اے کرم کے آسماں تیرے ستاروں کو سلام
رخصت اے رمضاں ترے پاکیزہ جلوؤں کو سلام
چشمِ حسرت، رو رہی ہے تجھ کو جاتا دیکھ کر
بے بہا دن اور تری انمول راتوں کو سلام
اے بہار باغ جنت ، ماہِ رمضاں الوداع
تیری خوشبو دار صُبحوں اور شاموں کو سلام
رب سے بندوں کا ہوا جن میں خصوصی رابطہ
وصل کے ایسے عظیم الشان لمحوں کو سلام
ایسی بارش جس سے عاصی کی خطائیں دُھل گئیں
اُن برسنے والی پیاری پیاری بوندوں کو سلام
قلب و لب ، ذکر و درود و نعت و قرآں میں مگن
جنّتی ماحول اور فردوسی نغموں کو سلام
دل میں سوز و درد اور آنکھوں میں اشکوں کا ہجوم
توبہ کرنے والی آہوں اور دعاؤں کو سلام
اے مہِ رمضاں تجھے کیسے کہوں میں الوداع
اے سخی ! تیری کریمانہ عطاؤں کو سلام
جانے سے پہلے ، ترے آنے کی لب پر ہے دعا
اے مرے مہماں، تری صحبت کے لمحوں کو سلام
بڑھ گیا ہے دل کے اندر طاعتوں کا ذوق و شوق
خیر پر تیار کرنے والی گھڑیوں کو سلام
وہ چمک ، جس سے فریدی ! جان و دل روشن ہوئے
مہربانی اور کرم کے اُن اجالوں کو سلام
ازقلم: سلمان رضا فریدی صدیقی مصباحی مسقط عمان