اصلاح معاشرہ

معاشرتی سلوک: آؤ کہ تجدید وفا ہم بھی کریں

تحریر: عین الحق امینی قاسمی، بیگوسرائے، بہار

کہتے ہیں کہ رشتے خون کے ہی نہیں” احساس "کے بھی ہوتے ہیں ،اگر احساس ہے تو اجنبی بھی اپنے ہوتے ہیں ،ورنہ اپنے بھی اجنبی بن کر رہ جاتے ہیں ۔اسی لئے رشتوں کی بقا کے لئے رابطہ ضروری ہے ،ورنہ بھول جانے سے تو اپنے ہاتھوں سے لگائے پودے بھی سوکھ جاتے ہیں ، تصویروں میں جولوگ ساتھ کھڑےنظر آتے ہیں وہ اپنے نہیں ہوتے ،بلکہ جو تکلیف میں ساتھ کھڑے ہوتے ہیں وہ سب اپنے ضرور ہوتے ہیں ،اکثر دیکھا گیا ہے کہ خونی رشتوں میں جب دوریاں بڑھ جاتی ہیں تو اپنوں کی خبریں غیروں کی زبانی سننے کو ملتی ہیں ۔
غیر اس لئے اپنے ہوتے ہیں کہ ان سے کوئی حق وابستہ نہیں ہوتا اور اپنوں سے حق نہیں ،حقوق وابستہ ہوتے ہیں ،اسی لئے کبھی اپنوں سے اپنا حصہ مانگ کر دیکھئیے ،تب سارے رشتے بے نقاب ہوجائیں گے اور جب اپنا حق چھوڑ دیں گے تو کانٹۓ بھی گلاب کی خوشبو دیں گے ۔عام طور پر رشتے اس لئے خراب ہوتے ہیں کہ غلط فہمیاں اپنے پاؤں پسارا لیتی ہیں ،جہاں ایک دوسرے کے تئیں اچھائیاں کم خرابیاں زیادہ جڑ پکڑ لیتی ہیں ۔باتیں بالکل سچ ہیں کہ رشتے قدرتی موت نہیں مرتے ،ان کو ہمیشہ انسان ہی قتل کرتا ہے ،کبھی نفرت سے ،کبھی نظر اندازی سے اور کبھی غلط فہمی سے ۔بہت سے رشتے اس لئے بھی ختم ہوتے دیکھے گئے کہ ایک شخص صحیح بول نہیں پا رہا ہے اور دوسرا صحیح سمجھ نہیں رہا ہے ،غلط گہمی کے نتیجے میں کبھی بات بنتے بنتے بگڑجاتی ہے اور کبھی بنی بنائی بات بگاڑ دی جاتی ہے ۔
کبھی کبھی جب مال کی فراوانی ہوتی ہے تو بظاہر عقل اپنا داؤ کھیلنے کی کوشش کرتی ہے ،تب یک طرفہ مفاد ،پھن پھیلائے حق اور سچ کو ڈستا رہتا ہے اور وہ بے چارہ جو ہر پہلو سے معذور ومجبور ہے "مرتا کیا نہ کرتا ” کا مجسم بنا ،کام نکالنے کی آس میں آئندہ رشتوں کو بھول جانے کی دل ہی دل قسمیں کھاتا رہتا ہے ،تاآں کہ وہ وہ سامنے والے کے ظلم وجبر سے چور ہوچکا ہوتا ہے ،اسی لئے کہا جاتا ہے کہ رشتے ذاتی مفاد سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں ،انہیں بنانے ،سنوارنے اور بچائے رکھنے کے لئے ضرورت پڑے تو ذاتی مفاد کو قربان کر بھی دینا چاہیئے۔
معاشرتی سلوک میں دلوں کو لبھانے والےوعدوں کی بوچھار اور وقت وقت پراسے مسلسل توڑتے رہنے کی لت بھی کافی گہرا زخم دے جاتی ہے ،جس کی ٹیس اور چبھن اکثر سوہان روح ثابت ہوئی ہے ،یہ اس لئے بھی کہ معاشرے میں جب سے پیسے کی عزت بڑھی ہے ،رشتوں کی اہمیت دن بدن گھٹ رہی ہے اور جانے انجانے میں وعدہ خلافی کا یہ ناکارہ کھیل فروغ پانے لگا ہے ،پہلے کبھی کاغذ وقلم کی شاید اتنی فراوانی نہ رہی ہو ،مگر زیادہ تر لوگ آپس میں ایک دوسرے کی زبان پر بھروسہ کرلیا کرتے تھے اور سماج کو بھی یہ احساس تھا کہ گردن کٹ جائے وہ منظور ہے ،مگر زبان ان کی نہیں بدلتی تھی ۔
کتنی خوبصورت بات ہے کہ لوگ جس طرح مردوں کو کاندھا دینے کی فضیلت سمجھتے ہیں ،کاش! زندوں کو بھی سہارا دینے کی فضیلت ان کے دلوں میں جم
جاتی ۔مرنے والے کو کہاں معلوم کہ تم نے اس کے لئے کتنے آنسو بہائے ،مگر ایک زندہ انسان کو مرتے دم تک یاد رہے گا کہ تمہاری وجہ سے اس نے کتنے جوکھم اٹھائے ۔لوگ شادیوں میں شرکت کے لئے جس طرح لفافے کو ضروری خیال کرتے ہیں ،اگر مریضوں کی عیادت اور اس موقع سے بھی لفاف کی اہمیت سمجھ میں آجائے تو اللہ کی نگاہ میں ” لفاف ” بھی باعث اجر ہوگا اور لفاف والے بھی بامراد …..
معاشرتی سلوک کا پہلو جتنا اہم ہے لوگ اس سے اسی درجہ غافل ہیں ،ورنہ اس وقت نہ وعظ و تقریر کی کمی ہے نہ تحریک وتنظیم کی ،مدرسہ، کالج اور خانقاہ سمیت دانشوری کی بھی کمی نہیں ہے ،ہاں ! دل درد مند ،فکر ارجمند ،حالات کو بھانپنے اور معاملہ کو سمجھنے اور مشکل اور غیر مفید راستوں سے معاشرے کو بچانے کی ضرورت ہے ۔معاشرتی سلوک کو پائدار بنانے کی غرض سے بسا اوقات حق پر ہونے کے باوجود بھی ہمیں خاموش رہ جانا چاہئے ،اس لئے نہیں کہ ہم کمزور ہیں یا ڈرگئے ،بلکہ بحث وتکرار سے زیادہ ہمیں رشتے عزیز ہیں ۔ ہماری خاموشی ہماری بزدلی کی علامت نہیں ،بلکہ ضمیر کو یہ گوارہ نہیں کہ اپنوں کو اسی کے لہجے میں جواب دیا جائے ۔دکھیاروں کو بھی معاشرے کو صحیح رخ پر باقی رکھنے کی غرض سے کوشش جاری رکھنی چاہئے اور ذہن میں اس بات کو جگہ ملنی چاہیئے کہ جو ذات باری رات کو درختوں پر بیٹھے پرندوں کو نیند میں گرنے نہیں دیتی ،وہ ذات انسان کو کیسے بے یار و مددگار چھوڑ سکتی ہے ۔
اللہ پر بھروسہ رکھئیے کہ وہاں انصاف کی چکی ذرا دھیرے ضرور چلتی ہے ،مگر چکی کے پاٹوں میں بہت باریک پستا ہے ،وہاں ایک کا بدلہ ستر سے زیادہ ہے ،وہاں نیت تلتی ہے پلڑوں میں ،عمل ناپے نہیں جاتے اور ناہی اٹھے ہاتھ کبھی خالی واپس آتے ہیں وہاں سے۔اپنے بچوں کے سامنے دوسرے رشتہ داروں کی برائیاں بیان کرنا ،اپنی ذاتی رنجشیں بچوں میں منتقل کرنا ،اس طرح والدین اپنے بچوں کے ذہنوں میں ہمیشہ کے لئے نفرتوں کے بیج بودیتے ہیں ،،جس سے گھروں میں کبھی صلح نہیں ہوتی ،بلکہ جھگڑے نسل درنسل چلتے رہتے ہیں ،جب کہ والدین ، اپنے بچوں میں ،نفرت نہیں محبت ،رشتوں کی قدر اور احساس پیدا کریں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے