فقہ و فتاویٰ

فقہ و افتا کی اہمیت اور آج کل کے مصنوعی مفتی

تحریر: محمد امیر حسن امجدی رضوی، جھانسی

فتویٰ لغت میں اسمِ مصدر ’اِفْتَاءَ‘ کے معنیٰ میں ہے اور اس کی جمع ’فَتَاوَیٰ‘ اور ’فتاوِی‘ ہے۔ ’اَفْتَیْتَهُ فَتْوَیٰ وَ فُتْیاً‘ یعنی جب تم اسے مسئلے کے بارے میں جواب دو۔ فتویٰ مشکل احکام کو واضح کرنے کا نام ہے، جیسے کہتے ہیں ’تَفَاتَوْا اَلیٰ فَلاَنِ‘ یعنی اس کے پاس معاملہ لے گئے یا اس کے پاس فتویٰ دریافت کرنے کے لیے گئے۔
(ابنِ منظور، لسان العرب، 15: 147، تهذیب اللغة، 14: 234، بیروت،)
افتاء کا معنیِ لغوی ہے جواب دینا، اور اصطلاح میں افتاء کا معنیٰ ہے حکم مسئلہ اور شرعی فیصلہ صادر کرنا۔جیساکہ حضرت سید میر شریف جرجانی علیہ الرحمہ فرماتےہیں:
” الافتاء بیان حکم المسئلة،، حکم مسئلہ کے بیان کو افتا کہتے ہیں، اور حضرت علامہ ابنِ عابدین شامی قدس سرہ السامی فرماتےہیں:
” الافتاءفانہ افادة الحکم الشرع،، یعنی شرعی فیصلہ سے آگاہ کرنے کو افتاء کہتے ہیں ۔
ابراہیم مصطفیٰ اپنی لغت کی کتاب المعجم الوسیط میں لکھتے ہیں:
” أَفْتَى: فِيْ الْمَسْأَلَةِ أَبَانَ الْحُكْمَ فِيْهَا،، . افتاء: یعنی کسی مسئلہ میں اس کا حکم ظاہر کرنا۔
” اَلْفَتْوَى: اَلْجَوَابُ عَمَّا يُشْكِلُ مِنَ الْمَسَائِلِ الشَّرْعِيَّةِ أَوِ الْقَانُوْنِيَّةِ،، . فتویٰ سے مراد وہ جواب ہے جو کسی مشکل، شرعی یا قانونی مسئلہ میں دیا جاتا ہے۔ (المعجم الوسيط، 2: 673، دار الدعوة)
افتاء کی افادیت و اہمیت، عظمت و حرمت قرآنِ مقدس کی ان آیات سے خوب واضح ہے اللہ جل و علا فرماتاہے:” يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلاَلَةِ.
اے محبوب! لوگ آپ سے فتویٰ (یعنی شرعی حکم) دریافت کرتے ہیں تم فرمادو کہ اللہ تمہیں کلالہ کے بابت فتویٰ دیتاہے۔(النساء، 4: 176)

اور ایک مقام پر فرمایا ہے:
” يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ،، .
لوگ آپ سے حرمت والے مہینے میں جنگ کا حکم دریافت کرتے ہیں۔(البقرة، 2: 217)
اور ارشاد ہے:” وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ،، اور تم سے پوچھتے ہیں حیض کا حکم، تم فرماؤ کہ وہ ناپاکی ہے تو عورتوں سے دور ہو ایامِ حیض میں،، ۔ (البقرة: 222)

قرآنِ مجید نے خوابوں کی تعبیر بتانے کو بھی فتویٰ کے حکم میں لیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
” يَا أَيُّهَا الْمَلأُ أَفْتُونِي فِي رُؤْيَايَ إِن كُنتُمْ لِلرُّؤْيَا تَعْبُرُونَ ،، .
اے درباریو! مجھے میرے خواب کا جواب بیان کرو اگر تم خواب کی تعبیر جانتے ہو۔ (يُوْسُف، 12: 43)
مذکورہ بالا تصریحات کی رو سے واضح ہوتا ہے کہ فتویٰ شرعی مفہوم میں سوالات کا دلائلِ شرعی کی روشنی میں جواب دینے کا نام ہے۔ یہ سوالات قدیم و جدید سب کو شامل ہے اور فتویٰ زبانی و تحریری دونوں صورتوں میں ہوسکتا ہے۔

فتویٰ کی ابتداء اور ضرورت و اہمیت آج کوئی نئی نہیں بلکہ فتویٰ کی تاریخ اُتنی ہی قدیم ہے جتنا کہ انسان خود ہے۔ ہر نبی اپنی اپنی امت کو ان کے شرعی سوالات کے جوابات دیتا رہا ہے۔ انبیاء کا سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اختتام پذیر ہوا تو فتویٰ کی ذمہ داری راسخ العلم افراد کے سپرد ہو گئی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
” وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ ،، .
اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم نے آپ سے پہلے (بھی) مَردوں کو ہی (رسول بنا کر) بھیجا تھا ہم ان کی طرف وحی بھیجا کرتے تھے (لوگو!) تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تم (خود) نہ جانتے ہو۔
(الْأَنْبِيَآء، 21: 7)
اللہ عزوجل نے اپنے حبیبِ پاک صاحبِ لولاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو منصبِ افتا سے سرفراز فرمایا اس کے بعد آپ کے جانثار اصحاب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اس منصب جلیلہ عظیمہ پر فائز و متمکن ہوئے جن حضرات نے یہ ذمہ داری سنبھالی ان کی تعداد 130 سے زائد بتائی جاتی ہے :
” وَاَلَّذِينَ حُفِظَتْ عَنْهُمْ الْفَتْوَى مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِائَةٌ وَنَيِّفٌ وَثَلَاثُونَ نَفْسًا،، . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جن اصحاب سے فتاوی منقول ومحفوظ ہیں، ان کی تعداد ایک سو تیس (130) سے کچھ زائد ہے۔
دور صحابہ سے لیکر عہدِ تابعین تک جو بھی منصب فقہ و افتاء پر فائز ہوئے سب کے سب مجتھد اور مفتیِ مطلق تھے اور اقتضائے زمانہ کے ساتھ لوگوں کو درپیش نوپید مسائل کے حل کرنے کے لئے مفتی کا ایک طرح کے اجتھاد سے متصف اور احوالِ ناس سے باخبر ہونا بھی لازم و لابد ہے جیساکہ حضرتِ علامہ شامی قدس سرہ السامی فرماتے ہیں:” التحقیق ان المفتی فی الوقائع لابد لہ من ضربِ اجتھاد و معرفة باحوال الناس،،

سنن ابوداؤد میں ہے: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجنے کا ارادہ کیا تو ارشاد فرمایا: جب تمہارے سامنے مقدمہ پیش ہوگا تو کیسے فیصلہ کرو گے؟ آپ رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے کہ اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اللہ کی کتاب میں بھی نہ پاؤ؟ آپ رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں نہ پاؤ اور نہ ہی اللہ کی کتاب میں تو تب؟ آپ رضی اللہ عنہ نے عرض کی:
” أَجْتَهِدُ رَأْيِي وَلَا آلُو. فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وآله وسلم صَدْرَهُ وَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ،، .
میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور حقیقت تک پہنچنے میں کوتاہی نہ کروں گا۔ تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سینے کو تھپکا کر فرمایا: خدا کا شکر ہے جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھیجے ہوئے شخص کو اس چیز کی توفیق بخشی جو اللہ کے رسول کو خوش کر دے۔ (أبو داود، السنن، كتاب الأقضية، باب اجتهاد الرأي في القضاء، 3: 303، رقم: 3592)

کار افتاء تمام دینی کاموں میں سب سے زیادہ اہم، نازک اور دشوار ہے۔ سب سے زیادہ آسان تقریر اور اس سے مشکل تدریس اور اس سے مشکل تصنیف و تالیف اور اس سے کہیں زیادہ مشکل کٹھن افتاء کا کام ہے ۔ لیکن فی زماننا لوگ اس فن عظیم اور امر متعسر کو بہت آسان سمجھنے لگے ہیں اور ہر کس و ناکس فتویٰ دیتا پھر رہا ہے، ہر کوئی اپنے آپ کو مفتی کہلوانے میں کوشاں ہے،جسے فقہ و افتا کا معنیٰ تک نہیں معلوم وہ بھی اپنےآپ کو بڑےطمطراق اور فخریہ انداز میں مفتی لکھ رہاہے، اور حدتویہ ہےکہ ماسبق میں گزارا حوالہ جس کی طرف محرر "المرجع السابق،، یا "المصدر السابق،، جیسے الفاظ لکھ کر کسی عبارت کے تحت اشارہ کرتاہے اس کے مطلب سے تک نا واقف ہوتے ہیں مگر ” خود کو خادم الافتا،، و ” صدر شعبہء افتا گردانتے پھر رہے ہیں ،شوشل میڈیا پر تو جیسےفتویٰ بازوں کی بالکل بھر مار ہے جسے دیکھو وہی فتویٰ دے رہاہے اور بڑے فخر سے نیچے لکھتاہے کتبہ :فلاں ۔۔۔ کتبہ: فلاں۔۔۔ اور یہی نہیں بلکہ کچھ لوگ تو صاحبِ فتویٰ مفتیانِ کرام سے مسئلہ دریافت کرتے ہیں جواب مل جانے پر اسے کاپی پیسٹ کرکے مفتی صاحب کا نام ہٹاکر اپنا نام لکھ کر شائع کرتےہیں اور اپنے متعلقین میں خود کو قابل باور کرانے میں لگے رہتےہیں اور اسی پر بس نہیں بلکہ کچھ حضرات تو مفتی صاحب سے بھی بڑھ کر مفتی بننے کی کوشش کرتے ہیں اور مفتی صاحب کے فتوے میں ان کے نام کے نیچے ” الجواب الصحیح، یا "الجواب صحیح،، وغیرہ اس طرح کے الفاظ لکھتے ہیں اور تصحیح و تصدیق میں اپنا نام خوب واضح انداز میں لکھ کر اسے اپنے شناساؤں میں ارسال کرکے یہ بتانا چاہتےہیں کہ وہ کتنے قابل ہیں کہ مفتی صاحب جیسے حضرات بھی ان سے اپنے فتوؤں کی تصدیق کراتے ہیں ۔
اور بعض یہ بھی کرتے ہیں کہ دوسرے کا لکھا فتویٰ چوری کرکے اس میں الفاظ کی معمولی ترمیم و تنسیخ کرکے، کہیں سائل کا نام حذف کر تو، کہیں نام میں ترمیم کرکے، تو کہیں کچھ کہیں کچھ جہاں جو جیسا موقع ہاتھ لگا رد و بدل کرکے ادھر ادھر پوسٹ کرنے میں لگے رہتے ہیں ،اور آج کل تو یہ بھی بہت عام ہوگیا ہے کہ ہر مدرسہ والے دار الافتا کا بورڈ لگا کر کسی کو بھی مفتی بنا کر بٹھا دیتے ہیں اور کچھ تو بقلم خود بن جاتےہیں جسے دیکھو مفتی صاحب ہوگئے ہیں حالانکہ کار افتاء سے انہیں دور تک واسطہ نہیں ہوتا اور بعض کو اگر مفتی نہ کہا جائے تو برہم ہوجاتے ہیں اور بعض تو مفتیانِ کرام کی اصلاح میں کوشاں ہوکر مفتی بننا چاہتے ہیں، گویا کہ ہر طرح کے لوگ ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو حضرات واقعتاً مفتی ہیں اور افتاء کا کام کرتے ہیں وہی جانتے ہیں کہ اس کام میں انہیں کتنی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتاہے ۔ کچھ لوگ سمجھ بیٹھے ہیں کہ درس نظامیہ کا ہر وہ فارغ التحصیل جس کی کچھ صلاحیت و قابلیت ہو وہ فتویٰ دے سکتاہے مفتی کہلا سکتاہے حالانکہ محض درسی کتابیں پڑھنے پڑھانے سے علم الفتوی حاصل نہیں ہوتا مگر جس پر اللہ رب العزت کا خاص فضل و کرم ہو جائے۔ امامِ عشق و محبت، مجدد دین و ملت سیدی سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمة و الرضوان فرماتے ہیں :
” آج کل درسی کتابیں پڑھنے سے پڑھانے سے آدمی فقہ کے دروازے میں داخل نہیں ہوتا،،
اور فرماتےہیں :” علم الفتویٰ پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتا جب تک کہ مدتہا طبیب حاذق کا مطب نہیں کیا ہو،،۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے