ربیع الاول

ماہ ربیع النور: تقریری عناوین کیا ہوں؟

از۔ اشکررضالطفی مصباحی

ماہ ربیع النور کا اپنی تمام تر، برکات کے ساتھ ورود مسعود ہوگیا ہے ۔ اس ماہ میں میلاد کی محفلیں بھی خوب سجیں گی ، اور سیرت کے حوالے سے جلسوں کا کثرت سے انعقاد بھی ہوگا۔

وقت اور حالات کے اعتبار سے ضروری ہے کہ ، ہمارے مذہبی پروگراموں کے زاویہ میں بھی تبدیلی آۓ ۔ ورنہ برسہابرس سے جلسے ہورہے ہیں ، اور ان جلسوں نے کتنا فاٸدہ پہونچایا ؟ ہمارے سامنے ہے .

سب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ ہمارے جلسوں میں نہ تو خطبا کو موضوعات ديے جاتے ہیں، اور شعرا و ناظم اجلاس کے لیے وقت کی تحدید ہوتی ہے ، نتیجتاً ساری رات قہقہوں میں گذرجاتی ہے ۔ اس طرح نہ یہ کہ صرف ہمارے وقت کا ضیاع ہوتا ہے ، بلکہ قوم کی خطیر رقم بھی نااہلوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے ۔

١۔ علماکو مدعو کریں۔
تقریر کیليے تو سب سے پہلے آپ ذی استعداد عالم کا انتخاب کریں ، تاکہ وہ اپنی بات مکمل دلاٸل وبراہین کے ساتھ پیش کرسکے ، اور حوالہ کا استحضار بھی ہو ، نہ یہ کہ صرف چیخ وپکار کرنے والے کو بلالیا جو دو گھنٹے محض قصص وحکایات میں گذار دے ، نہ کسی کی ذہن سازی کرسکے اور نہ ہی حرکت وعمل پر آمادہ کرسکے۔

٢۔ قصہ وکہانی سے اجتناب برتیں ۔
گفتگو علمی کی جاۓ ، آیات واحادیث کے اسرارورموز کا انکشاف کیاجاۓ ۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب خطیب عالم ہو۔ آج تعلیم یافتہ طبقہ اسی ليے ہمارے جلسوں میں شرکت نہیں کرتا ہے ۔ ہم اصول چھوڑکر فروع کے سہارے اپنی بات رکھنے کے عادی ہوچکےہیں ، ہم غوث وخواجہ ورضا کے نام پر بلاتے رہے اور وہ توحید ورسالت کے نام پر ، ہم کرامات وواقعات کے ذریعہ عوام کو لذت سماعت کا سامان فراہم کرتے رہے، اور وہ سیرت رسول کے نام پر عوام کو گمراہ کرتے رہے ، نتیجہ سامنے ہے ۔ ۔۔۔۔۔ ہمیں اپنے اس طریق کار کا جاٸزہ لینا ہوگا۔۔۔۔

٣۔ موضوع کا انتخاب کریں.
جس خطیب کو سننا چاہیں پہلے انہیں موضوع دیدیں کہ ، آپ کا خطاب اس عنوان پر ہونا ہے ۔ ورنہ ہوتا یہ ہے کہ خطیب صاحب دوگھنٹے مسلسل گرجتے ہیں اور عنوان تک کی شناخت نہیں ہوپاتی ہے ، آیت کوٸ پڑھا حدیث کوٸی اور واقعہ کوٸی اور ۔
حالات کاجاٸزہ لیں کہ وقت اور محفل کس عنوان کی متقاضی ہے اسی پر بلوایا جاۓ ۔
(اس دور میں اسلام اور استشراق، پیغمبر اسلام اور مستشرقین کے اعتراضات وغیرہ. اس قسم کے موضوعات پر بولا اور بلوایاجاۓ۔
ایک دور تھا جب لوگوں تک یہ باتیں نہیں پہنچی تھیں، لیکن اب ہر آدمی اپنی اولادکو دوسری زبانیں، خاص طور پر انگریزی پڑھانا چاہتاہے ۔ کالج اور یونیورسٹی میں جانے کے بعد وہ تمام کتابیں پڑھےگا، جو غیروں کی لکھی ہوٸی ہیں ، اور یہ اعتراضات پڑھ کر اس کے ذہن میں اسلام کے تعلق سے بہت سارے شکوک وشبہات پیدا ہوجاٸیں گے ۔
اس سے بچنے کےليے وہ سارے اعتراضات ، جواب سمیت بتایا جاۓ ۔پھر یہ کہ نیٹ اور یوٹیوب کی ایجاد نے تو اور الحاد وارتداد کو ہمارے شبستانوں تک پہونچادیا ہے ۔ اس ليے مغرب اور اسلام کو بھی عنوان بناناضروری ہے* )

٤۔ وقت کی تحدید۔
نعت خواں ہویا خطیب ہر ایک کا وقت متعین کردیاجاۓ ۔
اور کہہ دیاجاۓ کہ آپ کو اتنے وقت میں کلام پڑھنا ہے ۔ خطیب صاحب کو عنوان کے ساتھ ساتھ وقت بھی بتادیں کہ آپ کو اتنے وقت میں اپنی بات پیش کرنی ہے ۔ ورنہ ٹاٸم پاس کرنے کیليے جہاں جھوٹے اور من گھڑت
واقعات کا سہارا لیاجاتا ہے وہیں فرضی واقعہ اپنی جانب منسوب کرکے سنادیتے ہیں جس سے وقت بھی نکل جاتا ہے اور عوام کو مزا بھی آجاتا ہے۔
٥. اسی طرح نقیب اجلاس کو بھی بتادیا جاۓ کہ وقت کی پابندی بہت ضروری ہے ، اشعار بولیں لیکن کم ۔

ہوتا یہ کہ اچھے اچھے علما اسٹیج پر موجود رہتے ہیں اور صرف پانچ سے دس منٹ کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ ، رات کے کسی پہر بولنے کاموقع مل جاۓگا ، لیکن بالآخر رسوائی ہاتھ آتی ہے، اور وہیں پر نقیب بیس تیس منٹ ایک نعت خواں کو بلانے کےلیے لیتا ہے اور شرم بھی محسوس نہیں کرتا . تعجب تو اس پرہوتا ہے کہ صدر اور سرپرست صاحب بھی (جوکہ مولوی ہوتے ہیں) اس کی باتوں پر انہیں داد دیتے رہتے ہیں
حالاں کہ علما اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ انہیں اسٹیج پر بولنے دیاجاۓ . آج غیروں کے یہاں جو ہماری شبیہ بگڑی ہے اور جہالت کی گندگی جو ہمارے دامن سے لگائی جاتی ہے ، اس کے ذمہ دار ، یہی لوگ ہیں

خداے قدوس ، ہمیں اپنے جلسوں ، اور عوامی مزاج میں درآئی قباحتوں اور شناعتوں کی اصلاح کی توفیق عطافرماے.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے