہوگیا جیسے زیارتِ قبور مسلمان سے ملاقات بیمار کی مزاج پرسی ، نمازِ جنازہ میں حاضری اسے ان سب نیکیوں کا ثواب اسی طرح ملتا ہے جیسے یہ کام کرنے والوں کو ثواب ملتا ہے، غازی، حاجی ، طالب علم دین کا بھی یہ ہی حال ہے۔ ‘‘
روزانہ حج کا ثواب:
حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے منقول ہے: ’’ معتکف کو ہر روز ایک حج کا ثواب ملتاہے‘‘۔ (شُعَبُ الْاِیمان جلد 3)

اعتکاف کی مشروعیت:
اعتکاف فضیلت کے کاموں اور بڑی عبادات میں سے ایک عبادت ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں "رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اس فانی دنیا سے پردہ فرمانے تک رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے اور ان کے بعد ان کی ازواج مطہرات اعتکاف کیا کرتی تھیں۔

اعتکاف کا حکم:
اعتکاف ہر وقت سنت ہے اور سب سے بہتر رمضان کا آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رمضان کے آخری عشرہ میں ہمیشہ اعتکاف کیا کرتے تھے

اعتکاف کی قسمیں:
اِعتکاف کی تین قسمیں ہیں {1} اعتکافِ واجِب {2} اعتکافِ سُنّت ( 3) اِعتکافِ نَفْل۔

اعتکاف کے ممنوعات و مکروہات:
بلاضرورت باتیں کرنا۔ اعتکاف کی حالت میں فحش یا بےکار اور جھوٹے قصے کہانیوں یا اسلام کے خلاف مضامین پر مشتمل لٹریچر ،تصویر دار اخبارات و رسائل یا اخبارات کی جھوٹی خبریں مسجد میں لانا،رکھنا،پڑھنا،سننا۔ ضرورت سے زیادہ سامان مسجد میں لا کر بکھیر دینا۔ مسجد کی بجلی،گیس اور پانی وغیرہ کا بےجا استعمال کرنا۔ مسجدمیں سگریٹ وحقہ پینا۔ اجرت کے ساتھ حجامت بنانا اور بنوانا، لیکن اگر کسی کو حجامت کی ضرورت ہے اور بغیر معاوضہ کے بنانے والا میسر نہ ہو تو ایسی صورت اختیار کی جا سکتی ہےکہ حجامت بنانے والا مسجد سے باہر رہے اور معتکف مسجد کے اندر۔

حاجاتِ طبعیہ:
پیشاب،پاخانہ اوراستنجے کی ضرورت کیلیے معتکف کو باہر نکلنا جائز ہے،جن کے مسائل مندرجہ ذیل ہیں:
پیشاب، پاخانہ کیلیے قریب ترین جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے۔
اگر مسجد سے متصل بیت الخلاء بنا ہوا ہے اور اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے تووہیں ضرورت پوری کرنی چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہے تو دور جا سکتا ہے، چاہےکچھ دورجانا پڑے۔
اگر بیت الخلاء مشغول ہو تو انتظار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ فارغ ہونے کے بعد ایک لمحہ بھی وہاں ٹھہرنا جائز نہیں۔
قضاء حاجت کیلیے جاتے وقت یا واپسی پر کسی سے مختصر بات چیت کرنا جائز ہے، بشرطیکہ اس کیلیے ٹھہرنا نہ پڑے۔
اعتکاف ختم کرنے کا پُختہ ارادہ کرنا۔

۞ اگر مسلمان نے خاص دنوں میں اعتکاف کی نیت کی پھر اس نے اعتکاف منقطع کر دیا یعنی درمیان میں توڑ دیا تو اس کے لیے اس اعتکاف کی قضاء کرنا جائز ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ” جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو صبح کی نماز پڑھ کر مسجد میں اعتکاف کی جگہ میں داخل ہو جاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھےپھر حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے بھی اپنا خیمہ لگانے کا حکم دیا جولگا دیا گیا اور باقی ازواج مطہرات نے بھی اپنے اپنے خیمے لگانے کا حکم دیا جو لگا دیے گئے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے صبح کی نماز پڑھی اور خیموں کی طرف دیکھا تو ہر طرف خیمے ہی خیمے تھے پس رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کیا تم نیکی چاہتیں ہو پس اپنا خیمہ گرانے کا حکم دیا جو کہ گرا دیا گیا اور رمضان المبارک میں اعتکاف چھوڑ کر شوال کے پہلے دس دنوں میں اعتکاف فرمایا یعنی رمضان والے اعتکاف کی قضا کی”اور ایک روایت میں ہے کہ “شوال کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرمای ” اس حدیث کو امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
اعتکاف کرنے والا مریض کی عبادت نہیں کر سکتا اور نہ ہی جنازے میں شریک ہو سکتا ہے اور اعتکاف کی جگہ میں وہ اللہ کی عبادت کے لیے ساری دنیا سے منقطع ہو جاتا ہے۔

20 رکعت نماز تراویح احادیث مبارکہ کی روشنی میں

صحیح قول کے مطابق تراویح کل بیس رکعت ہیں اور یہی سواد اعظم یعنی اہل سنت و جماعت کے چاروں فقہی مذاہب کا فتوٰی ہے
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد میں نفل نماز پڑھی تو لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم اگلی رات نماز پڑھی تو اور زیادہ لوگ جمع ہو گئے پھر تیسری یا چوتھی رات بھی لوگ اکٹھے ہوئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی طرف تشریف نہ لائے جب صبح ہوئی تو فرمایا میں نے دیکھا جو تم نے کیا اور مجھے تمہارے پاس نماز پڑھنے آنے سے صرف اس اندیشے نے روکا کہ تم پر فرض کردی جائے گی۔
(بخاری شریف کتاب صلاۃ التراویح باب فضل من قام رمضان و مسلم شریف باب ترغیب فی قیام رمضان و ھو التراویح و ابو داؤد شریف کتاب الصلاۃ باب فی قیام شہر رمضان و سنن نسائی شریف باب قیام شھر رمضان)
امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم انہیں قیام رمضان تراویح کی رغبت دلایا کرتے تھے لیکن حکما نہیں فرماتے تھے چنانچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے کہ جو شخص رمضان المبارک میں ایمان و ثواب کی نیت کے ساتھ قیام کرتا ہے تو اسکے سابقہ تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔
پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال مبارک تک قیام رمضان کی یہی صورت برقرار رہی اور یہی صورت خلافت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور خلافت حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی کے اوئل دور تک جاری رہی یہاں تک کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انہیں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں جمع کردیا اور انہیں نماز تراویح پڑھایا کرتے تھے لہذا یہ وہ پہلا موقع تھا جب نماز تراویح کے لئے باقاعدہ باجماعت اکٹھے ہوئے تھے۔ (صحیح ابن حبان جلد اول وصحیح ابن خزیمہ جلد سوم)
شارح بخاری حضرت امام ابن حجر عسقلان نے التلخیص میں بیان کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو دو راتیں 20 رکعت نماز تراویح پڑھائ جب تیسری رات لوگ پھر جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی طرف تشریف نہ لائے پھر صبح آپ نے فرمایا مجھے اندیشہ ہوا کہ تم پر نماز تراویح فرض کر دی جائے گی لیکن تم اس کی طاقت نہیں رکھو گے۔ (عسقلانی تلخیص الحبیر جلد دوم)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم رمضان المبارک میں وتر کے علاوہ بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔ (طبرانی المعجم الاوسط جلداول) (طبرانی المعجم الکبیر جلد گیارہ) (مصنف ابن ابی شیبۃ جلد دوم)
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی کے زمانے میں 20 رکعت تراویح اور وتر پڑھتے تھے۔ (بیہقی سنن کبری جلد دوم)

20 رکعت نماز تراویح آئمہ اربعہ کے نزدیک

تراویح رمضان کے مہینے میں عشاء کی نماز کے بعد اور وتر کی نماز سے پہلے باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ جو بیس رکعت پر مشتمل ہوتی ہے اور دو دو رکعت کرکے پڑھی جاتی ہے ہر چار رکعت کے بعد وقف ہوتا ہے جس میں تسبیح و تحلیل ہوتی ہے اور اسی کی وجہ سے اس کا نام تروایح ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان شریف میں رات کی عبادت کو بڑی فضیلت دی ہے۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سب سے پہلی تروایح کے باجماعت اور اول رات میں پڑھنے کا حکم دیا اور اُس وقت سے اب تک یہ اسی طرح پڑھی جاتی ہے۔ اس نماز کی امامت بالعموم حافظ قرآن کرتے ہیں اور رمضان کے پورے مہینے میں ایک بار سنت ہے اور زیادہ مرتبہ قرآن شریف پورا ختم کیا جا سکتا ہے حنفی ، شافعی ، مالکی اور حنبلی حضرات بیس رکعت پڑھتے ہیں اور تروایح کے بعد وتر بھی باجماعت پڑھے جاتے ہیں۔

آئمہ اربعہ کے اقوال
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ:
حضرت امام فخر الدین قاضی خان لکھتے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ رمضان میں ہر رات بیس یعنی پانچ ترویحہ وتر کے علاوہ پڑھنا سنت ہے۔
علامہ علاء الدین کاسانی حنفی لکھتے ہیں کہ جمہور علما کا صحیح قول یہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت ابی بن کعب کی امامت میں صحابہٴ کرام کو تراویح پڑھانے پر جمع فرمایا تو انہوں نے بیس رکعت تراویح پڑھائی اور صحابہ کی طرف سے اجماع تھا۔
حضرت امام شافعی:
حضرت امام شافعی رحمۃ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے بیس رکعت تراویح پسند ہیں، مکہ مکرمہ میں بیس رکعت ہی پڑھتے ہیں۔ ایک دوسرے مقام پر حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعت نماز تراویح پڑھتے پایا ہے۔علامہ نووی شافعی لکھتے ہیں کہ تراویح کی رکعت کے متعلق ہمارا شوافع مسلک وتر کے علاوہ دس سلاموں کے ساتھ بیس رکعت کا ہے اور بیس رکعت پانچ ترویحہ ہیں اور ایک ترویحہ چار رکعت کا دوسلاموں کے ساتھ، یہی امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے اصحاب اور امام احمد بن حنبل کا مسلک ہے اور قاضی عیاض نے بیس رکعت تراویح کو جمہور علما سے نقل کیا ہے۔
حضرت امام احمد بن حنبل:
حضور سیدنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ
فقہ حنبلی کے ممتاز ترجمان علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں : امام ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) کا پسندیدہ قول بیس رکعت کا ہے اور سفیان ثوری بھی یہی کہتے ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ جب عمر فاروق نے صحابہٴ کرام کو ابی بن کعب کی اقتداء میں جمع کیا تو وہ بیس رکعت پڑھتے تھے۔ ابن قدامہ کہتے ہیں کہ یہ بمنزلہ اجماع کے ہے۔ نیز فرماتے ہیں جس چیز پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ عمل پیرا رہے ہوں، وہی اتباع کے لائق ہے۔
حضرت امام مالک:
حضرت سیدنا امام مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مشہور قول کے مطابق تراویح کی 36 رکعت ہیں؛جبکہ ان کے ایک قول کے مطابق بیس رکعت سنت ہیں۔ علامہ ابن رشدقرطبی مالکی فرماتے ہیں کہ امام مالک نے ایک قول میں بیس رکعت تراویح کو پسند فرمایا ہے۔ مسجد حرام میں تراویح کی ہر چار رکعت کے بعد ترویحہ کے طور پر مکہ کے لوگ ایک طواف کر لیا کرتے تھے، جس پر مدینہ منورہ والوں نے ہر ترویحہ پر چار چار رکعت نفل پڑھنی شروع کر دیں تو اس طرح حضرت امام مالک کی ایک رائے میں 36رکعت (20 رکعت تراویح اور 16 رکعت نفل) ہوگئیں۔
مذکورہ بلا آئمہ اربعہ کے اقوال اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تراویح کی کل رکعت 20 ہوتی ہیں اسی پر اہل سنّت و جماعت چاروں فقہی مذاہب کا اجماع ہے اور آج کے دور میں بھی حرمین شریفین میں یہی معمول ہے وہاں کل 20 رکعت تراویح پڑھی جاتی ہیں۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com