تحریر: شاہ خالد مصباحی سدھارتھ نگری
9554633547
Mohdkhalidmisbahi786@gmail.com
ہندوستان کی موجودہ سیاست کا رخ اب اس قدر غلیظ تر ہوچکی ہے کہ مذہب اور متنازع مذہبیت باتیں ، تمامی سیاستدانوں کا ترقیاتی حربہ بن چکا ہے ۔
شہرت و ترقی کی تحصیل ، پارٹی کو اقتدار کی منزل تک پہونچانے اور ایک طبقہ انسانی کا دوسرے طبقہ کی تشخص و مذہبیت کے خلاف بکواس کرکے جماعت موافق کی نظر میں کامیابی کی آرزو رکھ کر سیاسی کھیل سجانا، یہ سارے کے سارے ہتھکنڈے، جہاں انصاف پسند طبقے اور انسانی زندہ ضمیر کے خلاف اور مردہ عقل ذرائع ہیں ، وہیں اس ملک کی پارلیمنٹری اصول و قواعد کی خلاف ورزی بھی کرتا ہے۔
یہ دیکھا جاتا ہے اس دھرتی پر مختلف المذاہب پیروکار افراد موجود ہیں لیکن آخر آج مسلمان ، مسلمان کا تشخص و لبادہ ، مسلمانوں کے مقابر و مساجدو مدارس ہی نشانے پر کیوں ہیں؟
اور افسوس آج مسلمانوں کی سب سے مقدس ترین کتاب کلام مجید بھی محفوظ نہیں!
اور المیہ یہ ہے کہ عالم کا ہر گوشہ مسلمانوں کے لیے ایک چیلنج ثابت ہوتا جارہا ہے۔
کیونکہ مسلمانی لبادہ اور طور و طریقے میں ہم ایسے دلال خور افراد کے لیے جماعت اسلامی پرورش گاہ بنارہے ہیں ، جن کا باطن دور ، ظاہر بھی متضاد اسلام ہے۔
اور یہ سلسلہ جب سے اسلام آیا تبھی سے چلتا ہوا چلا آرہا ہے ۔ اور قرآن کریم نے اس سلسلہ میں رہنمائی بھی فرمائی کہ :
فَأَََمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِم زَیغ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَہَ مِنہُ ابْتِغَائَ الفِتْنَةِ وَ ابْتِغَائَ تَاوِیلِہِ۲
رہا وہ جن کے دلوں میں بیماری ہے الخ یعنی جن لوگوں کا وجود سر سے پاؤں تک انحراف، گمراہی، پلیدی اور خود پرستی ہے، اور شیطانی وسوسوں سے متاثر ہیں وہ قرآن کے محکمات اور دین کے بدیہی اور واضح و روشن عقائد کو چھوڑ دیتے ہیں اور آیات متشابہ کے ظاہر سے سہارا لےکر کوشش کرتے ہیں کہ معارف قرآن میں تحریف اور غلط تفسیر کر کے لوگوں کو گمراہ کریں ۔ ایسے انسان شیطان کے پالے ہوئے چیلے ہیں کہ اس کا مقصد پورا کرنے میں اس کی مدد کرتے ہیں۔
اب قرآن کریم کی اس آیت کے سانچے میں وسیم رضوی کو رکھیں اور پرکھیں تو اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ وسیم رضوی ایک بدتر انسان ، آر، ایس ، ایس کا سیاسی کتا اور مسلم مخالف ذہن رکھنے والا پلید شخص ہے جس نے جہاں مدارس میں دہشت گردی پیدا کرنے والی باتوں سے لے کر ، حجاب اور مسلم تہذیب و ثقافت پر تنقید اور گیتا ، رامائڑ ، وید مدارس میں شامل نصاب، اس قدر باتیں کرنے والوں ، منصوبہ سازوں میں اول مقام رکھتا ہے اور ہندوستان کی سیاست و قیادت میں ایک ایسا مسلم گندہ راجنیت چہرہ ہے ، جس کا پورا وجود غلاظت کا ڈھیر ہے اس کی زندگی کا ہر گوشہ مال وزر پر بکی ہوئی طوائف کی ضمیر سے بھی بدتر ہے اور اس کا احساس خانہ طوائف کی شریر اداؤں سے جگمگاتے ہوئے حصن حصین سے بھی بد بو دار ہے ۔
ایسے ہی لوگوں کے لیے خورشید اکبر نے کہا تھا کہ
قرآن کا مفہوم انہیں کون بتائے؟
آنکھوں سے جو چہروں کی تلاوت نہیں کرتے
مذکورہ بالا آیت کریمہ جیسے ”فِی قُلُوبِہِم زَیغ” یا ”فِی قُلُوبِہِم مَرَض” ایسے ہی لوگوں کی یاد دہانی کراتا ہے اور لوگوں کو ان کی پیروی کرنے سے ڈراتا ہے۔ اور وانا له لحافظون یہ بتاتا ہے کہ گھبرانے کی قطعی ضرورت نہیں!
کیونکہ مختلف دور میں مختلف لوگوں نے قرآن اور دین اسلام کی مخالفت اور اس کے کچھ حصوں اور ارکان کے مٹانے کی باتیں کیں لیکن وہ خود بخود مٹ گیے اور دین اسلام آج بھی زندہ اور تابندہ ہے۔
کیونکہ
فانوس بن کرجس کی حفاظت خدا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے۔
لیکن آج ملت اسلامیہ کے ہر فرد ہر فرد پر یہ وقتی ضرورت ہے کہ دینی ثقافت اور مکتب فکر کی مخالفت کرنے والوں کے مقصد کو شوشلی طور پر واضح کریں اور قانونی رو روایت سے اس کے خلاف کاروائی بھی کرائیں ۔
وسیم رضوی کا مقصد:
اب آئیے ”اِبتِغَائَ الفِتنَةِ” کی رو سے وسیم رضوی کے مقاصد کو سامنے رکھیں ، ابتغاء الفتنه (فتنہ جوئی) کے مقصد کے تحت، قرآن کے متشابہات کو اپنی فکر و عمل کا معیار قرار دینا اور متشابہات کوہتھکنڈا بنا کر ظاہر قرآن کو چھوڑ کر آیات کی من مانی تاویل اور غلط تفسیر کر کے فتنہ پھیلانا۔
وسیم رضوی کی ابتدائے سیاست سے لے کر اب تک کی اس کی سیاسی اور غیر سیاسی محرکات پر نظر دوڑائیں تو خلاصہ ” تنازع اور نفرت و فتنہ ثابت ہوا ہے ۔
ہم ضرور یہ کہہ سکتے ہیں کہ وسیم رضوی موجودہ زمانے میں عبد اللہ ابن سلول کے فکر و نظر کا وارث دار اور اس کے محرکات کا تابع دار ہے۔ یہ منافق ہے جس کا اسلام و مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ بھارتی جنتا پارٹی کی طرف سے مسلمانوں کے لبادہ میں قوم و وطن کے لیے فتنہ ہے ، جسے مسلم مخالف افراد ، مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کو بکھیرنے اور مسلمانوں کو اعتقادی ، نظریاتی طور پر کمزور ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔
وسیم رضوی فتنہ کیوں ؟
کیوں کہ ”فتنہ” در اصل کسی چیز کو آگ کے اوپر گرم کرنے کے معنی میں ہے۔
جس وقت کسی شی کو گرم کرنے یا جلانے یا پگھلانے کے لئے آگ کے اوپر رکھتے ہیں تو عرب اس معنی کو ”فَتَنَہُ” سے تعبیر کرتے ہیں یعنی اس نے اس چیز کو گرم کیا۔
اس لیے ملت اسلامیہ کو یہ سیاست سمجھنے کی ضرورت ہے کہ "وسیم رضوی” بھاجپا کا ایک فتنہ باز مسلم چہرہ ہے جسے مسلمانوں کے خلاف مذہب کی سیاست کو گرمانے میں بھارتی جنتا پارٹی استعمال کرتی ہے۔
بالآخر اب ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ
آخر کب تک ہماری تہذیب و ثقافت دینی غیرت و حمیت کا مذاق اڑایا جاتا رہے گا۔ سونچیں تو صحیح؛ تو یہ جملہ آپنے آپ میں پوری قوم کی طرف سے ایک بہت بڑا فکر مندانہ سوال ہے ۔
یاد رکھیں! میری رائے میں اس وقت تک جب تک آپ سیاسی ، تعلمی، معاشی لحاظ سے مضبوط نہیں ہوں گے۔
جب تک آپ کی قیادت غیر محدود نہیں ہوں گی یعنی اپنی جماعت کی قیادت کے ساتھ ساتھ غیر قوموں کی قیادت و سیادت کی ذمہ داری قبول نہیں کریں گے ۔
دیکھیں تو صحیح کہ ہمارا ظرف کتنا محدود ہے کہ ایک نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والی یعنی چمارن آکر اپنی قیادت و سیادت سیاسی ، تعلیمی ، معاشرتی لحاظ سے ہم ، ہندوستان کے ایک باعزت کاسٹ سے تعلق رکھنے والوں پر قائم کیں۔ لیکن اب بھی ہم ہوش ربا بنے بیٹھے اپنی محدود تدبیروں کے غلام ہیں
کیا آپ نے سوچا نہیں!
کہ آخر کیا وجہیں ہیں کہ 1/ پرسنٹ سے بھی کم تعداد میں اسی زمین ہندوستان پر سکھ قومیں، مذہبی اور غیر مذہبی دونوں رو سے اپنی زندگی شاہانہ طور سے گزر بسر کررہے ہیں ۔ لیکن کسی کے اندر یہ مجال نہیں ہوتی کہ ان کے مذہب اور تہذیب و ثقافت کے کسی بھی رکن اور حصہ کی طرف نظر بد سے دیکھ لے ۔ آخر ایسا کیوں؟
لیکن افسوس ہمارے پاس ایک لابی جماعت ہونے کے باوجود بھی آئے دن ایک سے ایک نئے معاملات سپریم کورٹ میں ہمارے خلاف داخل کیے جاتے ہیں اور ہر کوئی حتی کہ جماعت کا ایک ذلیل شخص بھی جب چاہے جہاں چاہے دین اسلام کی پاکیزہ چادر پر کیچڑ اچھالنا شروع کردیتا!
قسم سے اب اس قوم کے ہر اس فرد کو اپنی مردہ مریادہ اور سوتے ہوئے حواس کا جنازہ پڑھ لینا چاہیے جس نے اللہ و رسول کی رضامندی اور اس کے دین کی پہرہ داری کی بجائے ، دشمنان اسلام اور حکومت کے چمچوں کا ڈر ستا رہا ہوں اور اسے اپنے نان شبانہ کی فکر لگی ہوئی ہو۔
کیا اس قوم کے افراد میں اب اتنی سی بھی طاقت نہیں بچی ہوئی کہ متحدہ طور پر اس کے خلاف ایک مضبوط تحریک چلائیں تاکہ حکومت کے ایوانوں اور اس کے عملہ کی بد ضمیری کو اپنی روشن خیالی سے منور کر سکیں!
لیکن افسوس۔۔۔۔
اب کہاں ذہن میں باقی ہیں براق و رفرف
ٹکٹی بندھ گئی ہے قوم کی انجن کی طرف
اس قوم سے وہ عادت دیرینہ طاعت
بالکل نہیں چھوٹی ہے مگر چھوٹ رہی (اقبال)