ازقلم: عبدالرشید امجدی، اتردیناج پور
صحیح قول کے مطابق ۹ھ میں حج فرض ہوا۔ یہ وہی سال ہے جس میں مختلف وفود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور اسی سال سورۂ آلِ عمران نازل ہوئی، جس میں حج کی فرضیت کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا: وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِّیٌ عَنِ الْعَالَمِیْنَ۔
یعنی لوگوں پر اللہ کا حق ہے بیت اللہ کا حج کرنا جو اس گھر تک آنے کی قدرت رکھتا ہو پھر جو کفر کرے (یعنی باوجود قدرت کے نہ آئے) تو (وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے) اللہ تعالیٰ تو بے نیاز ہے سب جہاں والوں سے
۔ (آل عمران: 97)
حج کی فرضیت پر امت کا اجماع ہے۔ یہ زندگی میں ایک مرتبہ ہر اس مسلمان پر فرض ہوتا ہے، جس میں حج کے شرائط پائے جاتے ہوں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض قرار دیا ہے، لہٰذا حج کیا کرو۔اس پر ایک صحابی نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم ! کیا ہر سال حج کرنا فرض ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خاموش رہے، یہاں تک کہ اس صحابی نے یہ سوال تین بار دہرایا۔ پھر نبئ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :اگر میں ’ہاں ‘ کہہ دیتا تو ہر سال حج کرنا واجب ہو جاتا اور تم اس کی استطاعت نہ رکھتے
(مسلم شریف)
مذکورہ بالا آیت میں جس استطاعت کا ذکر ہے، اس مقدرت و استطاعت کی تفصیل یہ ہے کہ اس کے پاس ضروریاتِ اصلیہ سے فاضل اتنا مال ہو جس سے وہ بیت اللہ تک آنے جانے اور وہاں کے قیام کا خرچ برداشت کر سکے اور اپنی واپسی تک ان اہل و عیال کا بھی انتظام کر سکے جن کا نفقہ اس کے ذمّے واجب ہے۔ نیز ہاتھ پاؤں اور آنکھوں سے معذور نہ ہو، کیوں کہ ایسے معذور کو تو اپنے وطن میں چلنا پھرنا بھی مشکل ہے، وہاں جانے اور ارکانِ حج ادا کرنے پر کیسے قدرت ہوگی؟ اسی طرح عورت کے لیے چوں کہ بغیر محرم کے سفر کرنا شرعاً جائز نہیں، اس لیے وہ حج پر قادر اس وقت سمجھی جائے گی جب کہ اس کے ساتھ کوئی محرم حج کرنے والا ہو، خواہ محرم اپنے خرچ سے حج کر رہا ہو یا عورت اس کا خرچ برداشت کرے۔ اسی طرح وہاں تک پہنچنے کے لیے راستے کا مامون ہونا بھی استطاعت کا ایک جز ہے، اگر راستے میں بدامنی ہو، جان مال کا قوی خطرہ ہو، تو حج کی استطاعت نہیں سمجھی جائے (اور اس پر حج فرض نہیں ہو گا)
جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہ کرے اس کے لئے قرآن و حدیث میں سخت وعید آئی ہے
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ھے کہ:
جس شخص کے پاس اتنا خرچ ھو اور سواری کا انتظام ھو کہ بیت اللہ شریف جاسکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں کہ وہ یہودی ھوکر مرجائے یانصرانی ھوکر، اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد کی تائید میں یہ آیت پڑھی:
"وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًاط وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللہ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ”
(آل عمران:۹۷)
اور اللہ تعالیٰ کے (خوش کرنے کے) واسطے لوگوں کے ذمہ اس مکان (بیت اللہ) کا حج (فرض) ھے اس شخص کے ذمہ ھے جو وہاں جانے کی سبیل رکھتا ھو اور جو منکر ھو تو (اللہ جل شانہ کا کیا نقصان ھے) اللہ تعالیٰ تمام جہاں سے غنی ھے (اس کو کیا پروا)۔
(ترمذی، باب ماجاء فی التغلیظ فی ترک الحج، حدیث نمبر:۷۴۰)
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس شخص کے لیے کوئی واقعی مجبوری حج سے روکنے والی نہ ھو، ظالم بادشاہ کی طرف سے روک نہ ھو یا ایسا شدید مرض نہ ھو جو حج سے روک دے؛ پھر وہ بغیر حج کئے مرجائے تو اس کو اختیار ھے کہ چاھے یہودی ھوکر مرے یانصرانی ھوکر۔
(دارمی، باب من مات ولم یحج، حدیث نمبر:۱۸۳۹۔ جمع الجوامع اوالجامع الکبیر للسیوطی، حدیث نمبر:۶۶۱۱)
حج کے ارکان
۱ – حج کی نیت کرنا ، اور کہنا : اللَّھم لَبَّیک حَجا
۲ – میدان عرفات میں ٹھہرنا ۔
۳ – طواف زیارۃ کرنا ۔
۴ – صفا اور مروہ کی سعی کرنا ۔
بخاری و مسلم
نوٹ : حج کے ارکان میں سے اگر کوئی رکن چھوٹ جائے تو حج باطل ہوجاتا ہے۔
حج کے واجبات
۱- میقات سے احرام باندھنا ۔
۲ – غروب آفتاب تک عرفات میں ٹھہرنا ۔
۳- قربانی کی رات مزدلفہ میں گزارنا ۔
۴ – ۱۰؍ ذوالحجہ کو صرف بڑے جمرہ کو اور ۱۱؍،۱۲؍ ذوالحجہ کو تینوں جمرات کو ترتیب کے ساتھ اللہ اکبر کہہ کر سات سات کنکریاں مارنا۔
۵ – ۱۱؍، ۱۲؍ ذوالحجہ کی رات منٰی میں گزارنا ۔
۶ – سر کے بال چھوٹے کروانے یا منڈوانے ۔
۷ – طواف وداع کرنا ۔
مسلم شریف
نوٹ : ا گر کوئی واجب چھوٹ جائے تو اس پر دم دینا واجب ہوگا جو حدود مکہ میں ذبح کیا جائے اور فقراء مکہ میں تقسیم کیا جائے۔
حج کے اقسام
۱- حج قرن
میقات سے احرام باندھنا (قربانی کا کوپن یا اس کی پیسوں کا انتظام کرنے کے بعد ) اللَّھم لَبیک عُمرہ وحَجا کہہ کر نیت کرنا۔ اور۸؍ذی الحجہ کو حج کے لئے اسی احرام سے جانا اور ۱۰؍ ذی الحجہ کو کنکریاں مار کر احرام کھولنا اور حج مکمل کرنا۔
۲- حج تمتع
۱ – میقات سے احرام باندھنااور اللَّھم لَبیک عُمرة کہہ کر نیت کرنا ۔
۲- عمرہ کرنے کے بعد احرام کھولنا ، اور ۸ ؍ ذی الحجہ تک حج کا انتظار کرنا ۔حج کا احرام باندھ کر منٰی جانا اور حج مکمل کرنا ۔
۳ ۔حج افراد
۸میقات سے احرام باندھنااور اللَّھم لَبَّیک حَجا کہہ کر نیت کرنا مکہ والے حضرات حج کے لئے اپنی رہائش گاہ سے ہی احرام باندھیں خواہ ان کی رہا ئش مستقل ہو یا عارضی ۔طواف اور صفا اور مروہ کی سعی کرنا( اگر حج مفرد کرنے والے نے طواف قدوم کے وقت سعی نہ کی ہو ، یا پھر وہ اپنے گھر سے سیدھا منیٰ کی طرف چلا گیا ہو تو اسے طواف زیارت کے بعد سعی کرنی ہو گی) اور وہ قربانی کے دن تک اپنے احرام میں ہی رہے گا ۔
بخاری ومسلم
مسئلہ :- جس شخص کے پاس کسی وقت بھی اس قدر سرمایہ جمع ہو گیا جو حج کے لئے کافی ہے اور زمانہ حج یعنی شوال کے شروع ہونے تک اس کی ملک میں رہا پھر اس نے بجائے حج کرنے کے اس کو مکان کی تعمیر یا کسی شادی کی تقریب یا کسی کام میں خرچ کر دیا تو چونکہ اس کے ذمّے حج فرض ہو چکا اس لئے اس پر لازم ہے کہ پھر کوشش کر کے اتنا سرمایہ جمع کرے جس سے اپنا حج فرض ادا کر سکے _
مناسک ملا علی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ حج و عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں اگر وہ دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا ابن ماجہ
ایک مسلمان کے لیے اس سے بڑی نعمت کیا ہو سکتی ہے کہ عمر بھر کے گناہ معاف ہو جائیں اور وہ جو دعا مانگے قبول ہو جائے جس کے ذریعہ وہ اپنے تمام دینی اور دنیاوی مقاصد میں بہ آسانی کامیاب ہو جائے _
لیکن ان تمام فضائل و برکات کے حاصل کرنے کی شرط یہ ہے کہ حج کے فرائض و واجبات اور سنن کو پوری احتیاط سے ادا کرے اور جو چیز حج کو خراب کرنے والی ہیں ان سے پرہیز کرے ورنہ اگر فرض سے سبکدوشی ہو بھی گئے تو فضائل و برکات سے محروم رہنا یقینی ہے حج و عمرہ کو جانے والے حضرات اس معاملے میں اکثر غفلت کرتے ہیں حج و زیارت کے احکام اور مسائلِ معلوم کرنے کا اہتمام نہیں کرتے ہیں وہاں پہنچ کر معلموں کے ناواقف نوکروں کے سپرد ہو جاتے ہیں نہ واجبات کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں نہ دوران احرام گناہوں سے بچنے کی فکر کرتے ہیں یاد رہے حج و عمرہ کا احرام باندھ کر انسان پر بہت سی شرعی پابندیاں عائد ہوتی ہیں جنکے خلاف کرنا سخت گناہ ہے اور حرم شریف میں جو گناہ کیا جائے اس وبال بھی انتہائی سخت ہوتا ہے یہ بے خبر لوگ حج کرکے یہ حساب لگاتے ہیں کہ ہم گناہوں سے پاک ہو کر آئے ہیں اور ثواب آخرت کا بڑا ذخیرہ کر کے لائے ہیں اور ہوتا یہ کہ حج کے واجبات و سنن ترک کرنے کا وبال اور واجبات احرام کی خلاف ورزی کر کے گناہوں کا ذخیرہ لیکر لوٹ تے ہیں حرمین شریفین کی بے شمار برکات اور حق تعالیٰ کی بیحد رحمت سے یہ سب معاف ہو جائے اس کا امکان ضرور ہے مگر ہمیں اس بے فکر ہونے کا کوئی حق نہیں اور جو گناہ بے پرواہی سے کیا جائے اس کے معاف ہونے کا امکان کم ہے ہر زمانے کے علماء نے حجاج کرام کی ہمدردی و خیر خواہی کے پیش نظر ضروری احکام آسان کر کے شائع کر دئے ہیں ان کو سفر سے پہلے اور دوران سفر میں برابر سامنے رکھیں انشاء اللہ تعالیٰ حج مقبول نصیب ہو گا..