ازقلم: خان انعم محمد نثار (ممبرا)
ہم گیارھویں جماعت میں تھے. یونہی ایک دن مضمون نویسی کے مقابلہ میں نام لکھوالیا ۔ مضمون نویسی سن کر تو ہمارا دل باغ باغ ہو گیا۔ ہمیں مقابلے میں حصہ لینے میں الگ ہی خوشی تھی کیوں کہ لکھنا میرا اپنا شوق تھا ۔بیر حال مقابلہ میں نے نام تو لکھا لیا ، لیکن شرائط سن کر ڈر بھی گئے تھے کہ کم از کم "4000 الفاظ” پر مشتمل مضمون تحریر کرنا ہےاور عنوان تھا "دستورِ ہند”اللہ اللہ کر کے شروعات ہوئی۔ لائبریری سے لے کر انٹرنیٹ تک، ایک ایک کونہ چھان مارا ؛ ٹیچر سے لے کر یوٹیوب تک، ایک ایک کو سنا ، بڑی خاک چھانی تب جا کر کہیں مضمون مکمل ہوا۔
اپنے مضمون سے ہم متفق تھے اور ہے حد خوش بھی تھے۔ مضمون جمع کرکے ہم اپنی پڑھائی میں لگ گئے۔ ایک دن ٹیچر نے آ کر اس خوش خبری سے آگاہ کیا کہ ہمارے مضمون کو مقابلے میں ۷ واں رینک ملا ہے، اس وقت کی خوشی ناقابل بیان ہے۔تقسیمِ انعام کے جلسے میں گئے ، بڑی عزت افزائی ملی، جس پر ہم بار بار اللہ کے شکر گزار ہورہے تھے۔ انعام میں ایک سرٹیفیکیٹ اور 1000روپے نقد ملے۔گھر میں سبھی بہت خوش تھے۔ لیکن ہمیں جو فکر کھائے جا رہی تھی وہ یہ کہ اسے کہاں خرچ کروں ؟ دل میں ایک طرح کا خدشہ تھا کہ انعام کے پیسے کہیں غلط مصرف پر نہ لگ جائیں ، بلکہ کسی اچھے کام میں صرف ہوں تو بہت اچھا ہوگا۔
اسی خیال کے تحت ہم نے اسے دراز میں رکھ دیا کہ ان شاءاللہ، اسے کسی بہترین جگہ پر لگائیں گے ۔اس کے بعد اس ناگہانی آفت کی آمد ہوئی، جسے ہم "کورونا وائرس” کہتے ہیں۔ لاک ڈاؤن لگ گیا ۔ہر چیز اپنی جگہ معطل کردی گئ۔ روزگار چھوٹ گئے ، لوگوں کے گھروں کے چولہے تو بند ہونے ہی تھے۔انسانیت کا درد رکھنے والے لوگ ریلیف کے کام کے لئے دوڑ پڑے ۔ مجھ تک بھی تعاون کی خبر آئی۔ اور پھر بارہا میرے دل میں خیال آیا کہ کچھ روپے تو میں نے بھی رکھے ہیں ۔ اپنے ان قیمتی پیسوں کو اٹھایا اور بنا کسی چوں چراں کے ریلیف فنڈ والوں کے حوالے کردیا۔
ہماری دی گئ رقم گوکہ بہت بڑی نہ تھی لیکن اس کی قدرو قیمت ہمارے لئے بہت اہم تھی ۔ پیسے جمع کرنے کے بعد دل کو ایک عجیب سا سکوں میسر ہوا۔ یہ خیال کہ ہماری وجہ سے آج کسی کے گھر دو وقت کا کھانا میسر آجائے گا ۔ یہ بات میرے دل میں ایک مختلف سا اطمینان پیدا کر رہی تھی۔ ہفتے بعد معلوم ہوا کی ایک بزرگ غریب جوڑے کو میرے 1000 روپے سے راشن کا سامان دلایا گیا ہے۔ اللہ اکبر،
اتنا سننا تھا کی میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اس وقت مجھے جو خوشی مل رہی تھی وہ ناقابل بیان ہے ۔ زندگی کہ آسائشوں نے مجھے ایسی خوشی کبھی نہیں دی جتنی اللہ کی مخلوق نے مجھے خوشی دی۔پھر اس بات کی بھی بڑی تسلی ہوئی کہ میں نے صدقے کے لئے اپنا سب سے اعلی مال دیا۔ہمارے نبی کی تاکید بھی تو ہے؛ کہ اچھے اور پاکیزہ مال کاصدقہ دیا کرو ۔ سچ میں، کسی ضرورت مند کی مدد کر کے ؛ خواہ کتنی چھوٹی سی مدد کیوں نہ ہو ؛ بہت زیادہ خوشی ملتی ہے۔ میری نظروں میں یہی ہوتی ہے "سچی خوشی” جو مجھے اس روز مل گئ۔