تحریر: پروفیسر عون محمد سعیدی مصطفوی ، جامعہ نظام مصطفی بہاولپور
شخصیت :
سید العارفین، حجۃ الواصلین، نائب رحمۃ للعالمین، قطب ِربانی، محبوبِ سبحانی، شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کی سوانحِ حیات کا مطالعہ کرنے سے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ آپ بہت بڑے صاحبِ کرامت بزرگ ہیں یا بہت بڑے عالمِ جلیل ہیں یا بہت بڑے داعی ومبلغ۔ سچ یہ ہے کہ آپ اپنے وقت کے بہت بڑے عالم، بہت بڑے صاحبِ کشف وکرامت بزرگ اور بہت بڑے داعی ومبلغ بھی ہیں۔ آپ کا مرتبہ اﷲ عزوجل کی بارگاہ میں بہت اونچا ہے اور بلا شبہ آپ روئے زمین کے تمام اولیاء اﷲ کے سردار ہیں
محمد کا رسولوں میں ہے جیسے مرتبہ اعلیٰ
ہے افضل اولیا میں یونہی رتبہ غوث اعظم کا
القاب :
مقبول بارگاہ الٰہی، مورد انوار لامتناہی، شیر شبستاں، کمالِ مرد میداں، خورشید افلاک کرامت، گوہر دریائے ولایت، گل گلشن شریعت، بہار گلستان طریقت، محی السنۃ، قامع البدعۃ، سلطان الاولیاء، الباز الاشھب، غوث الاغواث، قطب الاقطاب، فرد الافراد، غوث الثقلین، نجیب الطرفین، پیرانِ پیر روشن ضمیر، محبوبِ سُبحانی، واقف اسرار ربانی، قندیلِ نورانی، شہبازِ لامکانی سلطان الاولیاء، قیوم زماں، غوث اعظم حضرت سیدنا الشیخ ابو محمد سید محی الدین.
ولادت و وصال :
حضرت غوثِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رمضان المبارک 470 ھ میں گیلان کے قصبہ نیف میں پیدا ہوئے، آپ کا لقب پاک محی الدین اور اسم گرامی عبدالقادر، آپ کے والد کا نام ابو صالح موسیٰ جنگی دوست اور والدہ کا نام اُم الخیر فاطمہ تھا۔ آپ کی پیدائش سے قبل اور وقتِ پیدائش وبعدِ پیدائش بے شمار کرامتوں کا ظہور ہوا آپ نے شیر خوارگی کے زمانے میں بھی روزے کے اوقات میں شیرِ مادر نوش نہ فرمایا
رہے پابند احکام شریعت ابتداہی سے
نہ چھوٹا شیر خواری میں بھی روزہ غوث اعظم کا
آپ شیخ الکل، تاج اولیا اور غوث الاغواث ہیں۔ ہر سلسلے والا آپ ہی کے در سے ہی فیض پارہا ہے اور اولیائے جہاں حضور غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے قدم مبارک کے سامنے اپنی اپنی گردنیں جھکائے ہوئے ہیں
جو فرمایا کہ دوشِ اولیا پر ہے قدم میرا
لیا سر کو جھکا کر سب نے تلوا غوث اعظم کا
امام اہل سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ ﷲ علیہ فرماتے ہیں:
سر بھلا کیا کوئی جانے کہ ہے کیسا تیرا
اولیا ملتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلوا تیرا
آپ کا وصال مبارک 561 ھ کو عراق کے دارالحکومت بغداد میں ہوا، وہیں آپ کا مزار پر انوار مرجع خلائق ہے. 11 ربیع الثانی کو آپ کے عرس مبارک میں دنیا بھر سے آپ کے محبین حاضر ہوتے ہیں.
تعلیم و تربیت :
حضرت غوثِ اعظم نے ابھی عمر کی چند منزلیں ہی طے کی تھیں کہ سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا۔ تعلیم وتربیت کا تمام بوجھ آپ کی والدۂ محترمہ فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے کندھوں پر آپڑا اور انہوں نے اپنے لخت جگر کی تعلیم وتربیت کا فریضہ بحسن وخوبی انجام دیا۔حضرت شیخ ۴۸۸ھ مطابق ۱۰۹۵ء میں ۱۸ سال کی عمر میں علومِ ظاہری کی تحصیل کے لیے بغداد پہنچے اور نامورانِ فن سے بھرپور استفادہ کیا جن میں ابو الوفا علی بن عقیل حنبلی، ابو الخطاب محفوظ کلوذانی حنبلی، ابو غالب محمد بن الحسن باقلانی، ابوسعید محمد بن عبدالکریم، ابو زکریا یحییٰ بن علی تبریزی، عارف باﷲ حضرت حماد باس قدس سرہ اور قاضی ابو سعید مبارک مخزومی قدس سرہم العزیز خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ ان میں آخر الذکر مخزومی سے آپ کو غایت درجہ عقیدت تھی اور پھر یہی آپ کے شیخ طریقت ٹھہرے۔
حضرت مخزومی فرماتے ہیں:
’’عبدالقادرجیلانی نے مجھ سے خرقۂ خلافت پہنا اور میں نے ان سے پہنا ہم میں سے ہر ایک دوسرے سے برکت حاصل کرے گا۔‘‘ (قلائد الجواہر، ص؍۴،۵)
بیس اہم نکات :
1..دنیا کے تین بڑے غوث ہیں.. سیدنا امام حسن.. سیدنا شیخ عبد القادر.. سیدنا امام مہدی. رضی اللہ عنہم
2..ہم گیارہویں، بارہویں اور ایک والے ہیں. گیارہ بارہ تک لے جاتا ہے اور بارہ ایک تک.
3..سیدنا غوث اعظم کو صرف دل میں یاد کرو تو انہیں فورا پتہ چل جاتا ہے اور کرم فرماتے ہیں .. اور اگر پوری محفل گیارہویں سجا کے بیٹھو تو کتنا کرم ہو گا.
4..اگر گیارہویں شریف کی نیت سے رقم کسی جامعہ کے طلبہ پہ خرچ کر دی جائے تو چودہ سو گنا زیادہ ثواب ملے گا.
5..غوث اعظم کو اللہ تعالیٰ نے عرش تا فرش ساری دنیا میں تصرف کی قوت عطاء فرمائی.
6..غوث اعظم غوث الثقلین ہیں. تمام جن و انس آپ کے زیر تصرف ہیں.
7..غوث اعظم کل کائنات کو یوں ملاحظہ فرماتے ہیں جیسے ہتھیلی پہ رائی کا دانہ رکھا ہو.
8..خاندان قادریہ دنیا کا سب سے عظیم خاندان ہے، اس سے افضل کوئی نہیں.
9..غوث اعظم کی بارگاہ میں اولیاء امت تھر تھر کانپتے ہیں کہ کہیں کسی کوتاہی کی وجہ سے ولایت سلب نہ ہو ہو جائے.
10..غوث اعظم چاہیں تو ایک منٹ میں ولایت سلب فرما لیں اور اگر چاہیں تو چور کو قطب بنا دیں.
11..غوث اعظم نے ساری عمر تعلیم و تعلم میں گزاری، صبح سے شام تک درس و تدریس فرماتے تھے، اسی سے آپ قطب الاقطاب کے مقام تک پہنچے.
12..آپ کی تعلیمات میں ماں کی فرماں برداری اور سچ بولنے کی بہت زیادہ اہمیت ہے.
13.. آپ نے فرمایا کہ دین دو چیزوں کا نام ہے. الطاعۃ لامر اللہ والشفقۃ علی خلق اللہ(اللہ کے حکم کی اطاعت اور خلق خدا پہ شفقت)
14..بغداد شروع سے آج تک دار الحکومت رہا ہے، نجانے وہاں کتنے بادشاہ آئے اور چلے گئے، ان کی حکومتیں فنا ہو گئیں مگر غوث اعظم کی حکومت آج بھی باقی ہے.
15..غوث اعظم کی تعلیمات میں حصول علم دین کی سب سے زیادہ اہمیت ہے. علم دین کی ہر ہر چیز شرف رکھتی ہے. کبھی کوئی نہیں کہتا کہ میں فزکس شریف، کیمسٹری شریف بیالوجی شریف پڑھ رہا ہوں مگر علم دین کو دیکھیں.. قدوری شریف، ہدایہ شریف، بخاری شریف، حدیث شریف، قرآن شریف، بغداد شریف، اجمیر شریف، مکہ شریف، مدینہ شریف، کعبہ شریف، روضہ شریف، میلاد شریف، گیارہویں شریف. غرض دین کی تو ہر ہر چیز شرف والی ہے.
16..علم دو طرح سے ملتا ہے.. مکتب و مدرسہ سے، فیضان نظر سے. اصل علم فیضان نظر کا ہے. حضرت غزالی زماں قدس سرہ نے والد گرامی علامہ اللہ وسایا سعیدی علیہ الرحمہ سے فرمایا : مولانا علم کالے حرفوں میں نہیں رکھا، علم تو بزرگوں کی نگاہوں میں رکھا ہے.
17..حضرت غزالی زماں سے ایک مرتبہ والد گرامی نے عرض کی کہ آپ کی شان تو حضور غوث اعظم جیسی ہے. انہوں نے خفا ہو کر ارشاد فرمایا، ارے مولانا کیا کہہ رہے ہو، میں تو ان کے ایک چھینٹے کے برابر بھی نہیں ہوں. آپ قدس سرہ نے اپنی ایک کتاب کا انتساب حضور غوث اعظم کے نام کیا اور نیچے اپنے نام کے ساتھ لکھا.. سگ درگاہ جیلانی.
18..بر صغیر میں حضور غوث اعظم کا فیضان دو ہستیوں سے سب سے زیادہ جاری ہوا. ایک تاج دار بریلی اور دوسرے تاج دار گولڑہ رضی اللہ عنہما.
19..ہر مہینے حسب توفیق غوث اعظم کی گیارہویں شریف کرنے سے رزق میں اور تمام امور میں بے حد برکت ہوتی ہے.خواہ گیارہ روپے ہی کیوں نہ دے دیے جائیں.
20..دنیا کا کوئی بھی فرد غوث اعظم کی مہر کے بغیر کسی صورت ولی نہیں بن سکتا.
عرش تا فرش قوت تصرف :
1..یہ کائنات اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے. وہ ہر ہر شے کا لا شریک خالق و مالک ہے. وہ اتنی زیادہ بلند شان والا ہے کہ کھربہا کھرب دماغ مل کر بھی اس کی شان کا ایک ذرہ تک کما حقہ نہیں پہچان سکتے. وہ چاہے تو کھربوں کائناتیں ایک مائکرو سیکنڈ میں وجود میں لے آئے اور کھربوں فنا کر دے.
2..ہم اس کی بلند شان کو پہچاننے سے قاصر ہیں. ہم اسے بہت ہی کم پہچانتے ہیں. اسی وجہ سے ہم اکثر اس کی ذات پاک کے حوالے سے ٹھوکر کھا جاتے ہیں. اکثر لوگ اسے اسی طرز پر سوچتے ہیں جیسے وہ ایک دوسرے کے بارے میں سوچتے ہیں. حالانکہ اس کی ذات پاک کو اس طرز پر سوچنا اس کی شان اقدس کے سخت خلاف ہے. اس طرز پر تو انبیاء و رسل کو بھی سوچنا ممنوع ہے، چہ جائے کہ رب کریم کو اس طرز پر سوچا جائے.
3..ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے دنیا کے کسی فرد کو زمین و آسمان کی بادشاہی دے دی تو اس سے اس کی شان الوہیت میں فرق آ جائے گا، اس کا مقام بلند زمیں بوس ہو جائے گا. ارے کیا وہ ہماری طرح کا ہے کہ کسی کو کوئی چیز دینے سے پہلے ہزار بار سوچے؟ اس کی شان تو یہ ہے کہ وہ کھربوں کائناتیں بنا کر ایک ہی بندے کو بخش دے تو اس کی شان میں ایک ذرے کا کروڑواں حصہ بھی کمی نہیں آئے گی. کیا اس کی شان اسی ننھی منی کائنات تک محدود ہے؟ وہ تو لا محدود ذات ہے، وہ سب کچھ بنا کر کسی کو بخش دے تب بھی ہر شے کے ذرے کا وہ خود ہی مالک رہے گا، دوسرے کی ملکیت عارضی اور اسی کی بخشی ہوئی ہو گی.
4..ہم نے رب کی کائنات کو بھی نہیں پہچانا، یہاں کائنات کے ہر ہر ذرے کے پیچھے پوری پوری کائنات چھپی ہوئی ہے. پتہ نہیں اس نے کتنی مخلوقات پیدا کی ہوئی ہیں، کتنی روز پیدا کرتا ہے، کتنی روز فنا کرتا ہے. اس نے ایک روحانی نظام بھی بنایا ہے وہ اس ظاہری جسمانی کائنات سے لاتعداد گنا بڑی ہے. جیسے اس ظاہری دنیا کے بڑے بڑے طاقت ور بادشاہ ہیں اسی طرح روحانی دنیا کے بھی بڑے بڑے طاقت ور بادشاہ ہیں. پتہ نہیں کتنی بڑی بڑی روحانی بادشاہیاں ہیں. ہم اتنی کم زور سوچ کے مالک ہیں کہ اگر سیدنا غوث اعظم کو عرش تا فرش کا مالک قرار دے دیں تو کبھی ہمیں اللہ تعالیٰ کی شان الوہیت خطرے میں محسوس ہونے لگ جاتی ہے، کبھی ہمیں مولا علی کی طاقت اس کے مقابلے میں چھوٹی لگنے لگ جاتی ہے اور کبھی دیگر انبیاء و اولیاء کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہونے لگ جاتے ہیں.
5..دوستو! اللہ بہت بڑا ہے، بہت بڑا ہے، ہماری کھربوں سوچوں سے بھی بہت بڑا ہے. وہ سخیوں کا سخی ہے، وہ لٹاتا ہے اور خوب لٹاتا ہے. کوئی بھی نہیں جو اسے کائناتیں تک بخش دینے سے روک سکے. ہم "هؤلاء من عطاء ربک” کو سمجھنے سے قاصر ہیں. ہم "انا اعطیناک الکوثر” کو سمجھنے سے قاصر ہیں، ہم "ولسوف یعطیک ربک فترضی” کو سمجھنے سے قاصر ہیں، ہم "علی کل شیئ قدیر” کو سمجھنے سے قاصر ہیں، ہم اس کے کلمات کی لا محدودیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں.
6..وہ خود فرماتا ہے کہ کل کائنات میں سب سے مکرم انسان کو بنایا، جبکہ ساری کائنات کو انسان کی خاطر بنایا، کائنات کی ہر ہر چیز کو انسان کے لیے مسخر کر دیا. پھر روحانی جسمانی ظاہری باطنی کل کائنات کا شہنشاہ مطلق سیدنا محمد رسول اللہ کو بنا دیا. کل انبیاء و اولیاء ،ملائکہ جنات وغیرہ آپ ہی کے تابع فرمان ہیں. آپ کا ایک اشارہ کائنات میں کھربوں تبدیلیاں لانے کی قدرت رکھتا ہے. پھر آپ کے ما تحت ہزارہا بادشاہیاں ہیں. آپ اللہ کی عطاء سے جسے چاہتے ہیں کائنات کی قوت، طاقت، تصرف، اقتدار، اختیار، اور کرسی بخش دیتے ہیں. آپ کو حکم ہے "محبوب! لٹاتے جاؤ، کوئی سائل خالی نہ جائے، گناہ گاروں کو بخشتے جاؤ، مانگنے والوں کو دیتے جاؤ”نہ حضور کی یہ شان ہے اور نہ ہی آپ کے خدام (بادشاہان کائنات) کی کہ وہ بیٹھے پچاس پچاس روپے بانٹ رہے ہوں. وہ تو اتنا دیتے ہیں کہ تاحد نظر ملکیت ہی ملکیت سپرد کر دیتے ہیں. اور یہ درحقیقت خود رب ہی کی شان ہے. نہ یہ کہ اس سے الوہیت کو خطرات لاحق ہو گئے.
7..سوچو فرشتے مدبرات امر ہیں، روحیں نکالتے ہیں، سورج چاند، ستارے سیارے چلاتے ہیں، عرش تا فرش ساری کائنات کے امور سنبھالتے ہیں تو کیا اس سے اللہ پاک کی شان کو کوئی خطرہ لاحق ہو گیا. ارے رب کریم کےسامنے ان ننھی منی چیزوں کی حیثیت ہی کیا ہے. وہ تو انہیں اٹھا کر کسی چیونٹی کو بھی بخش دے تو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا. وہ بہت بلند ہے بہت بلند ہے بہت بلند ہے. وہ بے نیاز تو زمانے اپنے بندوں کو بخش دیتا ہے، اسے بھلا اس سے کیا فرق پڑتا ہے. بلکہ اس سے تو اس کی عظمت و شان مزید ظاہر ہوتی ہے. بس اتنا سمجھ لو کہ ہر شے کی ملکیت بندوں کو عطاء کر دینے سے اس کی عظمت و شان مزید تو ضرور چمکتی ہے، خطرہ اسے ذرے کا بھی لاحق نہیں ہوتا. کون سی چیز ہے جو بخش دینے کے بعد بھی اس کی قدرت سے باہر رہ جائے. اس نے تو شیطان تک کو وہ وہ قوتیں بخش دی ہیں کہ ہماری آنکھیں ان سے چندھیا جائیں، پھر نبی علی ولی غوث قطب ابدال تو اس کے محبوب ہیں، جو چاہیں کریں، کائنات ان کے قدموں کے نیچے بچھی ہوئی ہے.
8.. اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے حدائق بخشش میں حضرت غوث اعظم کے قصیدہ غوثیہ کو نقل کر کے فارسی اشعار میں ان کی توضیح کی ہے. حضرت سیدنا غوث اعظم کی قوت، طاقت، کرسی، اقتدار اور تصرف کے متعلق حدائق بخشش میں موجود قصیدہ غوثیہ کے درج ذیل اشعار ملاحظہ ہوں.
بِلَادُ اﷲِ مُلْکِیْ تَحْتَ حُکْمِیْ
وَ وَقْتِیْ قَبْلَ قَلْبِیْ قَدْ صَفَالِیْ
طَبُوْلِیْ فِی السَّمَائِ وَ الْاَرْض دَقَّتْ
وَ شَاؤُسُ السَّعَادۃِ قَدْ بَدَالِیْ
و مَا مِنْھَا شُھُوْرٌ اَوْ دُھُوْرٌ
تَمُرُّ وَ تَنْقَضِیْ اِلَّا اَتَالِيْ
(یعنی سیدنا غوث اعظم اللہ تبارک و تعالی کی ساری کائنات کے مالک ہیں اور اس میں ان کا حکم چلتا ہے…. نیز آپ کے طبل زمین و آسمان میں بج رہے ہیں. کوئی بھی مہینہ اور کوئی بھی زمانہ دنیا میں بعد میں آتا ہے، پہلے آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہے.)
2..مزید اعلی حضرت علیہ الرحمہ خود حضرت غوث اعظم کی شان میں عرض کرتے ہیں :
اِقتدارِ کُن مَکُن حق مصطفیٰ را دادَہ اَست
زیرِ تختِ مصطفیٰ بر کرسیِ دیواں توئی
ثابِت و سَیَّارَہ ہم دَر تُسْتْ و عرشِ اَعظمی
اہلِ تمکین اہلِ تَلْوِیں جملہ را سُلطاں توئی
(یعنی ساری کائنات میں "ہو جا اور نہ ہو” کی طاقت اللہ تعالیٰ نے مصطفی کریم کو دی ہے اور مصطفی کریم نے اس کرسی پر حضور غوث اعظم کو بٹھایا ہے… کائنات میں جو کچھ رکا ہوا ہے یا جو کچھ چل رہا ہے اس کی سلطانی سیدنا غوث اعظم کے پاس ہے)
3..مزید اعلی حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں :
تِری جاگیر میں ہے شَرق تا غَرب
قَلمرو میں حَرم تا حِلّ ہے یا غوث
جسے عرشِ دوم کہتے ہیں اَفلاک
وہ تیری کرسیِ منزل ہے یا غوث
سیاہی مائل اس کی چاندنی آئی
قمر کا یوں فلک مائل ہے یا غوث
تِری قدرت تو فِطریات سے ہے
کہ قادِر نام میں داخل ہے یا غوث
(یعنی شرق، غرب، افلاک، چاند کا فلک وغیرہ سب کچھ سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی جاگیر ہے. سب پر آپ کی قدرت و حکمرانی ہے)
4..مزید اعلی حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں :
ذی تَصَرُّف بھی ہے ماذون بھی مختار بھی ہے
کارِ عالم کا مُدَبِّر بھی ہے عبدالقادر
(یعنی حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ سارے جہان کے مختار، مدبر اور حاکم و متصرف ہیں. ہر چیز آپ کے حکم سے رواں دواں ہیں)
پس معلوم ہوا کہ کل کائنات اللہ تعالیٰ کے حکم سے غوث اعظم کے ما تحت ہے اور آپ کے حکم سے چلتی ہے.
تقدیر مبرم میں تبدیلی :
تفسیر مظہری میں سورئہ رعد کی آیت کے تحت مذکور ہے کہ’’حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کے دونوں صاحبزادے ایک عالم ملاطاہر لاہوری سے درس لیتے تھے۔ حضر ت مجدد رضی اللہ عنہ نے کشف سے دیکھا کہ اس عالم کی پیشانی پر شقی(بدبخت)لکھا ہے۔ آپ نے اپنے بیٹوں سے اس بات کا ذکر کردیا۔بیٹے استاد کی شفقت ومحبت کے باعث بضد ہوئے کہ حضرت مجدد ان کیلئے دعا فرمائیں کہ ان کی شقاوت سعادت سے بدل دی جائے۔ حضرت نے فرمایا!میں نے لوح محفوظ میں لکھا دیکھا ہے کہ یہ قضاء مبرم ہے جس کو بدلا نہیں جاسکتا۔ بیٹوں نے اصرار کیا تو فرمایا! مجھے یاد آیا کہ حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ میری دعا سے قضاء مبرم بھی بدل دی جاتی ہے اسلئے میں دعا کرتا ہوں، اے اللہ تیری رحمت وسیع ہے تیرا فضل کسی ایک پر ختم نہیں ہو جاتا میں پرامیدہو کر تیرے فضل وکرم کا طالب ہوں کہ تو ملاطاہر کی پیشانی سے شقاوت مٹا کر اس کی جگہ سعادت تحریر فرما۔ جیسے تو نے میرے آقا حضور غوث اعظم (رضی اللہ عنہ) کی دعا قبول فرمائی تھی۔ سبحان اللہ!حضرت مجدد الف ثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کی شقاوت سعادت سے بدل گئی۔ سبحان اللہ حضرت مجدد الف ثانی نے حضور غوث اعظم کو آقا کہہ کر ان کے وسیلے سے دعا فرمائی اور وہ قبول ہوئی یہ شان ہے حضرت پیران پیر دستگیر کی۔‘‘ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں!
کس گلستان کو نہیں فصل بہاری سے نیاز
کون سے سلسلے میں فیض نہ آیا تیرا
راج کس شہر میں کرتے نہیں تیرے خدام
باج کس نہر سے لیتا نہیں دریا تیرا
غوثیت کبریٰ :
سرکار غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے غوثیت کبریٰ کا منصب اور مقام تکوین عطا فرمایا،اسی لیے فرماتے ہیں،’’اگر میرا مرید مشرق میں کہیں بے پردہ ہوجائے اور میں مغرب میں ہوں تو بھی میں اسکی ستر پوشی کرتا ہوں‘‘۔(بہجۃ الاسرار)
نسبت قادریت :
حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،جو شخص خود کو میری طرف منسوب کرے اور مجھ سے عقیدت رکھے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماکر اس پر رحمت فرمائیگا اگر اسکے اعمال مکروہ ہوں تو اسے توبہ کی توفیق دے گا، ایسا شخص میرے مریدوں میں سے ہوگاا ور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ میرے مریدوں،میرے سلسلے والوں،میرے پیروکاروں اور میرے عقیدت مندوں کو جنت میں داخل فرمائے گا۔(اخبار الاخیار)
علم کے سمندر :
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ کے علمی کمالات کے متعلق ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ “ایک روز کسی قاری نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مجلس شریف میں قرآن مجید کی ایک آیت تلاوت کی تو آپ نے اس آیت کی تفسیر میں پہلے ایک معنی پھر دو اس کے بعد تین یہاں تک کہ حاضرین کے علم کے مطابق آپ نے اس آیت کے گیارہ معانی بیان فرمادیئے اورپھر دیگر وجوہات بیان فرمائیں جن کی تعداد چالیس تھی اور ہر وجہ کی تائید میں علمی دلائل بیان فرمائے اور ہر معنی کے ساتھ سند بیان فرمائی، آپ کے علمی دلائل کی تفصیل سے سب حاضرین متعجب ہوئے۔”(اخبارالاخيار، ص۱۱)
مشکل مسئلے کا آسان جواب :
بلاد ِعجم سے ایک سوال آیا کہ “ایک شخص نے تین طلاقوں کی قسم اس طور پر کھائی ہے کہ وہ اللہ عزوجل کی ایسی عبادت کرے گاکہ جس وقت وہ عبادت میں مشغول ہو تو لوگوں میں سے کوئی شخص بھی وہ عبادت نہ کر رہا ہو، اگر وہ ایسا نہ کرسکا تو اس کی بیوی کو تین طلاقیں ہو جائیں گی، تو اس صورت میں کون سی عبادت کرنی چاہئے؟‘‘ اس سوال سے علماء عراق حیران اور ششدر رہ گئے ۔ اور اس مسئلہ کو انہوں نے حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت اقدس میں پیش کیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فوراً اس کا جواب ارشاد فرمایا کہ “وہ شخص مکہ مکرمہ چلا جائے اور طواف کی جگہ صرف اپنے لئے خالی کرائے اور تنہا سات مرتبہ طواف کر کے اپنی قسم کو پورا کرے ۔” اس شافی جواب سے علماء عراق کو نہایت ہی تعجب ہوا کیوں کہ وہ اس سوال کے جواب سے عاجز ہوگئے تھے۔‘‘(اخبارالاخيار)
اولیاء کرام کی بشارتیں اور فرامین :
(1) شیخ شہاب الدین سہروردی فرماتے ہیں کہ شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ طریقت کے بادشاہ اور موجودات کے تصرف کرنے والے تھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو کرامات کا تصرف واختیار ہمیشہ حاصل رہا۔ امام عبد اللہ یافعی فرماتے ہیں کہ آپ کی کرامات حد تو اتر کو پہنچ گئی ہیں اور بالاتفاق سب کو اس کا علم ہے دنیا کے کسی شیخ میں ایسی کرامات نہیں پائی گئیں(اخبارالاخیار)۔
(2) حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں!’’قرب وولایت کا مرکزی منصب ائمہ اہل بیت سے منتقل ہوکر حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کو عطا ہوا اور آپ ہی کیلئے مخصوص کردیا گیا،ائمہ اہل بیت اور آپ کے درمیان کوئی اور اس مقام پر فائز نہ ہوا۔ پس راہ ولایت میں اقطاب اور نجباء سب آپ ہی کے ذریعہ فیض پاتے ہیں کیونکہ یہ مقام آپ کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔ اسی لیے آپ نے فرمایا!
افلت شموس الاولین وشمسنا
ابدا علی افق العلی لاتغرب
پہلے لوگوں کے سورج غروب ہوگئے لیکن میرا سورج ہمیشہ بلند آسمان پر چمکتا رہے گا اور کبھی غروب نہ ہوگا‘‘۔(مکتوبات،جلد۲)
سورج اگلوں کے چمکتے تھے چمک کر ڈوبے
افق نور پہ ہے مہر ہمیشہ تیرا
سارے اقطاب جہاں کرتے ہیں کعبہ کے طواف
کعبہ کرتا ہے طواف در والا تیرا
(3) امام المحدثین شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ اخبارالاخیار میں فرماتے ہیں!’’اگر دوسرے لوگ قطب ہیں تو یہ خلف صادق قطب الاقطاب ہیں اگر دوسرے لوگ سلطان ہیں تو یہ خلف صادق شہنشاہ سلاطین ہیں اور آپ کا اسم گرامی شیخ سید سلطان محی الدین عبد القادر جیلانی ہے جنہوں نے دین اسلام کو دوبارہ زندہ کیا اور طریقۂ کفار کو ختم کردیا اور نبی کریم ﷺ کا بھی یہی ارشاد ہے کہ الشیخ یحیی ویمیت۔شیخ کامل زندہ کرتا اور مارتا ہے‘‘۔
حکم نافذ ہے تیرا خامہ تیرا سیف تیری
دم میں جو چاہے کرے دور ہے شاہا تیرا
عرض احوال کی پیاسوں میں کہاں تاب مگر
آنکھیں اے ابر کرم تکتی ہیں رستا تیرا
امام المحدثین مزید فرماتے ہیں!شیخ کے مقام کا اس سے اندازہ کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ جو حی وقیوم ہے اس نے ہمیں اسلام عطا فرمایا اور غوث الثقلین نے اسے دوبارہ زندہ کیا۔ غوث الثقلین کے معنی ہی یہ ہیں کہ جنات اور انسان اسکی پناہ لیں،چنانچہ میں بیکس و محتاج بھی انہی کی پناہ کا طلبگار اور انہی کے دربار کا غلام ہوں مجھ پر انکاکرم اور عنایت ہے اور انکی مہربانیوں کے بغیر کوئی فریاد سننے والا نہیں ہے۔
آپ تمام اولیاء اللہ میں اس طرح منفرد ہیں جس طرح نبی اکرم ﷺ تمام انبیاء کرام علیم السلام میں نمایاں وممتاز ہیں یعنی دونوں جہاں میں میری امیدیں آپ کی ذات سے وابستہ ہیں،آپ ﷺ میری ہمیشہ کی امیدوں کے محور ہیں۔
مزید فرماتے ہیں،امید ہے کہ اگر کبھی راہ سے بھٹک جاؤں تو وہ راہبری کریں اور اگر ٹھوکر کھاؤں تو وہ مجھے سنبھال لیں،کیونکہ انہیں نے اپنے دوستوں کو یہ خوشخبری دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے لیے ایک رجسٹر بنادیا ہے جس میں میرے قیامت تک ہونے والے مریدوں کانام لکھا ہوا ہے۔ حکم الہٰی ہوچکا ہے کہ میں نے ان سب کی مغفرت فرمادی ہے کاش میرا نام بھی آپ کے مریدوں کے رجسٹر میں لکھا ہو،پھر مجھے کوئی غم نہ ہوگا کیونکہ میری خواہش کے مطابق میرا کام پورا ہوگیا ہے، میں نامراد بھی حضرت غوث الثقلین کا مرید بن گیا ہوں،قبول کرنا یا انکار کردینا یہ ان کے ہاتھ میں ہے میں ان کے طلب گاروں میں ہوں اور ان کا چاہنا ان کے اختیار میں ہے۔(اخبارالاخیار)
(4) جن مشائخ نے حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی قطبیت کے مرتبہ کی گواہی دی ہے “روضۃ النواظر” اور “نزہۃ الخواطر” میں صاحب ِکتاب ان مشائخ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: “آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے پہلے اللہ عزوجل کے اولیاء میں سے کوئی بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا منکر نہ تھا بلکہ انہوں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی آمد کی بشارت دی، چنانچہ حضرت سیدنا حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے زمانہ مبارک سے لے کر حضرت شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے زمانۂِ مبارک تک تفصیل سے خبردی کہ جتنے بھی اللہ عزوجل کے اولیاء گزرے ہیں سب نے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خبر دی ہے ۔ (سيرت غوث الثقلين، ص۵۸)
(5) آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’مجھے عالم غیب سے معلوم ہوا ہے کہ پانچویں صدی کے وسط میں سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اولادِ اطہار میں سے ایک قطبِ عالم ہوگا، جن کا لقب محی الدین اور اسم مبارک سید عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہے اور وہ غوث اعظم ہوگا اور جیلان میں پیدائش ہوگی ان کو خاتم النبیین، رحمۃٌ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اولادِ اطہار میں سے ائمہ کرام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے علاوہ اولین و آخرین کے ’’ہر ولی اور ولیہ کی گردن پر میرا قدم ہے۔‘‘ کہنے کا حکم ہوگا۔‘‘( سيرت غوث الثقلين، ص ۵۷)
(6) شیخ ابوبکر بن ہوارا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک روز اپنے مریدین سے فرمایا کہ “عنقریب عراق میں ایک عجمی شخص جو کہ اللہ عزوجل اور لوگوں کے نزدیک عالی مرتبت ہوگا اُس کا نام عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہوگا اور بغداد شریف میں سکونت اختیار کرے گا، قَدَمِيْ هٰذِهٖ عَلٰي رَقَبَةِ کُلِّ وَلِيِّ اللّٰهِ
یعنی میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے کا اعلان فرمائے گا اور زمانہ کے تمام اولیاء کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اس کے فرمانبردار ہوں گے۔”(بهجة الاسرار، ذکر اخبار المشايخ عنه بذالک، ص۱۴)
(7) حضرت شیخ ابو عبداللہ محمد بن خضررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والد فرماتے ہیں کہ ’’میں نے حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مدرسہ میں خواب دیکھا کہ ایک بڑا وسیع مکان ہے اور اس میں صحراء اور سمندر کے مشائخ موجود ہیں اور حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان کے صدر ہیں، ان میں بعض مشائخ تو وہ ہیں جن کے سر پر صرف عمامہ ہے اور بعض وہ ہیں جن کے عمامہ پر ایک طرہ ہے اور بعض کے دو طرے ہیں لیکن حضور غوث پاک شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے عمامہ شریف پر تین طرے (یعنی عمامہ پر لگائے جانے والے مخصوص پھندنے) ہیں۔ میں ان تین طُرّوں کے بارے میں متفکر تھا اور اسی حالت میں جب میں بیدار ہوا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میرے سرہانے کھڑے تھے ارشاد فرمانے لگے کہ ’’خضر!ایک طُرّہ علم شریعت کی شرافت کا اور دوسرا علم حقیقت کی شرافت کا اور تیسرا شرف و مرتبہ کا طُرّہ ہے۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکر علمه و تسمية بعض شيوخه رحمة الله تعالیٰ عليه، ص۲۲۶)
زیارت رسول اور آغاز دعوت :
حضرت غوث اعظم رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں نبی کریم ﷺ کی زیارت کی آپ ﷺ نے فرمایا، اے عبدالقادر! تم لوگوں کو گمراہی سے بچانے کے لئے وعظ کیوں نہیں کرتے؟ عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ میں عجمی ہوں اس لئے عرب کے فصحاء کے سامنے کیسے وعظ کروں؟ فرمایا اپنا منہ کھولو پھر حضور علیہ السلام نے میرے منہ میں سات بار اپنا لعاب دہن ڈالا اور فرمایا جاؤ اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے کی طرف بلاؤ۔ بعد ظہر جب آپ نے وعظ کاارادہ فرمایا تو کچھ جھجک طاری ہوئی حالت کشف میں دیکھا کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سامنے موجود ہیں اور فرما رہے ہیں منہ کھولو آپ نے تعمیل ارشاد کی تو باب علم وحکمت نے اپنا لعاب چھ بار آپ کے منہ میں ڈالا۔ عرض کی یہ نعمت سات بار کیوں عطا نہیں فرمائی، ارشاد فرمایا’’رسول معظم ﷺ کا ادب ملحوظ خاطر ہے‘‘۔ یہ فرماکر حضرت علی رضی اللہ عنہ غائب ہوگئے اور جب سرکار غوث اعظم نے خطاب فرمایا تو فصحائے عرب آپ کی فصاحت وبلاغت کو دیکھ کر حیران رہ گئے.
آپ نے شوال ۵۲۱ھ مطابق ۱۱۲۷ء کو محلہ حلبہ براینہ میں آپ نے وعظ کا آغاز فرمایا۔ (بہجۃ الاسرار؍ ص۹۰)
بغداد کے محلہ باب الزج میں حضرت شیخ ابو سعید مخزومی کا ایک مدرسہ تھا جو انہوں نے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سپرد کردیا۔
آپ کے قدومِ میمنت لزوم سے طلبا کا اس قدر ازدحام ہوا کہ قدیم عمارت ناکافی ہوگئی تو بغداد کے علم دوست حضرات نے اسے وسعت دے کر شاندار نئی عمارت تیار کرائی۔ ۵۲۸ھ مطابق ۱۱۳۴ء میں یہ مدرسہ پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی نسبت سے مدرسۂ قادریہ مشہور ہوا۔ (قلائد الجواہر، ص:۵)
آپ نے وعظ وتبلیغ کا سلسلہ (۵۲۱ھ مطابق ۱۱۶۶ء) تک جاری رکھا اس طرح آپ نے چالیس سال تبلیغ اور تینتیس سال تدریس وافتا کے فرائض انجام دیے۔ (زبدۃ الآثار، ص:۳۹)
وعظ و تبلیغ :
سیدنا غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہفتے میں تین دن خطاب فرماتے جمعہ کی صبح، منگل کی شام اور اتوار کی صبح۔ طریقہ یہ تھا کہ پہلے قاری صاحب قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے اس کے بعد حضرت خطاب فرماتے، کبھی سید مسعود ہاشمی تلاوت کرتے کبھی دوسرے دو حضرات تلاوت کرتے جو دونوں بھائی تھے۔ تلاوت سادہ انداز میں لحن کے بغیر ہوتی۔حضرت غوثِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ابتدأً مجھ پر وعظ وتقریر کا اس قدر غلبہ ہوتا کہ خاموش رہنا میری طاقت سے باہر ہوجاتا، میری مجلس میں دو یا تین آدمی سننے والے ہوتے مگر میں نے سلسلۂ کلام جاری رکھا پھر لوگوں کا ہجوم اس طرح بڑھا کہ جگہ تنگ ہوگئی پھر عیدگاہ میں خطاب شروع کیا وہ بھی ناکافی ہوئی تو شہر سے باہر کھلے میدان میں اجتماع ہونے لگا اور ایک ایک مجلس میں ستر ہزار کے قریب سامعین جمع ہونے لگے۔ چار سو افراد قلم ودوات لے کر آپ کے ملفوظات جمع کرتے تھے۔ ( سالنامہ اہل سنت کی آواز ۲۰۰۷ء، ص۸۲ بحوالہ اخبار الاخیار فارسی: ص؍۱۲)
مشائخ سے منقول ہے کہ حضرت شیخ جیلانی جب وعظ کے لیے منبر پر بیٹھ کر الحمد ﷲ کہتے تو روئے زمین کا ہر غائب وحاضر ولی خاموش ہوجاتا اسی لیے آپ یہ کلمہ مکرر کہتے اور اس کے درمیان کچھ سکوت فرماتے، بس اولیا اور ملائکہ کا آپ کی مجلس میں ہجوم ہوجاتا۔ جتنے لوگ آپ کی مجلس میں نظر آتے ان سے کہیں زیادہ ایسے حاضرین ہوتے جو نظر نہیں آتے تھے۔ (ایضاص۲۹۴)
حضرت شیخ عموماً عربی زبان میں خطاب فرماتے لیکن بعض اوقات فارسی میں بھی خطاب فرماتے اسی لیے آپ کو ذوالبیانین واللسانین اور امام الفریقین کہتے ہیں۔ (اخبار الاخیار ص؍۲۰)
آپ کی کرامت یہ تھی کہ دور ونزدیک کے لوگ یکساں طور پر آپ کی آواز سنتے تھے۔ (زبدۃ الآثار ص؍۵۷)
وعظ کی اثر انگیزی :
آپ کا وعظ بہت اثر انگیز ہوتا تھا۔ آپ کی زبانِ مبارک میں ایسی روانی اور طاقت تھی کہ مضامین کا ایک سیل رواں ہوتا جو آپ کے دہنِ مبارک سے نکلتا چلا جاتا۔ تاثیر ایسی کہ پتھر دل بھی موم ہوجاتے، سیاہ کار تائب ہوتے، کفر کی آلودگی میں لتھڑے لوگ سرچشمۂ اسلام کے قریب آکر شفاف ہوجاتے، لوگوں پر ایسی کیفیت طاری ہوتی کہ بے حال ہوجاتے اور بہت سے لوگ مرغِ بسمل کی مانند تڑپنے لگتے اور بعض تو وہیں جاں بحق ہوجاتے۔
شیخ عمر کیسانی کا بیان ہے کہ آپ کی کوئی مجلس ایسی نہیں ہوتی تھی جس میں کچھ یہودونصاریٰ اسلام نہ قبول کرتے ہوں چور، ڈاکو اور بدمعاش لوگ اپنے جرائم سے توبہ نہ کرتے ہوں اور رافضی وغیرہ اپنے غلط عقائد سے توبہ نہ کرتے ہوں۔
ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ ایک عیسائی راہب آپ کی مجلس میں آیا اور مسلمان ہوگیا اس نے لوگوں کو بتایا کہ میں یمن کا باشندہ ہوں میرے دل میں اسلام قبول کرنے کی لگن پیدا ہوئی لیکن میں نے عہد کرلیا کہ میں اس شخص کے ہاتھ پر اسلام لاؤں گا جو دنیا بھر کے مسلمانوں سے افضل ہوگا چنانچہ میں اکثر اسی فکر میں محو رہتا تھا۔ ایک دن میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمارہے ہیں کہ تم بغداد کی طرف چلے جاؤ اور شیخ عبدالقادر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلو کیوں کہ وہ اس زمانے میں سب سے بہتر ہیں۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے ہاتھ پر پانچ ہزار سے زیادہ یہودونصاریٰ تائب ہوکر مشرف باسلام ہوئے۔ رہزنوں اور فسق وفجور میں ملوث افراد جنہوں نے میرے ہاتھوں پر توبہ کی ان کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔آپ کی ہر مجلس میں کوئی نہ کوئی یہودی یا عیسائی مشرف باسلام ہوتا، ڈاکو، قاتل اور دیگر جرائم پیشہ اور بدعقیدہ لوگ تائب ہوتے۔ (قلائد الجواہر، ص؍۱۸،۱۹)
اسلوبِ خطابت :
سیدنا غوثِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ خطبات میں عموماً سادہ اور عام فہم باتیں ارشاد فرماتے لیکن کبھی کبھی آپ کا دریائے علم موجزن ہوتا تو عالمانہ ومحققانہ نکات بیان فرماتے اور آیتوں کی ایسی تفسیر سناتے کہ بڑے بڑے علما بھی انگشت بدنداں ہوجاتے۔ آپ دینِ متین کی تعلیمات کو بہت پرکشش اور مؤثر انداز مین بیان فرماتے بعض اوقات صحابۂ کرام اور اولیائے عظام کے ارشادات بھی زیبِ سخن بنتے۔آپ پر بغداد کی معاشرتی، سماجی اور دینی زندگی کی بگڑتی ہوئی حالت پوشیدہ نہیں تھی۔ ظلم وستم، جبر واستبداد، تن آسانی اورعیش وطرب میں ڈوبی زندگی کو ہلاکت کے بھنور سے نکال لانا ہی آپ کا مقصد ِاصلی تھا اور اسی لیے آپ نے بغداد کو اپنی دعوت وتبلیغ کا مرکز بنایا۔ بڑے بڑے لوگوں کو ان کی برائیوں پر بے دھڑک ٹوکتے اور ان کی اصلاح کی طرف توجہ فرماتے تھے اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ آپ منجانب اﷲ ایک داعی ومبلغ کی حیثیت سے دنیا میں منتخب فرمائے گئے تھے۔
دعوتی اسلوب کے چند نمونے :
آپ نے اس وقت کے ظالموں، عالموں، صوفیوں، فقیہوں سے خطاب فرمایا۔ ان کے مواعظ سے چند اقتباسات نذرِ قارئین ہیں۔
(۱) اے لوگو! تم رمضان میں اپنے نفسوں کو پانی پینے سے روکتے ہو اور جب افطار کا وقت آتا ہے تو مسلمانوں کے خوف سے افطار کرتے ہو اور ان پر ظلم کرکے جو مال حاصل کیا ہے اسے نگلتے ہو۔
(۲) اے لوگو! افسوس کہ تم سیر ہوکر کھاتے ہو اور تمہارے پڑوسی بھوکے رہتے ہیں اور پھر دعویٰ یہ کرتے ہو کہ ہم مومن ہیں، تمہارا ایمان صحیح نہیں دیکھو ہمارے نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے سائل کو دیا کرتے تھے، اپنی اونٹنی کو چارہ ڈالتے، اس کا دودھ دوہتے اور اپنی قمیص سیا کرتے۔ تم ان کی متابعت کا دعویٰ کیسے کرتے ہو جب کہ اقوال وافعال میں ان کی مخالفت کررہے ہو۔
آپ نے اس وقت کے مولویوں، فقہیوں اور زاہدوں کو مخاطب کر کے فرمایا:
(۱) اے مولویو اور فقیہو، زاہدو، عابدو، اے صوفیو! تم میں کوئی ایسا نہیں جو توبہ کا حاجت مند نہ ہو ہمارے پاس تمہاری موت اور حیات کی ساری خبریں ہیں۔ سچی محبت جس میں تغیر نہیں آسکتا وہ محبت ِالٰہی ہے جس کو تم اپنے دل کی آنکھوں سے دیکھتے ہو اور وہی محبت روحانی صدیقوں کی محبت ہے۔
(۴) یا الٰہی تو منافقوں کی شوکت کو توڑ دے اور ان کو ذلیل فرما۔ ان کو توبہ کی توفیق عطا فرما اور ظالموں کا قلع قمع فرمادے زمین کو ان سے پاک فرمادے یا ان کی اصلاح فرما۔ (اقتباسات از :الفتح الربانی)
غوث اعظم کااندازِ تبلیغ اورعصرِ حاضر :
آج جس قدر حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی کرامت کو بیان کیا جاتا ہے اور ہمارے مبلغین وخطبا حضرات اپنے خطبوں میں زورِبیانی کے ساتھ پیش کرتے ہیں اس سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا جو ہونا چاہیے۔
اگر عوام کے سامنے آپ کے ان اقدامات ومساعیِ مشکورہ کو جو احیائے دین کے لیے آپ نے کی ہیں ،پیش کیا جائے تو اس سے دو فائدے ہوں گے
اول تو وہ حضرات جو صرف اور صرف آپ کو کرامت تک ہی محدود جانتے ہیں ان کی معلومات میں اضافہ ہوگا
دوم ہماری عوام اور خواص کے اندر جذبۂ تبلیغ بھی پیدا ہوگا جس سے آج بھی گمراہ انسانوں کو راہِ ہدایت نصیب ہوسکتی ہے بشرطیکہ آج کے مبلغین اور داعیانِ اسلام کی تبلیغ کا طرز وانداز سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی تبلیغ کی طرح ہو۔
حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے شریعت کے تنِ بے جان میں دوبارہ جان ڈال دی اور آپ کی دعوت وتبلیغ نے ہزاروں بھٹکے ہوئے انسانوں کو منزلِ مقصود سے ہم کنار کردیا جس کی وجہ سے آپ کا لقب ’’محی الدین‘‘ مشہور ومعروف ہوگیا۔ آپ کے اسلوبِ دعوت وتبلیغ اور خطبات سے زمانہ آج بھی فیض یاب ہورہا ہے اور قیامت تک ان شاء اللہ ہوتا رہے گا۔
بزرگوں کے تین اشعار بارگاہ غوثیت میں بصد ادب :
غوث اعظم درمیان اولیاء.. چوں محمد درمیان انبیاء
سگ درگاہ میراں شو چوں خواہی قرب ربانی
کہ بر شیراں شرف دارد سگ درگاہ جیلانی
یا غوث معظم نور ہدی مختار نبی مختار خدا
سلطان دوعالم قطب عُلا ،حیراں ز جلالت ارض و سما