دہلی کی شام ہمیشہ اپنی رنگینیوں اور رونقوں کے لیے مشہور رہی ہے، مگر لال قلعہ کی دیواروں کے پیچھے چھپی کہانیاں آج بھی وہ راز ہیں جو صدیوں سے وقت کے پہلو میں چپ چاپ دبے بیٹھے ہیں۔ ان دیواروں میں تاریخ کی گونجتی صدائیں، محبت کی خاموش پکار اور جنگوں کے آثار چھپے ہیں۔
ہر شام لال قلعہ کی دیواروں کے سائے تلے لوگوں کا ہجوم جمع ہوتا ہے۔ کچھ سیاح ہوتے ہیں، جو اپنے کیمروں میں ان یادگار لمحات کو قید کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور کچھ دہلی کے مقامی لوگ، جو روزمرہ کی تھکن کو ان تاریخی دیواروں کے سائے میں اتارتے ہیں۔ مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان دیواروں میں ایک چھپی ہوئی دنیا آباد ہے، ایک دنیا جو صرف رات کے وقت جاگتی ہے۔
رات کی تاریکی میں جب لال قلعہ کے اطراف خاموشی چھا جاتی ہے، تو ان دیواروں کی سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان دیواروں کے اندر ایک ایسا کمرہ ہے جس تک آج تک کوئی نہیں پہنچ سکا۔ وہ کمرہ نہ جانے کتنی صدیوں سے بند پڑا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ اس میں وہ تمام راز موجود ہیں جو کبھی لال قلعہ کے بادشاہوں اور ان کے وفاداروں نے دنیا سے چھپائے تھے۔
ایک رات کا واقعہ ہے، جب زینب اور اس کا دوست عمران ان دیواروں کے بارے میں سن کر لال قلعہ آئے۔ زینب کو ہمیشہ سے پرانے قلعوں اور ان کی تاریخ میں دلچسپی تھی، اور عمران کو ایڈونچر کا شوق تھا۔ وہ دونوں اس رات قلعہ کے پیچھے کے علاقے میں جا پہنچے جہاں کم ہی لوگ جاتے ہیں۔
"کیا تم نے سنا ہے کہ اس دیوار کے پیچھے ایک خفیہ دروازہ ہے؟” زینب نے شرارتی انداز میں کہا۔
عمران نے قہقہہ لگایا، "خفیہ دروازہ؟ اور کیا وہاں کوئی جن یا پری بھی ہوگی؟”
"مذاق مت اڑاؤ، عمران! تاریخ کی کتابوں میں اس جگہ کا ذکر ہے۔ کہتے ہیں کہ اس خفیہ کمرے میں ایک ایسا خزانہ ہے جو لال قلعہ کے بادشاہ نے جنگ کے دوران چھپایا تھا۔”
عمران کو زینب کی باتوں پر ہنسی آئی، مگر اندر سے وہ بھی تھوڑا تجسس محسوس کر رہا تھا۔ وہ دونوں آہستہ آہستہ دیوار کے قریب گئے اور وہاں چھپے ہوئے دروازے کی تلاش کرنے لگے۔ کافی دیر تک دیواروں کو ٹٹولنے کے بعد، زینب نے ایک جگہ پر انگلی رکھی۔
"یہ دیکھو!” زینب کی آواز میں حیرت تھی۔
دیوار میں ایک جگہ ہلکی سی اندر کو دھنس رہی تھی، جیسے کوئی خفیہ بٹن ہو۔ عمران نے آگے بڑھ کر اس جگہ کو زور سے دبایا، اور اچانک ایک چھوٹا سا دروازہ کھل گیا۔
"میں نے کہا تھا نا!” زینب نے خوش ہو کر کہا، "چلو، اندر چلتے ہیں!”
دونوں نے دل مضبوط کیا اور اندر داخل ہو گئے۔ اندر ایک تنگ سرنگ تھی جو نیچے کی طرف جا رہی تھی۔ وہ سرنگ میں چلتے گئے، اور آگے بڑھتے گئے۔ اندھیرا گھپ تھا، مگر سرنگ کی ہوا میں ایک پراسرار خوشبو بسی ہوئی تھی۔ آخر کار وہ ایک بڑے کمرے میں پہنچے، جس کی دیواریں چمکتے ہوئے پتھروں سے مزین تھیں۔
کمرے کے بیچوں بیچ ایک بڑا سا صندوق رکھا تھا۔ زینب اور عمران کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔
"یہ کیا ہو سکتا ہے؟” عمران نے سرگوشی کی۔
زینب نے صندوق کے قریب جا کر اسے کھولا، اور اندر کا منظر دیکھ کر حیران رہ گئی۔ صندوق میں سونے چاندی کا خزانہ نہیں تھا، بلکہ پرانے خط اور کتابیں تھیں۔ ان خطوں میں لال قلعہ کے بادشاہوں کے راز، محبت کی داستانیں، اور وہ کہانیاں تھیں جو کبھی دنیا کے سامنے نہیں آئیں۔
زینب نے ایک خط اٹھایا اور پڑھنے لگی، "یہ خط ایک بادشاہ نے اپنی محبوبہ کے نام لکھا ہے، جو اس جنگ میں کھو گئی تھی۔”
عمران نے مسکراتے ہوئے کہا، "لگتا ہے ہمیں خزانے سے بھی زیادہ قیمتی چیز مل گئی ہے۔”
اس رات زینب اور عمران کو لال قلعہ کی دیواروں کا وہ راز مل گیا جو صدیوں سے ان دیواروں کے پیچھے چھپا ہوا تھا۔ وہ خزانہ نہیں، بلکہ محبت، درد اور جذبات کی وہ کہانیاں تھیں جو کبھی مرنے والی نہیں۔
زینب اور عمران ابھی تک حیرت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ان خطوں اور دستاویزات میں صرف محبت کی داستانیں ہی نہیں، بلکہ لال قلعہ کے بانی، شاہجہان کی زندگی اور حکومت کے راز بھی چھپے تھے۔ وہ دونوں جب مزید خط کھولنے لگے، تو ایک خاص خط پر زینب کی نظر پڑی۔ خط کے کونے پر سنہری مہر لگی ہوئی تھی، جس پر شاہجہان کا نام کندہ تھا۔
"یہ تو شاہجہان کا خط ہے!” زینب نے حیرت سے کہا، "شاید یہ وہ خط ہو جو اس نے اپنی بیوی ممتاز محل کے لیے لکھا ہو، یا شاید کسی اور خاص موقع کے لیے۔”
عمران نے خط اٹھایا اور پڑھنے لگا:
"محبوبہ ممتاز کے بعد کی کہانی”
"محبوبہ، ممتاز محل، دنیا چھوڑ چکی تھی، اور میں تنہا رہ گیا تھا۔ ہر طرف میری حکومت تھی، مگر دل کے اندر ایک سنّاٹا تھا۔ لال قلعہ کی یہ عظیم دیواریں، جو میں نے اپنی عظمت کے نشان کے طور پر تعمیر کی تھیں، اب ایک قید خانے کی مانند لگنے لگی تھیں۔ ہر شام جب سورج غروب ہوتا، تو میں ان دیواروں کے سائے میں بیٹھ کر تمہاری یادوں میں کھو جاتا۔ یہ دیواریں میرے دل کی وہی گواہ ہیں جو میری محبت، میری خوشیوں اور میرے غموں کا رازدار ہیں۔
مجھے یاد ہے وہ دن جب ہم پہلی بار ان دیواروں کے سائے میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ تمہاری ہنسی ان دیواروں پر گونجتی تھی، اور میں خود کو دنیا کا سب سے خوش قسمت بادشاہ سمجھتا تھا۔ لیکن اب ان دیواروں کے سائے میں تمہاری غیر موجودگی کا احساس میرے دل کو تڑپاتا ہے۔ میں نے تاج محل تمہارے نام پر بنایا، مگر یہ لال قلعہ تمہاری موجودگی میں ہی مکمل تھا۔
میری محبت کی کہانی صرف تاج محل کی سفید سنگِ مرمر کی دیواروں میں ہی نہیں، بلکہ ان لال قلعہ کی دیواروں میں بھی محفوظ ہے۔ ان دیواروں نے ہماری خوشیوں اور خوابوں کو دیکھا ہے، اور اب یہ میری تنہائی کا بھی گواہ ہیں۔”
عمران اور زینب خاموش ہو گئے۔ شاہجہان کا یہ خط صرف ایک بادشاہ کا اپنے پیار کا اظہار نہیں تھا، بلکہ یہ اس کی زندگی کا وہ پہلو تھا جو تاریخ کی کتابوں میں شاید کبھی نہ لکھا گیا۔
زینب نے سرگوشی میں کہا، "لوگ شاہجہان کو ایک عظیم بادشاہ کے طور پر جانتے ہیں، مگر یہ خط اس کی انسانیت اور محبت کی گہرائیوں کو ظاہر کرتا ہے۔”
عمران نے اثبات میں سر ہلایا، "شاید یہی وجہ ہے کہ اس نے لال قلعہ اور تاج محل جیسے یادگار مقامات بنائے۔ یہ صرف طاقت کے نشان نہیں، بلکہ اس کے دل کی جذباتی کیفیت کے آئینے ہیں۔”
زینب اور عمران نے شاہجہان کے اس خط کو احتیاط سے واپس رکھا، جیسے وہ ایک قیمتی خزانہ ہو۔ اب ان کے لیے لال قلعہ صرف ایک تاریخی یادگار نہیں رہا تھا، بلکہ ایک زندہ داستان بن چکا تھا۔
اچانک، ایک پرانی سی آواز نے انہیں چونکا دیا۔ وہ آواز کسی بزرگ کی تھی، جو کمرے کے ایک کونے سے آ رہی تھی۔ دونوں نے مڑ کر دیکھا تو ایک بوڑھا آدمی سامنے کھڑا تھا، جو پرانے لباس میں ملبوس تھا، اور اس کی آنکھوں میں وقت کی بے شمار کہانیاں چھپی ہوئی تھیں۔
"تم دونوں یہاں کیا کر رہے ہو؟” بزرگ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
عمران نے جلدی سے جواب دیا، "ہم صرف ان خطوں کو دیکھنے آئے تھے۔ آپ کون ہیں؟”
بوڑھے شخص نے گہری سانس لی اور کہا، "میں ان دیواروں کا ایک پرانا نگہبان ہوں۔ صدیوں سے یہ دیواریں میری صحبت میں ہیں۔ جو کہانیاں تم نے ابھی دیکھی ہیں، وہ صرف خطوں میں نہیں، بلکہ ان دیواروں میں چھپی ہوئی ہیں۔ شاہجہان کی محبت، اس کی تنہائی، اس کی عظمت—سب ان دیواروں نے دیکھا ہے۔”
زینب نے حیرانی سے کہا، "کیا واقعی ان دیواروں میں اتنے راز چھپے ہیں؟”
بوڑھے شخص نے مسکراتے ہوئے کہا، "ہاں، یہ دیواریں صرف اینٹوں اور پتھروں کا مجموعہ نہیں، بلکہ ان میں وہ تمام جذبات قید ہیں جو بادشاہوں، ملکہوں، سپاہیوں، اور محبت کرنے والوں نے یہاں چھوڑے ہیں۔”
زینب اور عمران نے اس بوڑھے شخص کے ساتھ مزید کچھ دیر گفتگو کی۔ جیسے جیسے رات گہری ہوتی گئی، ان پر لال قلعہ کی دیواروں کی اہمیت اور بھی واضح ہوتی گئی۔ یہ دیواریں صرف ماضی کی گواہ نہیں تھیں، بلکہ آج بھی ان میں زندگی کی کہانیاں سانس لے رہی تھیں۔
اگلی صبح جب سورج کی پہلی کرن لال قلعہ کی دیواروں پر پڑی، تو عمران اور زینب اس سفر سے لوٹے۔ وہ جان چکے تھے کہ تاریخ کے یہ نشان صرف ظاہری عظمت کے لیے نہیں، بلکہ وہ ان تمام احساسات، یادوں، اور جذبات کے امین ہیں جو وقت کی دھند میں کھو چکے ہیں۔
اختتام
لال قلعہ کی دیواریں آج بھی ویسے ہی کھڑی ہیں، جیسے صدیوں پہلے کھڑی تھیں۔ لیکن ان میں چھپی کہانیاں اور جذبات ان لوگوں کے لیے ہمیشہ زندہ رہیں گے، جو ان دیواروں کی خاموش سرگوشیوں کو سننے کا ہنر رکھتے ہیں۔ شاید آپ بھی کبھی ان دیواروں کے پاس جائیں، اور ان کی گہرائیوں میں کھو جائیں—کیونکہ یہ دیواریں اب بھی رازدار ہیں، اور ان کے پاس ہر آنے والے کے لیے ایک نئی کہانی ہوتی ہے۔
افسانہ نگار: واللیل خان بن عمران