بغداد کے ایک بازار میں چار اندھے بھیک مانگ رہے تھے۔ ایک اندھا عرب کا تھا، دوسرا ایران کا، تیسرا ترکی کا، چوتھا ہندی تھا۔ ایک شخص نے ان چاروں اندھوں کو کچھ پیسے دیے اور کہا: اس سے کوئی چیز لے کر چاروں آپس میں بانٹ لوں۔
پیسے لے کر چاروں مشورہ کرنے لگے کہ کیا خریدیں؟
ہندی بولا: میں تو ”داکھیں“ کھاؤں گا۔ ایرانی کہنے لگا:میں تو انگور کھاؤں گا۔ ترکی نے کہا: میں تو ”روزم“ کھاؤں گا۔ عربی بولا: میں ”عنب“کھاؤں گا۔
انگور، روزم اور عنب چاروں نام انگور ہی کے ہیں۔ چیز ایک ہی تھی لیکن نام ہر زبان میں الگ الگ تھے۔ چنانچہ نام کے اس اختلاف سے چاروں اندھے آپس میں الجھ پڑے اور اپنی اپنی زبان کے مطابق ہر ایک اصرار کرنے لگا کہ جس چیز کا نام میں نے لیا ہے میں تو وہی کھاؤں گا۔ حتی کہ ہاتھا پائی تک نوبت پہنچ گئی۔ اتفاقاً وہاں ایک سمجھ دار آدمی آ گیا اس نے اندھوں کا جھگڑا معلوم کیا تو ان سے کہنے لگا: پیسے مجھے دو۔ میں بازار سے ہر ایک کی منشا کے مطابق چیز لے آتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے پیسے اسے دے دیے اور وہ بازار سے انگور خرید لایا اور اندھوں کے سامنے انگور رکھ دیے۔
چونکہ اپنی اپنی زبان میں چاروں انگور ہی کے طالب تھے اس لئے انگور پا کر چاروں خوش ہو گئے کہ ہماری منشا کے مطابق چیز مل گئی۔
اسی طرح ہمارے اردگرد بہت سے اختلافات کی نوعیت کچھ ایسی ہی ہے۔ بسا اوقات دو دست و گریباں لوگوں میں بھی صرف لفظوں کے ہیر پھیر کا جھگڑا ہوتا ہے۔
اللہ پاک ہمارے حالِ زار پر رحم فرمائے اور ہماری صفوں میں اتحاد و اتفاق پیدا ہو، ورنہ ہمارا ہر گزرتے دن کے ساتھ شیرازہ بکھرتا جارہا ہے اور ہم تقسیم در تقسیم کا شکار ہو رہے ہیں۔
ازقلم : محمد سلیم قادری رضوی