خانوادۂ رضا

اعلی حضرت علیہ الرحمة والرضوان کی عبقری شخصیت اور احترام سادات

از قلم : محمد افسر علوی قادری چشتی خانقاہ یارعلویہ براؤں شریف ضلع سدھارتھ نگر یوپی انڈیا

7081182040

اس دنیا میں لاکھوں لوگ پیدا ہوتے ہیں اور رخصت ہوجاتے ہیں۔ یہ سلسلہ سیدنا ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام سے جاری ہے اور قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔ اب تک لا تعداد انسان دنیا میں آئے اور اپنی حیات مستعار کا محدود وقت گذار کر اس دنیا سے چلے گئے مگر تاریخ اسلام کا نادر نمونہ بننے کی سعادت ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی۔ یہ خوش بختی اور سعادت جن لوگوں کو نصیب ہوتی ہے حساس اور درد مند دل ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی انہیں یاد رکھتے ہیں اور ان کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی ہے۔ برصغیر کی تاریخ اسلام کے ایسے ہی نمائندہ اور عبقری شخصیات میں ایک اہم نام *مجدد دین و ملت امام اہلسنت اعلی حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ* بھی ہیں۔ یوں تو محدث بریلوی کی حیات و خدمات کے مختلف گوشوں پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، مگر میں آج اس مختصر مضمون میں آپ کی زندگی کو *” ماہ و سال "* کے اعتبار سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں۔

ولادت باسعادت: اپنے وقت کے اس عظیم مجدد کی جلوہ گری 10/ شوال المکرم 1272ھ بمطابق 14/ جون 1856ء بروز ہفتہ کو محلہ جسولی بریلی شریف میں ہوئی آپ نے اپنا سن ولادت قرآن پاک کی اس آیت مبارکہ سے اخذ کیا ہے
"اُوْلٰٓئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْاِیْمَانَ وَ اَیَّدَھُمْ بِرُوْحٍ مِنْھُمْ” (سورۃ المجادلہ پارہ 28 آیت نمبر 22)
ترجمہ: یہ ہیں جن کے دلوں میں اللّٰه نے ایمان نقش فرمادیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد کی۔

اسم گرامی: اعلی حضرت کے والد ماجد حضرت نقی علی خان بریلوی علیہ الرحمہ نے آپ کا نام "محمد” رکھا اور جد امجد حضرت مولانا رضا علی خان بریلوی علیہ الرحمہ نے "احمد رضا” رکھا۔ تاریخی نام "المختار” ہے اور آپ نے خود اپنے نام سے پہلے "عبد المصطفی” کا اضافہ کیا۔ چنانچہ حدائق بخشش میں فرماتے ہیں:
خوف نہ رکھ رضا ذرا تو تو ہے "عبد مصطفی”
تیرے لئے امان ہے، تیرے لئے امان ہے
آپ کا تخلص "رضا” ہے اور عوام اہل سنت آپ کو "اعلی حضرت” ” امام اہل سنت” اور "فاضل بریلوی” کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

شجرہ نسب: آپ کا شجرہ نسب یہ ہے: ” احمد رضا خان بن نقی علی خان بن رضا علی خان بن کاظم علی خان بن محمد اعظم خان بن محمد سعادت یار خان بن محمد سعید اللہ خان علیہم الرحمہ”
اعلی حضرت نے حدائق بخشش میں یوں ذکر کیا ہے:
احمد ہندی رضا ابن نقی ابن رضا

عہدِ طفلی: آپ کی رسم بسم اللّٰه خوانی کی حتمی تاریخ معلوم نہ ہوسکی۔ تاہم آپ نے 4 سال کی عمر میں قرآن کریم ناظرہ مکمل کر لیا تھا۔ آپ نے اردو کی ابتدائی تعلیم اور قرآن کریم ایک صاحب سے حاصل کی اور مرزا غلام قادر بیگ صاحب سے ابتدائی درسی کتب پڑھی۔ ان کے بعد آپ کے والد ماجد حضرت مولانا نقی علی خاں علیہ الرحمہ نے آپ کی تعلیم و تربیت کی ذمّہ داری خود اپنے ذمہ لے لی۔ والد گرامی کی خاص توجہ سے کم سنی میں ہی علوم و فنون کے دریاؤں میں ایک ماہر شنادر کی طرح تیرنے لگے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے پچاس سے زائد علوم و فنون پہ مہارت تامہ حاصل کر لی۔ اور تیرہ سال دس ماہ کی عمر میں 1286ھ کو فراغت ہوئی اور اسی دن رضاعت کے مسئلہ پر ایک تحقیقی فتویٰ لکھ کر والد ماجد کی خدمت میں پیش کی لائق و فائق فرزند ارجمند کا علمی فتویٰ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور اسی دن فتویٰ نویسی کی ذمّہ داری آپ کو تفویض فرما دی۔ دوران تعلیم آپ کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے کوئی بھی کتاب اپنے والد سے مکمل نہیں پڑھی بلکہ صرف اتنی ہی پڑھی جس سے آپ کو طرزِ مصنف حاصل ہو جائے پھر آپ پوری کتاب خود حل فرما لیتے۔

بیعت و خلافت: اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ 1294ھ میں تاج الفحول حضرت مولانا عبد القادر صاحب بدایونی علیہ الرحمہ اور اپنے والد ماجد کے ہمراہ جب قطب وقت، تاجدار مارہرہ، حضرت سید شاہ آل رسول قدس سرہ کی خدمت بابرکت میں پہنچے، تو انہوں نے اعلی حضرت قبلہ کو دیکھتے ہی جو الفاظ فرمائے تھے وہ یہ تھے ٫٫آئیے ہم تو کئی روز سے آپ کے انتظار میں تھے،، اعلی حضرت اور ان کے والد ماجد بیعت ہوئے اور مرشد برحق نے تمام سلاسل کی اجازت عطاء فرما کر تاج خلافت اعلی حضرت کے سر پر اپنے دست کرم سے رکھ دیا۔ بعض مریدین نے جو اس وقت حاضر تھے حضرت سیدنا آل رسول قدس سرہ سے عرض کیا کہ حضور اس بچے پر یہ کرم کہ مرید ہوتے ہی تمام سلاسل کی اجازت و خلافت عطاء ہوگئ نہ ضروری ریاضت کا حکم ہوا، نہ چلہ کشی کرائی، اس کے جواب میں سیدنا آل رسول نے فرمایا کہ تم کیا جانو یہ بالکل تیار آئے تھے، انہیں صرف نسبت کی ضرورت تھی تو یہاں آکر وہ ضرورت بھی پوری ہوگئ۔ یہ فرما کر آبدیدہ ہوگئے اور فرمایا کہ اللّٰه رب العزت دریافت فرمائے گا کہ آل رسول تو دنیا سے ہمارے لئے کیا لایا "تو میں احمد رضا کو پیش کروں گا”
کسی شاعر نے اس فرمان کو یوں بیان کیا ہے۔
روز محشر اگر مجھ سے پوچھے خدا
بول آل رسول تو لایا ہے کیا
پیش کر دوں گا لایا ہوں احمد رضا
یا خدا یہ امانت سلامت رہے

مجدد وقت: اعلی حضرت محدث بریلوی علیہ الرحمہ کے فیضانِ مجددیت کا ظہور 1301ھ کے آغاز سے ہوا۔ جس دن محرم الحرام کا چاند ہوا اس دن حسب معمول آپ کے کچھ رفقاء آپ کی نشست گاہ میں آگئے۔ اعلی حضرت خلاف معمول کچھ تاخیر سے پہنچے اور سلام کے بعد چاند کے متعلق پوچھا بعض حضرات نے تصدیق کردی تو مولوی محمد شاہ خان صاحب سے فرمایا: بھائی اب تو صدی بدل گئی اب ہم آپ کو بھی بدل جانا چاہئے۔ یہ فرمانا تھا کہ مجلس پر ایک سکوت طاری ہوگیا اور ہر شخص اپنی جگہ بیٹھا رہ گیا۔ مولوی محمد شاہ خان صاحب فرماتے ہیں کہ اس دن سے آپ میں من جانب اللّٰه بڑی تبدیلی آگئی مگر ہم لوگوں کی حیرانی اس وقت ختم ہوئی جب دنیا آپ کو مجدد کے لقب سے یاد کرنے لگی۔

احترام سادات: اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کا خاندان سادات کی عزت و عظمت کے لئے مدت سے مشہور ہے۔ اعلی حضرت قبلہ کے دادا مولانا رضا علی خاں روزانہ نماز فجر پڑھ کر سادات کرام نو محلہ کی خیریت معلوم کرنے اور سلام عرض کرنے جایا کرتے تھے۔ ان کے اس معمول میں کسی خاص مجبوری کی وجہ سے ہی تعطل واقع ہوتا مولانا رضا علی خاں کے بعد مولانا نقی علی خاں صاحب بھی اس خاندان سے وابستہ رہے کیونکہ وہ اپنے والد ماجد کو اسی طریقہ پر عمل کرتے دیکھا کرتے تھے۔ مولانا نقی علی خاں صاحب نے بھی اس جلیل القدر روایت کو قائم رکھا۔
ہر تقریب میں سادات کرام کو بطور خاص مدعو کیا جاتا اور ان کو زور دیکر شریک کیا جاتا جبکہ ان کا اعزازی حصہ سب سے دوگنا ہوا کرتا۔اس بات سے سبھی خاص و عام آگاہ تھے کیونکہ برسوں سے اسی عمل کو سب دیکھ رہے تھے اعلی حضرت نے بھی اس روایت کو جاری رکھا اور سب سے بڑھ کر سادات کی تکریم فرمائی۔ آل نبی کے بارے میں اعلی حضرت احمد رضا خاں فاضل بریلوی فرماتے ہیں
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانا نور کا
ایک بار کا واقعہ ہے کہ لاعلمی میں ایک سید زادے اعلی حضرت کے یہاں ملازم ہوئے۔ جب سیادت کا علم ہوا تو گھر والوں کو تاکید کردی کہ شہزادے سے خدمت نہ لی جائے اور جو کچھ دینے کا وعدہ ہوچکا ہے بطور نذر پیش کیا جائے نہ بطور اجرت کچھ دنوں بعد وہ سید زادے چلے گئے کیونکہ بے محنت رقم لینا پسند نہ آیا۔ اسی طرح جب میلاد شریف وغیرہ کا تبرک تقسیم ہوتا تو سادات کرام کو دوہرا حصہ دیا جاتا ایک بار سید محمود جان صاحب کو غلطی سے ایک ہی حصہ ملا۔ اعلی حضرت کو علم ہوا تو تلافی میں باصرار پوری ایک سینی پیش کی اور اپنے خادم کے ذریعے ان کے گھر تک بھجوائی۔

حج و زیارت: اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ دو بار حج و زیارت سے سرفراز ہوئے، پہلی بار 1295ھ / 1878ء میں اپنے والدین کے ہمراہ زیارت حرمین شریفین اور حج بیت اللّٰه ادا فرمائی، اور دوسری بار حج بیت اللّٰه کیلئے 1323ھ / 1905ء میں جب اعلی حضرت علیہ الرحمہ اپنے بھائی کو حج و زیارت کے لئے الوداع کہنے جھانسی کے مقام تک آئے حالانکہ اب تک آپ کا اپنا پروگرام ساتھ جانے کا نہ تھا، مگر الوداع کہتے وقت دل ایسا بے قرار ہوا کہ صبر و ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ فوراً واپس آئے والدہ صاحبہ سے اجازت لی اور پھر واپس جا کر اسی جہاز پر بھائی صاحب کے ساتھ حج و زیارت کو روانہ ہوگئے۔
شاید اسی موقع پر یہ شعر کہا ہوگا۔
جان و دل ہوش و خرد سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا۔
حرمین شریفین کی یہ دوبارہ حاضری غیبی تھی کیونکہ اس میں حق و باطل کا تاریخی فیصلہ ہونا تھا۔ اور اسی سفر میں بد مذہبوں کے اعتراضات کے جواب میں الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃ تصنیف فرمائی جس پر بہت سے علمائے حجاز نے تقاریظ لکھیں۔

وصال: اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے وفات سے چار ماہ بائیس دن پیشتر کوہِ بھوالی (ضلع نینی تال) پر 3 رمضان المبارک 1339ھ / 10 مئی 1921ء کو اپنے وصال کی تاریخ اس آیتِ کریمہ سے نکالی "وَیُطَافُ عَلَیْھِمْ بِاٰنِیَۃٍ مِّنْ فِضَّۃٍ وَّ اَکْوَابٍ” آخر کار آپ کی یہ پیشین گوئی پوری ہوئی اور 25 صفر المظفر 1340ھ / 28 اکتوبر 1921ء بروز جمعہ کو بارہ بجے دن کے بعد جائداد کا وقف نامہ لکھوا کر اپنے دستخطوں سے مزین فرمایا پھر حجۃالاسلام سے سورۂ رعد اور یٰسین شریف بغور سماعت فرمائی اور پانی نوش فرماکر کلمہ طیبہ پڑھنے لگے اور 2 بج کر 38 منٹ پر اللّٰه اللّٰه کے ورد کے ساتھ داعی اجل کو لبیک کہا اور ان کی روح پاک اپنے رفیق اعلی کی بارگاہ میں چلی گئی اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَیْہ رٰجِعُوْن بریلی شریف سوداگران میں آپ کا مزار پاک مرجع خلائق اور منبع فیوض و برکات ہے۔
ماخوذ از:- سیرت اعلی حضرت و سوانح اعلی حضرت و دیگر کتب سیرت
♾️♾️♾️♾️♾️♾️♾️♾️♾️♾️

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے